ظفر سریش والا : مسلم لاشوں کی سوداگری کرنے والانریندرمودی کا حمایتی مسلم چہرہ

دانش ریاض

دانش ریاض
دانش ریاض

یہ 2009کی بات ہے جب میں کولکاتہ میں اسلامی بینکنگ پر سیمینار منعقد کر رہا تھا ۔اس وقت ’’پارسولی کارپوریشن ‘‘اسلامی مالیات میں کام کرنے والی مشہور کمپنی کے بطور ابھر رہی تھی۔میں نے پروگرام میں ’’پارسولی کارپوریشن‘‘کو بطور اسپانسر شریک ہونے کی دعوت دی۔جسے ظفر نے قبول کرتے ہوئے ملاقات کا وقت متعین کیا۔جب میں ملاقات کے لئے ممبئی میں (ایل ٹی مارگ )کرافورڈ مارکیٹ سے متصل ان کی آفس میں گیا تو دیکھا کہ وہ پریگمیٹک ویلتھ منیجمنٹ کے بانی اور اسلامی تجارہ کے مدیر امتیاز مرچنٹ سے کسی عنوان پر تلخ کلامی کرر ہے ہیں۔آفس میں سگریٹ کا دھواں بھرا تھا۔میں باہر ہی ریسپشن میں بیٹھا رہا جب دھویں کے مرغولے ہوا میں تحلیل ہوگئے اور تلخ کلامی معمول کی گفتگو پر آگئی تو پھر ظفر سریش والا اور امتیاز مرچنٹ نے مجھ سے تفصیلی گفتگو کرکے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ملاقات کے بعد رات کے وقت میں انٹرنیٹ پر خبریں پڑھ رہا تھا کہ میری نظر ’’یاہو نیوز‘‘ پر پڑی جس میں ’’پارسولی کارپوریشن ‘‘کے شٹ ڈائون کی خبر تھی۔سیبی کے افسران نے کمپنی پر جرمانہ عائد کیا تھا اور کام کاج کو معطل رکھنے کا حکم صادر کیا تھا۔اس خبر کے بعد میں نے ’’پارسولی کارپوریشن‘‘سے اسپانسر شپ لینے کا ارادہ ملتوی کردیا اورصرف ان کے دوست امتیازمرچنٹ سے ہی رابطے میں رہا۔پروگرام کے بعد ایک روز ظفر سریش والا نے فون کیا اور ملاقات کی خواہش کے ساتھ دبے لفظوں میں اس کرب کا بھی اظہار کردیا کہ میں نے اسپانسر شپ حاصل نہ کر کے غلطی کی ہے۔جس کے جواب میں میں نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ جن لوگوں کا کردار مشکوک ہواور جو مذہب کو کاروبار کرنے کے لئے استعمال کرتے ہوں میں ایسے لوگوں سے دور رہنے میں ہی بھلائی محسوس کرتا ہوں۔

modi-with-zafar-sareshwala6
اس واقعہ کو کئی سال بیت گئے کہ ایک روز میڈیا میں ہفت روزہ نئی دنیاکے مدیر شاہد صدیقی کا گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے انٹرویو کی خبر شاہ سرخیوں میں دیکھی۔تفصیلات کے بعد پتہ چلا کہ اس انٹرویو کا انتظام سریش والا نےکیا تھااور اردو میڈیا میں پہلی بار مودی کی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی اگرچہ صدیقی کا انٹرویوبہت زیادہ متنازع ثابت ہوا اور نتیجہ میں ان کو سماجوادی پارٹی سے باہر نکا ل دیا گیا ۔ لیکن اسی دوران انہوں نے کئی اہم سماجی ممبروں کی ملاقات کا بھی انتظا م کیا جیسے لندن میںواقع کاؤنسل آف انڈین مسلم کے چیف لارڈ آدم پٹیل،ڈاکٹر ظفر محمود،مفتی اعجاز ارشد قاسمی وغیرہ وغیرہ جبکہ پتنگ بازی کے لئے فلم اداکارسلمان خان کو احمد آباد لانے اور نریندر مودی سے ملانے میں بھی سریش والا نے ہی پہل کی تھی۔
اس واقعہ کے بعد ہی سریش والا دوبارہ شاہ سرخیوں میں نظر آنے لگے۔دراصل ظفر سریش والا تبلیغی جماعت کے ایک رکن ہیں جس کا حلقہ اثر پوری دنیا کو محیط ہے۔ ظفر اپنی داڑھی کے ساتھ اپنی نمازوں کی بھی مارکیٹنگ کرنا نہیں بھولتے یہی وجہ ہے کہ ممبئی کے نہرو سینٹر میں جب انہوں نے’’ پارسولی کارپوریشن‘‘ کا پروگرام منعقد کیاتھا تو کمپنی کے تعارفی فلم میں انہوں نے اپنے آپ کوکمپنی کےتمام اہلکاروں کے ساتھ نماز پڑھتےہوئے دکھانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی تھی۔لہذا اب وہ پنچگانہ نماز کے ساتھ ایک اہم مشن انجام دیتے ہیں جو نرنیدر مودی کا روحانی دفاع ہے۔ پچاس سال کا یہ متشرع بزنس مین اب ٹی وی نیوز اور بحثوں کا ایک مشہور و معروف چہرہ بن گیا ہے، صحافیوں کی لائنیں اس نادر مخلوق کی ایک بائٹ لینے کے لیے لگی رہتی ہیں۔ایک مسلمان جو کہ بی جے پی کے وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی کی حمایت کر رہا ہے۔خیال کیا جا تا ہے کہ مودی کے زبردست حامی ہونے کی وجہ سے ان کو گجرات کے چیف منسٹر کا مکمل تحفظ حاصل ہونا چاہئے اس لیے کہ یہ بات قرین قیاس ہے کہ ان کو مسلم قوم کے ان لوگوں کی مخالفت اور ان کی طرف سے پیٹھ پیچھے سے حملے کا خطرہ ہو گا جو مودی کے ہندتوا والے نظریہ کے مخالف ہیں۔لیکن سریش والا جن کا خاندان گجرات سے تعلق رکھتا ہے مودی سے اپنی قربت کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور ان کی نظر میں بی جےپی واحد پارٹی ہے جس کے ذریعہ گجرات کے مسلمان آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کئی بار یہ وضاحت کی ہے کہ ‘‘ مسلمان اس پارٹی سے الگ نہیں رہ سکتے جو گجرات میں اتنی لمبی مدت سے اقتدار میں ہے اور مودی ہمیشہ اچھوت نہیں ہو سکتے۔ایک سیاسی جماعت اور اس کے وزیر اعظم کے امیدوار سے مسلسل نفرت کرنا مسلم قوم کی حالت کو بہتر نہیں بنائے گا‘‘۔
سریش والا کی یہ نظریاتی چھلانگ بھی کافی لمبی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ سال 2002 میں وہ مودی کے سخت مخالف تھے اس لیے کہ 2002 کے گجرات فساد میں ان کا بھی مالی نقصان ہو اتھا۔ اس وقت وہ ایک میکنیکل انجینئر اور اسلامی معاشیات اور بینکنگ کے ماہر کی حیثیت سے انگلینڈ میں کام کر رہے تھے لیکن پارسولی کارپوریشن ،جو ایک اسلامک انویسٹمنٹ کمپنی تھی جس کو انہوں نے اپنے دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ مل کر قائم کیا تھا اس کو 3.8 کروڑ کا نقصان ہوا ۔ان کی والو بنانے کی فیکٹری بھی جل گئی اور سریش والا جو کہ مسلم قوم کے سب سے بڑے زکواۃ ادا کرنے والوں میں سے ایک تھے اذیت ناک مفلسی میں مبتلا ہو گئے۔انگلینڈ واپس جا کر انہوں نے تحریک کاروں کی ایک جماعت میں شمولیت اختیار کر لی جو کہ مودی کے خلاف اقوام متحدہ سے منسلک ایک کورٹ میں مقدمہ کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی فیملی کو انگلینڈ لے جانے کا بھی ارادہ کر لیا تھا ۔لیکن عجیب و غریب طور پر یہ مودی ہی تھے جنہوں نے ان کو اپنے پلان کے بارے میں از سر نو سوچنے پر مجبور کیا ۔‘‘ کیا وہاں انگریزوں کی غلامی کرتے رہو گے ۔‘‘ ’’آپ کی ضرورت ہندوستان میں ہے‘‘بقول میڈیا یہ باتیں 2005 میں مودی نے ان سے فون پر گفتگو کے دوران کہی تھیں ۔

modi ap_0

کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلےاختلافات کو ختم کرنے کے لیے 2003 میں سریش والا اور لندن کے (نام نہاد عالم دین) مولانا عیسیٰ منصوری نے مودی کے ساتھ طویل ملاقات کیتھی ۔ اس وقت جب لوگوں نے اس پر اعتراض کیاتھا توانہوں نے دعویٰ کیا کہ قرآن اور اور نبیﷺ کی حدیثیں میری راہنما ہیں ،جوان کو دشمنوں سے رابطہ رکھنے سے نہیں روکتی ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے مشرکین مکہ کے ساتھ جو آپ کے اور آپ ﷺکے صحابہ کے مخالفین تھے صلح حدیبیہ پر دستخط کیا تھا جو بظاہر باعث ذلت معاہدہ تھا ۔ ’’ یہ ایک مثال ہے جس کی میں اتباع کرتا ہوں اور اپنے مسلمان بھائیوں سے چاہتا ہوں کہ وہ بھی اس پر عمل کریں‘‘ اس بزنس مین کے مطابق’’میں دو مشکل کام لے کر احمد آباد لوٹا تھا ایک تو اپنی فیملی کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ا ور اپنی قوم کی مدد کرنا۔خالص مفاد پرستی کی بنیا د پر بی ایم ڈبلیو کی ڈیلر شپ نے جس کو ان کے بھائی نے اپنی فیملی کی معاشی حالت کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے حاصل کیا تھا، سریش والا کی نریندر مودی کے تئیں قربت کو اور بڑھا دیا ۔ مسلم فار سیکولر ڈیموکریسی (ایم ایس ڈی ) کے سکریٹری اور کمیونلزم کومبیٹ کے معاون مدیر جاوید آنند کا کہنا ہے کہ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے اگر سریش والااپنے بزنس کی وجہ سے نریندر مودی سے قربت بنا کے رکھتے ہیں ۔لیکن ایک ظالم سے معاہدہ کر کے وہ اب ان کے ساتھ ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنانے میں شریک ہو رہے ہیں جہاں اقلیت خصوصاً مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہوں گے ۔حقوق انسانی کمیشن کی کارکن شبنم ہاشمی کا کہنا ہے کہ سریش والا مودی کی طرف صرف اپنے مفاد کے تحفظ کی خاطر ہوئے ہیں ۔ لیکن فلم ڈائرکٹر مہیش بھٹ جو سریش والا اور دوسرے فساد متاثرین کے حمایتی رہے ہیں جذبات سے عاری لہجے میں کہتے ہیں ظفر میرے دو ست نما دشمن ہیں۔میں ان کا دوست ہوں حالانکہ بنیادی طور پر میں ان کی سیاست کو نا پسند کرتا ہوں ۔کیا بھٹ صاحب اپنے دوست نما دشمن کے اس دعوے پر یقین کریں گے کہ مودی سے دوستی کے ذریعہ مسلمانوں کی شکایتیں دور ہو جائیں گی ۔ڈائرکٹر موصوف نے کہا کہ یہ میں اس دن یقین کروں گا جب وہ (سریش والا ) میرےساتھ کسی دن عشرت جہاں کے گھر میں ان کی ماں کے سامنے کھڑے ہوں گے۔

سریش والا لگاتار نفرت آمیز میل وصول کر رہے ہیں اور انہیں کھلے عام میر صادق اور میر جعفر کے لقب سے نوازا جا رہا ہے جو دونوں تاریخی شخصیات ہیں جنہوں نے برطانوی حکومت کی مدد کر کے اپنی قوم کو تباہ کر دیا تھاپھر بھی وہ تنقیدوں سے بے پروا ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جو لوگ قوم کی طرف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی بڑ بڑاہت شہرت کی بھوک کے لیے ہے ۔کورٹ میں کیس لڑنے کے لیے فنڈ اکٹھے کیے جا رہے ہیں لیکن گجرات کے مسلمان اس سے مکمل الگ ہیں ۔کوئی ایسا نہیں ہے جو مودی سے ان کی طرف سے بات کرے۔ سریش والا کا کہنا ہے کہ ان کی فیملی جس میں ان کے تینوں بچے شامل ہیں ان کے نقطہ نظر کی حمایت کرتے ہیں جبکہ ان کے والد جن کا پچھلے مہینہ انتقال ہوا ہے انہوں نے بھی ان کو اپنے فیصلے پر جمے رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ جب سے انہوں نے مودی کی حمایت و وکالت شروع کی ہے اس وقت سے سریش والا اپنی کامیابیوں کی فہرست کا حوالہ دیتے ہوئے کہتےہیں 2006 میں گجرات میں کئی مسلسل انکاؤنٹر کے بعد پولیس نے مسلم علما ء کو گھیرنا شروع کیاتھاجن میں سے بہت سے مدرسے چلاتے تھے ۔سریش والا کا کہنا ہے کہ جب میں نے مودی کی مولویوں سے ملاقات کرائی تو یہ آپریشن بند ہو گیا ۔پچھلے سال انہوں نے پرانے احمد آباد کے 3500 ہاکروں کی با ز آبادکاری کو یقینی بنایاجو کہ حکومت کی نو آبادیاتی پروگرام کی وجہ سے اجاڑے جا رہے تھے۔سریش والا یہ نہیں کہتے ہیں کہ مودی کے ہندوتوا کے ایجنڈے میں تخفیف ہوئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’صرف گجرات کے مسلمان معاشی طور پر مضبوطی حاصل کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان کہیں بھی ہو وہ بھی چاہے گا کہ مودی وزیر اعظم بنیں ،، قوم کا دھیان تعلیمی اور کاروباری مواقع کی فراہمی ،تعلیمی نظام اور نوکریوں کی فراہمی پر ہونا چاہئے ۔آخر میں وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اگر ایک بار ہم معاشی طور پر مضبوط ہو گئے تو ملک کی پولیس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
سریش والا کی دلیلوں کے علی الرغم کارپوریٹ دنیا میں کام کرنے والے ایک صاحب فہم کہتے ہیں’’ہندوستان کا مسلمان بڑی جد و جہد سے محض روٹی کمانے کے تگ و دو میں لگا ہے لیکن سریش والا روٹی میں گھی لگاکر کھانے کی تگ و دو کر رہے ہیں ۔اب اس ’’گھی ‘‘کے لئے نہ صرف وہ اپنےضمیر سے سودا کر رہے ہیں بلکہ پوری قوم کو سر عام کوڑیوں کے بھائو نیلام کر رہے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ وہ لاشوں کی تجارت کر رہے ہیںچونکہ انہیں لاش کے ساتھ کفن کی قیمت بھی منہ مانگی مل رہی ہے لہذا وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔‘‘
مسلم مرر ڈاٹ کام کے ایڈیٹر سید زبیر کہتے ہیں’’ایک روز ہماری ویب سائٹ پر کانگریس کی مخالفت میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں دبے لفظوں میں کہیں بی جے پی کی حمایت تھی تو فوراً ہی ظفر سریش والا کا پیغام موصول ہوا کہ اگر ویب سائٹ کو تعاون کی ضرورت ہو ہم حاضر ہیں۔آپ بس نریندر مودی کی حمایت کریں باقی ذمہ داری ہم سنبھال لیںگے۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *