الخیر کریڈٹ سوسائٹی نے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں میں قبولیت حاصل کی ہے

ادارے کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ جب بدعنوانی سے بچنے کے لئے کو آپریٹیو سوسائٹیاں اپنے قوانین میں تبدیلیاں کرلیں گی تو حکومت کو بھی کسی طرح کے تحفظات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔پٹنہ سے دانش ریاض کی رپورٹ

الخیر کے منیجنگ ڈائرکٹر نیر فاطمی
الخیر کے منیجنگ ڈائرکٹر نیر فاطمی

پھلواری شریف بہار کا مسلم اکثریتی پسماندہ علاقہ ہے جسے خانقاہوں کی سرزمین سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔ مختلف فلاحی و دینی ادارے بھی علاقے کی ترقی میں کوشاں ہیںجس میں الخیر چیریٹیبل ٹرسٹ کا نام بھی شامل ہے۔ 1998میں علاقے کے سرکردہ سماجی کارکنان نے لوگوں کی معاشی وسماجی ضرورتوں کو پورا کرنے اور غریب و نادار لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے ٹرسٹ کی بنیاد رکھی جو بتدریج الخیر کو آپریٹیو کریڈٹ سو سائٹی کی شکل میں اب لوگوں کی خدمات بجا لا رہا ہے۔کوآپریٹیو کے چیرمن فیروز عالم صدیقی کہتے ہیں’’الخیر چیریٹیبل ٹرسٹ کے تحت کام کرتے ہوئے ہم نے تین باتوں کو اپنے مقاصدمیں شامل رکھا تھا سب سے پہلے تو ہم تعلیم پر توجہ دے رہے تھے کہ ہر گھر میں لوگ پڑھے لکھے دکھائی دیں ،اسی کے ساتھ ہم نے حفظان صحت یا Healthپر توجہ مرکوز کی اور پھر غریب و پسماندہ افراد کے مابین روزگار کی کیا صورت ہو اور وہ خود کفیل کیسے ہو سکیں اس کی خاطر جد و جہد شروع کی ۔لہذا جب Employmentیا Income Generationسے متعلق ہمارا کام شروع ہوا تو ہم کو آپریٹیو کریڈٹ سوسائٹی کے بارے میں سوچنے لگے۔لیکن زمانے کی نزاکتوں کو دیکھتے ہوئے ہم نے کوئی جلد بازی نہیں کی بلکہ ملک و بیرون ملک جہاں بھی مائکرو فائنانس پر کام ہو رہا تھا وہاں سے ہم نے ان کا Formatمنگوایا اور مطالعہ شروع کیا۔جب تمام طرح سے شرح صدر حاصل ہوگیا اور اور مختلف جگہوں کے ماڈل کا مطالعہ کر لیا گیا تو ہم نے اپنی کارروائی شروع کی اور فی الحال (Co-oprative)کوآپریٹیو،( Micro Finance)مائیکرو فائنانس اور( Intrest Free)بلا سودی کو اپنا مطمح نظر بنا یا ہے۔البتہ یہ تذکرہ ضروری ہے کہ کو آپریٹیو کی وجہ سے ہی ہم مائکرو فائنانس اور بلا سودی پر عمل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں‘‘۔1950؁ میں بہار کے ضلع آرہ میں آنکھیں کھولنے والے صدیقی جنہیں بہار راجیہ نن گزیٹیڈ ایسو سی ایشن کا نمائندہ ہونے کے ساتھ وقف ڈیولپمنٹ بورڈ کا آفیسر ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے بین الاقوامی معیشت کے نمائندہ سے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں’’ہمارے ادارے میںچھ ہزار سے زیادہ ممبران ہیں جن میں 40%تعداد غیر مسلموں کی ہے۔غیر مسلموں میں ہمارا دارہ اسی طرح مقبول ہے جس طرح مسلمانوں کے مابین ، ہم نہ صرف ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ ان کی مدد کرنے میں بھی ہم پیش پیش رہتے ہیں ۔غریب مزدورطبقہ کے افراد ہمارے یہاں سے قرض لے جاتے ہیں اور اپنی تجارت کو فروغ دیتے ہیں۔‘‘مگدھ یونیورسٹی سے معاشیات میں گریجویشن کرنے والے صدیقی کے مطابق ’’2002سے 2013تک ہم تقریباً دس کروڑ روپیہ بطور قرض دے چکے ہیں۔جس کے ذریعہ لوگوں نے اپنی تجارت کو فروغ دیا ہے یا اپنے گھریلو مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘‘ ایک مسلم ادارے میں غیر مسلموں کی پذیرائی اور بقائے باہم کے اصول پر مل جل کر سماجی ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے صدیقی کہتے ہیں’’ہمارے بورڈ آف ڈائرکٹرس میں غیر مسلموں کی تعداد بھی ہے جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتداء سے ہی وائس پریسیڈنٹ غیر مسلم رہے ہیں ۔چونکہ قومی معاشی دھارے میں اکثریتی فرقہ کے ساتھ اقلیتوں کی شمولیت ضروری ہے اسی مردوں کے ساتھ خواتین کا شامل ہونا ملکی معیشت پر بہتر اثرات ڈالتا ہے لہذا ہمارے ادارے میں خواتین کی بھی بڑی تعداد ہے جو ہماری خدمات سے مستفید ہو رہی ہیں۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ چند برس کے عرصہ میں الخیر نے جس طرح عوا م الناس میں اپنا وقار بحال کیا ہے اور لوگوں کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا ہے ،یہ نہ صرف ادارے میں کام کر رہے لوگوں کی خلوص و محبت کا نتیجہ ہے بلکہ اللہ رب العزت نے اس ادارے کے بانیان کے اندر جو جذبہ رحم و ترحم اور انسانیت کی فلاح و بقا کا داعیہ پیدا کیا ہے وہ اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مختلف سماجی کاموں کے حوالے سے مشہور ادارے کے منیجنگ ڈائرکٹر نیّر فاطمی کہتے ہیں’’سماج میں ایک عام رائے یہ پھیلی ہوئی ہے کہ غریب آدمی چور ہوتا ہے، وعدہ خلاف ہوتا ہے ،لوگوں کے پیسے ہضم کر لیتا ہے، پوری ایمانداری کے ساتھ معاملات نہیں کرتا ۔جب اسے کچھ دیا جائے تو وہ بآسانی واپس نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ لیکن میرا تجربہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ ایماندار غریب ہوتا ہے ۔وہ اگر کسی سے قرض لیتا ہے تو اسے واپس کرنے کی خواہش رکھتا ہے جب آپ اسے خود کفیل بنا دیں تو وہ دوسروں کو بھی خود کفیل دیکھنے کے لئے آپ کے قدم سے قدم ملانے کی کوشش کرتا ہے اور پوری خوش اسلوبی کے ساتھ قرض کی رقم واپس کرتا ہے ۔البتہ معاملات وہاں خراب ہوتے ہیں جہاں لوگ انہیں سہولت دینے کی بجائے ان کے سر پر ویسے ہی سوار ہوجاتے ہیں جیسے سودی ساہوکار ۔لیکن جب آپ اسے سہولت کے ساتھ رقم کی واپسی کے لئے مہلت عطا کرتے ہیں تو نہ صرف وہ جذبہ شکر سے لبریز ہو جاتا ہے بلکہ آپ کے ادارے کے حق میں مثبت کام بھی بجا لاتا ہے۔‘‘ نیر فاطمی کہتے ہیں’’میں نے دیکھا ہے کہ جب کوئی پانچ ہزار یا دس ہزار روپئے قرض لے کرکاروبار شروع کرتا ہے تو بسا اوقات اسے نقصان ہوجاتا ہے یا مارکیٹ کی صورتحال کو اس وقت وہ سمجھ نہیں پاتا اور خسارے میں آجاتا ہے ایسے میں اگر وہ دوبارہ آپ کے پاس آئے اور آپ اسے لعن طعن کر کے واپس کردیں تو پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ آپ کا قرض ڈوبا ،دوسرا یہ کہ ایک شخص جو کسی تجربے سے گذررہا تھا وہ اس سے دلبرداشتہ ہوگیا اور ایک ابھرتا ہوا تاجر تھوڑی سی غفلت سے مایوسی کا شکار ہوکر سماج کو ہی لعن طعن کرنے لگا ۔لہذا ہونا یہ چاہئے کہ جب آ پ کو احساس ہو کہ اس کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے نقصان ہوا ہے تو اسے مزید رقم کے ساتھ تجارت کے گُر بھی سکھائیں یا اس فیلڈ کے جو لوگ ماہر ہیں اس سے رابطہ کرا دیں ۔اب ایک شخص جو ڈوب رہا تھا وہ ابھر جائے گا اورآپ کے حق میں دعائے خیر بھی کرے گا اور سابقہ رقم کے ساتھ موجودہ رقم بھی واپس کردے گا۔ ‘‘لوگوں میں قرض کی تقسیم سوسائٹی کو چلانے کے انداز پر گفتگو کرتے ہوئے نیّر فاطمی کہتے ہیں’’ریئل اسٹیٹ میں جو لوگ ایماندار ہیں ہم اپنی رقم وہاں لگاتے ہیں اور وہاں سے جو منافع آتا ہے اس سے غریبوں کو قرض دیتے ہیں ۔اسی طرح جب تاجروں کو قرض دیتے ہیں تو ان سے Profit ratio طے کرواتے ہیں جبکہ ان سے یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ روزانہ یا ہفتے میں کس طرح اس قرض کو واپس کریں گے لہذا عموماً تاجر حضرات روزانہ یا ہفتے میں 100یا 200یا اپنی سہولت کے حساب سے معاملات طے کر دیتےہیںاور پھر اسی سہولت سے رقم ادا کرتے رہتے ہیں ۔لہذا قرض کی ادائیگی میں انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور ہماری رقم مع منافع موصول ہوجاتی ہے۔‘‘

الخیر کے ڈائرکٹر مروجہ عادتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’اب تک کے تجربات کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بہار کا مسلمان کاروبار یا روزگار کےلئےسود

الخیر کے چیرمن فیروز عالم صدیقی
الخیر کے چیرمن فیروز عالم صدیقی

پر پیسے نہیں لیتا ،بلکہ عموماً بیٹی کی شادی یا بیماری کے وقت وہ مہاجن کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے ۔جب کہ المیہ یہ بھی ہے کہ اس کے اندر بچت کی عادت نہیں ہے ۔لیکن جب سے ہم نے سوسائٹی قائم کی ہے اور لوگوں کے اندر معاشی سوجھ بوجھ پیدا کیا ہے تو لوگ بیشتر کاموں کے لئے قرض بھی لے رہے ہیں اور بچت بھی کر رہے ہیں لہذا جو رقم مہاجن کھا جاتا تھا اب وہ رقم ان کے اپنے گھروں میں محفوظ ہو رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں غیر مسلموں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور پوری ایمانداری کے ساتھ وہ ہمارے یہاں سے معاملات کر رہے ہیں۔‘‘نیّر مسلمانوں کے مابین رائج خرابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مسلمان مکان خریدنے،فریج، ٹیلی ویژن یا شادی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے تو قرض لیتا ہے لیکن تجارت کے لئے نہیں جبکہ ہندو حضرات تجارت کے لئے قرض لیا کرتے ہیں اور گھریلو مسائل کے لئے ان کی ڈیمانڈ کم کم ہی ہوتی ہے۔ــیہی وجہ ہے کہ ہم لوگ اب بزنس لون بڑھا رہے ہیں اور Consumption لون کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔یہ پوچھے جانے پر کہ نیشنلائزڈ بینک کے مقابلے کو آپریٹیو بینک کی کیا حالت ہے جبکہ حکومت بھی بہ زبان حال کو آپریٹیو کو پسند نہیں کرتی نیر فاطمی کہتے ہیں ’’دراصل کو آپریٹیو بینک کو کوآپریٹیو مافیائوں نے بدنام کر دیا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے البتہ بہار میں اب بھی حالت غنیمت ہے۔دراصل مائیکرو فائنانس یا کو آپریٹیو میں جب بورڈ آف ڈائرکٹرس یا ان کے رشتہ داروں کو قرض نہ دیا جائے اور نہ ہی مالی منفعت پہنچائی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ حالات میں بہتری واقع ہوگی۔کیونکہ اس کی وجہ سے نہ صرف داخلی چپقلش کم ہوگی بلکہ لوگوں کا ذاتی مفاد بھی کسی کام نہیں آسکے گا۔لہذا کو آپریٹیو سوسائٹیاں اپنے By Lawsمیں اسے شامل کر لیں تو بہت ساری خرابیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *