بھنڈی بازار: اقتصادی ترقی کا گہوارہ

ملک کے گنجان آبادی والے علاقوں میں سے ایک جنوبی ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقہ بھنڈی بازار میں حیرت انگیز شہری اصلاح کی پہل مرکزی اقتصادی اصول کی رو سے ایک محدود پیش کارکردگی ہے۔ قریش راغب کہہ رہے ہیں کہ یہ پہل مشکلات کے جم غفیر میں کچھ بہترین راستوں تک رسائی جیسا معاملہ ہے۔

ملک کی اقتصادی راجدھانی ممبئی کے جنوبی حصے میں بھنڈی بازار نامی علاقے نے سماجی و اقتصادی ترقی کے لحاظ سے کافی طویل سفر طئے کیا ہے۔ یہ علاقہ کبھی آبپاشی کا خطہ ہوا کرتا تھاجیسا کہ مہاراشٹر گزٹ میں مذکور ہے، “ڈونگری کے شمال مغرب میں بھنڈی کا ایک باگان ہوتا تھا جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام بھنڈی بازار پڑگیا۔” 1803ء میں برٹش فورٹ علاقے کی سنگین آتشزدگی سے متاثر لوگوں کی بازآبادکاری کے لئے انگریزوں نے اس علاقے کو فروغ دیا۔ آج بالآخر اس کی حیثیت ایک شاندار تجارتی ضلع کے طور پر ابھر کر سامنے آچکی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ امتیازی کاروباری قیادت کی اپنی دو سو سالہ تاریخ کے باوجود بھنڈی بازار رفتہ رفتہ سماجی غفلت کی پستیوں اور بنیادی ڈھانچے کی کمزوری میں ڈوبتا چلاگیا جس وجہ سے آزاد ہندوستانی معیشت میں اس کے سامنے چیلنجوں کا انبار آگیا۔

اس علاقے کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی اقتصادی بحران کے دوران بھی 16.5 ایکڑ پر مشتمل ممتاز تجارتی حرکیت والے اس علاقے نے خفیف کریڈٹ سہولتوں میں شمولیت کے باوجود توسیع و تنوع اور نئے تجارتی محاذ جیسی اقتصادی اصلاحات کا گواہ رہا جبکہ اس بحران نے ملک کی مجموعی شرح نمو کو متاثر کردیا تھا۔ اس حیرت انگیز پھیر بدل کی شاید سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ مذکورہ خطے میں سرگرم 1250 کمرشیل اداروں کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ داودی بوہرہ سماج کی ملکیت میں ہے جو اٹھارویں صدی کے دوران اس شہر میں قدم جمانے والی قدیم ترین تجارتی کمیونٹیوں میں سے ایک ہے۔ کاروباری فراست کے لئے معروف داودی بوہرہ افراد کی تجارت بھنڈی بازار اور سبھی جگہ قرض حسنہ ٹرسٹ سے استفادہ کرتے ہوئے بڑھی ہے جو اس کمیونٹی کے روحانی پیشوا عزت مآب ڈاکٹر سیدنا محمد برہان الدین کے ذریعہ قائم کردہ ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے۔ یہ ٹرسٹ قلیل وطویل مدتی غیر سودی قرض دیتا ہے اور اسی نظام نے بدلے میں بحران کے عمومی عواقب پر قابو پایا اور علاقے میں سرمایے کی درآمدگی میں اضافہ کیا ہے۔

ہارڈ ویئر اوزاروں، مصنوعی اشیاء کے بازار، جمعہ بازار کے علاوہ اس علاقے میں قائم مذہبی و ثقافتی مراکز مثلاً دنیا بھر میں معروف روضہ طاہرہ (سیدنا طاہر سیف الدین کی درگاہ) کی وجہ سے یہاں زیارتی سیاحت میں بھی کافی اضافہ درج کیا گیا ہے۔ ان تمام سماجی و اقتصادی حرکیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مارکیٹ پلیئرس خاص طور سے خدمت و ضیافت کے شعبوں سے منسلک ساتھ ہی چھوٹے مینوفیکچرروں نے علاقے میں اپنی دکانیں کھول لی ہیں جن کے توسط سے بھنڈی بازار کے متعدد گھروں کو ملازمت کے مواقع اور متبادل ذریعہ آمدنی دستیاب ہورہی ہے۔

تاہم معمولی دکاندار ہوں یا اشرافیہ گاہکوں پرمنحصر ویلیو ایڈیڈ خدمات فراہم کرنے والے تاجر ہوں یا وسیع احاطہ کی ضرورت والا کوئی کاروبار، تمام چھوٹے بڑے مارکیٹ پلیئرس اس علاقے کی انحطاط پذیر شہری سہولتوں سے بری طرح متاثر رہے ہیں۔

%74 زمینی رقبہ کے ساتھ موجودہ 66,264.74 سکوائر میٹر کا یہ علاقہ جنوبی ممبئی کا سب سے زیادہ گنجان آبادی والا علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ممبئی کے سیفی برہانی اپلفٹمنٹ ٹرسٹ (ایس بی یو ٹی) کے ذریعہ شروع کئے گئے مجوزہ بھنڈی بازار ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ میں تعمیر نو میں %54.55 کا زمینی احاطہ رہے گا۔ اس لئے یہ پروجیکٹ بنیادی اقتصادی اصول کی رو سے ایک محدود اصلاح مانا جائے گا اور یہ مشکلات کے جال میں کچھ بہترین راستے تک رسائی جیسا معاملہ ہے۔

خالص اقتصادی نقطہ نظر سے اس علاقے میں غیر نفع بخش تعمیر نو کی پہل کمرشیل و ریسیڈنشیل زمین کی مکمل بے لچک سپلائی میلان کو صحیح سمت دے گی ۔ اس کی وجہ سے یہاں سکونت پذیر افراد کے کنزیومر سرپلس میں اضافہ ہوگا اور اس کے علاوہ گردونواح کے علاقوں کو مثبت خارجیت دستیاب ہوگی۔ گاڑیوں کی آمد و رفت کے لئے 15 میٹر چوڑی داخلی متبادل سڑکیں، کمرشیل گاڑیوں کے لئے علیحدہ لوڈنگ انلوڈنگ سہولتیں اور علاقے میں پارکنگ کی سہولت کے لئے 1,16,153.93 سکوائر میٹر کا انتہائی کارآمد علاقہ اس پہل کے کچھ نمایاں فوائد ہیں۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھنڈی بازار کی اقتصادی ترقی کا تعین بہت حد تک اس علاقے کے ثقافتی اور سماجی ارتعاش کے پیمانے پر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف جہاں علاقے میں موجود تمام مذہبی و ثقافتی تعمیراتی ڈھانچے برقرار رکھے جائیں گے وہیں تمام قانونی تجارتیں اور پردیسی رہائش پذیر افراد ایک ہی محلے میں دوبارہ منتقل کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ موجودہ غیر منصفانہ بازاری حالات کے برعکس پڑوس کے امدادی و متبادل سامانوں کے سبھی سٹیک ہولڈروں کو بطور حکمت عملی شاہراہوں کے سامنے کی دکانیں دستیاب کرائی جانی ہیں جس سے یہ علاقہ یقینی طور پر ممبئی کے طویل ترین ہائی سٹریٹ شاپنگ ایریا کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گا۔

بھنڈی بازار کی اقتصادی ترقی میں معاون یہ جملہ عوامل جہاں کافی حد تک مقامی ثقافتی لذت برقرار رکھنےاور بازار کی روایتی روح بحال کرنے جیسے کئی مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں وہیں یہ اقدام معاصر کاروباری ماحول فراہم کرکے بھنڈی بازار کی سابقہ تجارتی عظمت کو قوت بہم پہنچاتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک واضح تبصرہ یہ ہے کہ مجوزہ 3000 کروڑ روپئے (545.45 ملین امریکی ڈالر ) والے بھنڈی بازار تعمیر نو منصوبے کے تین کیلومیٹر نیم قطری حلقے میں سماج کے تمام طبقات کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا عمدہ شاپنگ ایریا موجود نہیں ہے۔ 100,000 کے اوسط کے ساتھ ایک محدود تخمینے کے مطابق تھری فولڈ کامرس اور تجارتی نمو کا میلان ایک بہترین مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔

بعد ازاں اقتصادی تحرک و تقویت ملازمت کے حصول، وسیع سرمایہ کاری اور تقویت یافتہ پڑوسوں میں پنہاں ہوگی جبکہ مالی اثرات کے طور پر سابقہ کمزور تخلیقی اداروں سے ماخوذ مقامی آمدنی کے نئے ذرائع کا سامنے آنا بھی ایک قابل توجہ پہلو ہوگا۔

ظاہری طور پر اگرچہ ایک چھوٹی اقلیت نے شہر کی قدرتی شکل و صورت کے تحفظ کی وکالت کرتے ہوئے تحفظات کی پیشکش کی ہے لیکن بدلے میں ان کے پاس اس علاقے کے طویل و عریض خطوط کو مسمار کرنے والی کالونی دور کی غلطیوں کی تصحیح کے لئے پیش کرنے لائق کوئی معتبر حل بھی نہیں ہے۔ 80 فیصد عمارتوں کی حالت اتنی خستہ ہے کہ وہ کبھی خطرناک طریقے سے منہدم ہوسکتی ہیں جو اب تک بکثرت مرمتوں کی مرہون منت ہیں، اس پر طرہ یہ کہ 150 سال پرانی تنگ و پیچیدہ اور خمدار سڑکیں اپنی قسمت پر آنسو بہا رہی ہیں۔ یہ تمام حالات انسانی زندگی و اثاثوں کے لئے سنگین جوکھم کی صورت بنائے ہوئے ہیں۔ جس سوال کا جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کیا بھنڈی بازار کے لوگوں کو ایک عمدہ زندگی گذارنے کا حق ہے یا نہیں جس طرح ان کے آباء واجداد نے ایک صدی قبل گذاری تھی ؟

مضمون نگارجنوبی ایشیا میں موجودہ سماجی و اقتصادی امور کے حوالے سے ممبئی مقیم مبصر ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *