بین الاقوامی مالیاتی شرکت

بین الاقوامی مالیاتی شرکت (IFC: International Finance Corporation) عالمی بنک کے پانچ ذیلی اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کا مقصد عالمی بنک کے ذیلی اداروں کے دیگر مقاصد کے علاوہ ترقی پذیر ممالک کے نجی شعبہ کو قرض فراہم کرنا ہے۔

اس کا قیام میں ہوا جس کا بنیادی مقصد غریب ممالک کے نجی شعبہ کو ترقی دینا تھا اور نجی شعبہ کی ترقی کے ذریعے لوگوں کی زندگی بہتر بنانا ہے۔ یہ نجی شعبہ کو قرض فراہم کرنے والا دینا کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ نجی شعبہ کوترقی دینے کے لیے اس کے مقاصد میں مندرجہ ذیل شامل ہیں

نجی شعبہ کے ایسے منصوبوں کے لیے روپیہ فراہم کرنا جو ترقی پذیر ممالک میں کام کر رہے ہیں۔

ترقی پذیر ممالک کے نجی شعبے کی بین الاقوامی مالیاتی منڈی سے سرمایہ حاصل کرنے میں مدد کرنا۔

حکومتوں اور تجارتی اداروں کو مشورے اور تکنیکی مدد دینا۔

ایسے ملک جو بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی (IBRD) کے رکن ہوں، اس کے رکن بھی بن سکتے ہیں۔ اس وقت اس کے 178 ارکان ہیں۔ اسے بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی ایک بورڈ آف گورنرز کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ بورڈ آف گورنرز اپنا اختیار ڈائریکٹروں کو سونپتے ہیں جو ووٹ کے ذریعے فیصلے کرتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی شرکت کو سرمایہ رکن ممالک مہیا کرتے ہیں اور ان کے سرمایہ کے حساب سے ان کے ووٹ شمار ہوتے ہیں۔ عالمی بنک کے باقی ذیلی اداروں کی طرح ترقی یافتہ ممالک کے ووٹ اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ جو چاہے کر سکتے ہیں۔ اس کے صدر بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی کے صدر ہی ہیں جن کا تعلق ھمیشہ امریکہ سے ہوتا ہے۔ مگر بین الاقوامی مالیاتی شرکت (IFC) اپنی حیثیت میں ایک خود مختار ادارہ ہے۔

عالمی بنک کے باقی ادارے حکومتی ضمانت کے بغیر قرض نہیں دیتے مگر بین الاقوامی مالیاتی شرکت حکومتی ضمانت نہیں مانگتی اور نجی شعبہ کو اس خیال سے قرض فراہم کرتی ہے کہ اس سے غربت میں کمی واقع ہوگی۔ یاد رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی شرکت ایک منافع کمانے والا ادارہ ہے اور اپنی پچاس سالہ زندگی میں اسے کبھی نقصان نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہائت دیکھ بھال کر قرض کا اجراء کرتے ہیں۔ اور خطرات کو کم سے کم رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ قرض دینے کے لیے کہیں اور سے قرض نہیں لیتے بلکہ اپنے ہی سرمایہ سے قرض دیتے ہیں۔ قرض دینے کے بعد وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اس سے ایک تو غربت میں کمی واقع ہوتی ہو اور دوسرے خود منصوبوں میں حصہ لے کر اس کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی شرکت کا ایک اور اہم کام غریب ممالک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ماحول کو مزید سازگار بنانے کی کوشش ہے۔ اس سلسلے میں وہ بھر پور تکنیکی مدد مہیا کرتے ہیں۔

بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی

بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی (IBRD: International Bank for Reconstruction and Development) عالمی بنک گروپ کے پانچ ذیلی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ27 دسمبر 1945 کو بریٹن ووڈز کے معاہدہ کے تحت وجود میں آیا۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دوسری جنگ عظیم دوم سے متاثرہ یورپی ممالک کی مدد کے لیے قرضے دے۔ یورپی ممالک کے لیے ان قرضوں کے منصوبوں کو مارشل پلان کے تحت عمل میں لایا گیا۔ پہلے اس کا مقصد جنگ زدہ یورپی ممالک کی دوبارہ سے تعمیر کرنا تھا مگر اب یہ ساری دینا کے لیے قرضے دیتا ہے۔ یہ ادارہ حکومتوں اور سرکاری شعبہ کے اداروں کو اس حکومت کی ضمانت پر قرض دیتا ہے۔ اس کے لیے وہ منڈی میں بانڈ کا اجراء کرتا ہے۔ چونکہ اس ادارہ کو ارکان ممالک کی ضمانت حاصل ہوتی ہے اس لیے ان بانڈوں کی کریڈٹ ریٹنگ ہوتی ہے اور بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی کو بہت کم شرح سود پر قرضے بھی مل جاتے ہیں جنہیں وہ آسان شرائط پر رکن ممالک کو دے سکتے ہیں۔ شرح سود بعض اوقات ایک فی صد سے بھی کم ہوتی ہے جو صرف انتظامی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی نے25 جون 1946 کو کام شروع کیا اور پہلا قرضہ 25 کروڑ ڈالر فرانس کو دیا۔ شروع میں اس نے صرف مغربی ممالک اور جاپان کو قرضے دیے جن کا تعلق سڑکون، پل، طیران گاہ (ائیر پورٹ) اور بجلی گھر بنانے کے ساتھ تھا تاکہ جنگ زدہ ترقی یافتہ ممالک جنگ کے اثرات سے نکل آئیں۔ جب ان ممالک میں ایسے قرضوں کی ضرورت نہیں رہی تو عالمی بنک نے اپنی توجہ ترقی پذیر ممالک پر مرکوز کر دی۔

بین الاقوامی انجمن برائے ترقی

بین الاقوامی انجمن برائے ترقی (IDA: International Development Association) عالمی بنک کے پانچ ذیلی اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کا مقصد غریب ترین ممالک کو قرض فراہم کرنا ہے۔ یاد رہے کہ عالمی بنک کی دوسری ذیلی تنظیم بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی (IBRD) زیادہ تر درمیانی آمدنی والے ممالک کو قرض دیتا ہے۔ مگر بین الاقوامی انجمن برائے ترقی کا تعلق انتہائی غریب ممالک سے ہے۔ یہ 24 ستمبر 1960 کو وجود میں آیا۔ یہ غریب ترین ممالک کو ایسے قرضے فراہم کرتا ہے جن کی واپسی کی مدت 35 سے 40 سال ہوتی ہے۔ یہ اپنا سرمایہ امیر ممالک سے لیتی ہے ۔ اس نے میں سب سے پہلے 1960 میں چلی، بھارت، سوڈان اور ہونڈوراس کو قرض کا اجراء کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *