پہیوں پر دوڑتے لذیذ پکوان

سوشل میڈیاامریکہ میں فوڈ ٹرکوں کی مقبولیت میں اضافہ کررہا ہے،جن میں سے کئی سموسے اور کریپس یکساںجوش و خروش کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
کیا آپ کے کسی گوشۂ خیال میں ایک ایسے مقام کا تصور آسکتا ہے جہاں آپ عشائیہ کی شروعات کشمش آمیز مراقشی کُسکُس سے کریں، پھر چٹپٹے کوریائی ٹیکو کا آرڈر دیں اور اس کے بعد شیرینی کے لئے اسٹرابیری سے بھر پور بڑے سائز کی فرانسیسی میٹھی پوری کا ذائقہ لیں۔ کھانے کے بعد آپ وہیں رُک کر نئے دوست بنائیں، راک بینڈ سے لطف اندوز ہوں اور دوسرے حضرات کے مرغوب پکوانوں کا نمونہ حاصل کریں۔
پھر شام ختم ہوتے ہی ایک انجن دہاڑنے لگتا ہے اور پورے کا پورا ریستوراں چل دیتا ہے۔
لذیذ کھانے سے آپ کی ضیافت کرنے والے ٹرکوں کا چلن لاس اینجلس، کیلی فورنیا سے شر و ع ہوا اور امریکہ کے گوشے گوشے میں پھیل گیا۔ سستے کھانے، مستقل گراہک اور تخلیقی عمل کی گنجائش کے مرکب نے اس رجحان کو جلا بخشی۔ کبھی لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے لیکن آج کی صورتحال یہ ہے کہ یہ کاروبار پھل پھول کر ہزاروں تجارتی مہم جوؤں کی آمدنی کا ذریعہ بن گیا ہے۔
سستے لنچ اور عام طور پر میکسیکن ٹیکوز اور بریٹوز (لپٹی ہوئی روٹیاں) کے متلاشی امریکی فوڈ ٹرکوں کی سرپرستی ایک عرصے سے کرتے آئے ہیں۔ لیکن گزشتہ تین سالوں میں ایسے خانساموں کی نئی پود منظر عام پر آئی ہے جنہوں نے اپنے گاہکوں خاص طور پر ہپ کلچر کے دلدادہ نوجوانوں کو لذیذ، صحت بخش، ذائقے دار اور سستے کھانے فراہم کئے ہیں۔
یہ متحرک تجارتی مہم جو، اپنی مصنوعات کو کاروباری دفتروں سے لے کرپتلی پتلی گلیوں میں موجود گاہکوں تک پہنچاتے اور ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعے اپنے نظام الاوقات کو نشر کرتے رہتے ہیں۔ سُمنت پردال جو ایک خانساماں اور انڈیا جونز چائو ٹرک کے مالک ہیں، کا کہنا ہے کہ ’’سوشل میڈیا ہی کے سبب اس رجحان کو اس تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اہم ترین سبب یہ ہے کہ یہ ایک آزاد کاروبار ہے اور دنیا بھر میں اس کے بڑے اثرات ہیں۔ ہم لوگ ٹوئٹر پر لمحہ بہ لمحہ تازہ ترین صورتحال سے لوگوں کو باخبر کرسکتے ہیں۔ ہم جب کسی مقام پر جاتے ہیں تو ہم لوگ ایک ٹوئیٹ بھیجتے ہیں اور لوگ بھی صحیح معنوں میں اسے پسند کرتے ہیں۔‘ لذیذ کھانوں کے ٹرکوں کا کاروبار تین سال پہلے اس وقت شروع ہوا جب ویہ ٹرک لاس اینجلس کے اعلیٰ ترین شراب خانوں اور نائٹ کلبوں کے سامنے رُکے ۔ پسندیدہ کھانوں مثلاً مسالہ دار گوشت کے پارچوں کے لئے گاہکوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ جب ابتدائی ٹرکوں کی کامیابی کی خبر پھیلی تو دیگر لو گوں نے بھی اس کاروبار میں کود پڑنے میں دیر نہیں کی۔ انہوں نے کھانے کے استعمال شدہ ٹرک خریدے اور لاس اینجلس کے کثیر ثقافتی معاشرے میں پروان چڑھنے والے نوجوانوں کے پسندیدہ پکوانوں کی تیاری میں لگ گئے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں سووولاکی اور سموسہ بھی اسی قدر مرغوب ہوں جتنا کہ ہاٹ ڈوگز یا فرنچ فرائیز۔
ٹرکوں سے اپنی مرغوب شے خریدنے والوں کی قطاریں کبھی کبھی حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ ڈوس چائنوز، میکسیکو ایشیائی لذیذ کھانوں کا ایک ٹرک ہے جس کے سامنے گاہکوں کی لمبی قطاریں عام طور پر دیکھی جاتی ہیں۔ بسا اوقات ٹرک کی خاص ڈشوں کے لئے لوگ ایک گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ دیر تک قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرتے ہیں۔ فرانسیسی کھانوں کے ٹرک، کریپیز بونا پارٹے کو اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب اس نے فوڈ نیٹ ورک ریلیٹی ٹیلی ویژن شو کے ’’دی گریٹ فوڈ ٹرک ریس‘‘ نامی مقابلے میں کامیابی حاصل کی۔ ٹرک کے شریک مالک ڈینیل گارشیا کے بقول ’’یہ مکمل طور پر ایک حیران کن اور انقلابی تجربہ تھا۔ ہم لوگوں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ میرے خیال میں کھانوں کے ٹرک ایک مختلف قسم کی تفریح کے مواقع دیتے ہیں۔ لاس اینجلس نے نئی اور مختلف طرز کی چیزوں کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے۔ یہاں پر طرح طرح کے وہ لوگ رہتے ہیں جو تازہ ترین رجحانات کو پسند کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس چلن کو فروغ حاصل ہوگا۔‘ کھانے کے ٹرکوں کے مالکوں نے ایک مضبوط کمیونٹی بنالی ہے۔ پہلے کسی ایسے صنعتی علاقے میں جہاں کوئی روایتی ریستوراں نہ ہو تو وہاں سناٹا ہوتا تھا لیکن اب سڑک کے دونوں جانب کھانے کے ٹرکوں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں اور اس کے ساتھ یونیفارم میں ملبوس لوگ مینو دیکھنے کے لئے ایک ٹرک سے دوسرے ٹرک کے چکّر لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ لاس اینجلس کے یونین اسٹیشن پر، ہر ماہ ایک تقریب کا انعقاد ہوتا ہے جس میں درجنوں ٹرک اس تاریخی عمارت کے گرد کھڑے ہوتے ہیں۔ دن بھر مقامی بینڈز موسیقی بکھیرتے رہتے ہیں۔ کپڑوں اور فنّی مصنوعات کے تاجر بھی اس موقع پر اپنی دوکانیں لگاتے ہیں۔ ٹرک مالکوں کے لئے ان تمام شہروں سے اجازت لینا ضروری ہے جہاں وہ کاروبار کرتے ہیں۔ حالاںکہ لاس اینجلس کے باشندگان ٹرکوں پر فریفتہ ہیں تاہم چند ریستورانوں نے اس بات پر کافی شوروغل کیا کہ یہ ٹرک ان کے ریستورانوں کے سامنے کھڑے ہوں بالخصوص میریکل مائل جیسے مشہور علاقوں میں۔ چند ریستوراں مالکوں نے تو یہ تک کیا کہ انہوں نے پرانی کاریں خرید کر اپنے ریستورانوں کے سامنے کھڑی کردیں تاکہ وہاں ٹرک نہ کھڑے ہوسکیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک پارکنگ چار جز دینے کے لئے خوشی خوشی راضی ہیں جب تک کہ یہ مقابلہ آرائی ختم نہ ہو جائے۔ لیکن ان تمام مزاحمتوں کے باوجود، جوش وو لولہ نہ تو ختم ہو رہا ہے اور نہ ہی کم ہو رہاہے۔ پردال کے بقول ’’تمام تر قولی و عملی کوششوں کے نتیجے میں اس رجحان کو فروغ مل رہا ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، لیکن سرِدست تو یہ( امریکہ) کے طول و عرض میں پھیل رہا ہے۔‘‘

’مـقام، مـقام، مـقام‘
انڈیا جونز چائو ٹرک کے مالک سُمنت پر دال جیسے تجارتی مہم جوؤں کے خیال میں، کسی بڑی اور گھنی آبادی والے علاقے میں لذیذ کھانوں کی فروخت کا مطلب مقامی سطح پر گاہکوں کے متعدد بازار پیدا کرنا ہے۔ کسی جغرافیائی بندش کے مقابلے میں یہ زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔ بیشتر روایتی ریستوران خاص طور پر لاس اینجلس جیسے بے تحاشہ بڑھتی آبادی والے میٹرو پولس شہروں میں واقع ریستوران میں شاید ہی کوئی شخص قرب و جوار کی آبادیوں کے حصار کے باہر سے آتا ہو۔ البتہ اگر ٹرک کا شمار سپر اسٹاروں میں ہوتا ہو تو بات دیگر ہے۔ لیکن واضح رہے کہ سپر اسٹار بھی اب کھانوں کے ٹرکوں کی قدروقیمت سے آگاہ ہوتے جارہے ہیں۔
پر دال کہتے ہیں ’’میں ریستوراں کے کاروبار سے اس وقت سے وابستہ ہوں جب میں ۱۷ سال کا تھا۔ اس کاروبار سے تعلق ہندوستان سے شروع ہوا۔ گزشتہ ۲۰ سالوں یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں، میں لاس اینجلس کے کئی ریستورانوں کا مالک رہا۔ ۲۰۰۹ میں ٹرک کا کاروبار شروع کیا۔ ہم پہلے ۱۵ ٹرکوں میں سے ایک تھے۔‘‘
پر دال نے انڈیا جونز ٹرک کی وجہ تسمیہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اس کا نام افسانوی ماہر آثار قدیمہ انڈیانا جونز کے نام پر اس لئے رکھا گیا کیونکہ پر دال کا تعلق انڈیا سے ہے اور ان کی امریکی بیوی کا وطن انڈیانا ریاست ہے۔ انڈیا جونز ٹرک کا خاص آئٹم ’فرینکی‘ ہے۔ یہ لپٹی ہوئی روٹی ہوتی ہے جو ممبئی کی سڑکوں پر کثرت سے کھائی جاتی ہے۔ پردال کی خواہش ہے کہ امریکہ کے ہر گھر میں فرینکی کو وہی مقبولیت حاصل ہوجائے جس قدر مقبولیت ہیم برگر کو حاصل ہے۔ راجستھانی اصل رکھنے والے پردال کہا کرتے ہیں کہ ممبئی میں چرچ گیٹ اسٹیشن پر فرینکیاں کھاتے اُن کا بچپن گزرا۔
وہ کہتے ہیں ’’ہندوستان میں خوانچے پر اشیاء خوردنی بیچنے والوں کی بہتات ہے۔ وہاں گزشتہ ۴۵-۴۰ سالوں سے کھانوں کے ٹرکوں کا چلن عام ہے۔ یہاں تک کہ چینی کھانوں کے ٹرک بھی اپنا کاروبار کررہے ہیں۔ ان کی تعداد یہاں کے مقابلے میں کم ہیں اور یہ اس قدر نفیس بھی نہیں ہیں۔ رہی بات فرینکیوں کی، تو وہ اب بھی امریکہ میں مقبول عام نہیں ہوئی ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ نئے گاہکوں سے اپنے پکوانوں کو متعارف کرانے میں ان کے ٹرک نے اہم رول ادا کیا ہے۔
پردال دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہم نے تن تنہا ہزاروں خریدار بنائے جو ہمارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں’’ارے بھائی، ایک فرینکی مجھے بھی دینا۔‘‘ ہم چھ قسم کی فرینکیاں، مرغ، جھینگا، پنیر اور سبزی وغیرہ-سپلائی کرتے ہیں۔‘‘ لیکن فرینکی کی اصطلاح اس قدر غیر مانوس ہے کہ اکثر و بیشتر خریدار پردال کو ہی فرینکی کے نام سے بلانے لگتے ہیں۔ غالباً وہ سمجھتے ہیں کہ فرینکی کا نام انھیں کے نام پر پڑا ہے۔
سڑکوں پر خراماں خراماں چلنے کے علاوہ انڈیا جونز ٹرک، سونی اسٹوڈیوز کے دوسری جانب واقع پارکنگ اڈے میں اکثر نمودار ہوتا ہے جہاں موشن پکچرز کا عملہ اپنے وقفۂ لنچ میں سموسے یا آم کی لسی کے لیے صف بند ہوجاتا ہے۔ پردال نے پارکنگ اڈہ خرید لیا ہے اور وہ دوسرے ٹرکوں کو بھی وہاں اپنا کاروبار کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ پردال کے بقول، ان کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’اس کا بہترین پہلو مناسب مقام، مقام، مقام ہے، کیونکہ ہم لوگ وہیں جاتے ہیں۔۔۔ جہاں لذت کام و دہن کے متلاشی رہتے ہیں۔‘‘
اس سے بہتـر اور کہاں!
ہندوستان امریکی تجارتی مہم جوؤں نے کھانوں کے ٹرک کی مقبولیت کے پیش نظر اس کاروبار کو تیزی سے اپنا لیا۔ سرِدست کم و بیش چھ ہندوستانی کھانوں کے ٹرک لاس اینجلس کی سڑکوں پر دوڑتے نظر آتے ہیں۔ کچھ کو تو نئے ریستوراں چلانے والے چلاتے ہیں اور کچھ کو تجربہ کار خانساما چلاتے ہیں۔ ’نوٹومیٹوز!‘ ٹرک کے شریک فاؤنڈر کم بلنگسلے کے بقول ’’لاس کے لوگ ہمیشہ بہتر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جدید ترین رجحان۔ ہیجان خیز اسٹائل۔ وہ لوگ نئے افکار و تصورات کا ہمیشہ خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہاں کے رہنے بسنے والے بہت مشغول و مصروف رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسی ہر شے کو پسند کرتے ہیں جو ان کا وقت بچائے۔ وہ اس بات کو نا پسند کرتے ہیں کہ کوئی ان سے یہ کہے کہ کسی کام کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ مختلف طریقوں اور راہوں کے قائل ہیں۔‘‘
جنوبی کیلی فورنیا مرکب پکوانوں کے لئے ساز گار ہے۔ یہ مکمل طور پر ’نوٹومیٹوز!‘ کو راس آتا ہے۔ کار پوریٹ ماحول کی پروردہ بلنگسلے اور نیرج پٹیل نے اکتوبر ۲۰۱۰ میں اپنا کاروبار شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستانی پکوانوں کا یہ ٹرک مقبولِ خاص و عام ہوگیا۔ بلنگسلے کے مطابق ’’نیرج ہمیشہ سے کوئی ریستوراں یا بار کھولنے کے فراق میں تھیں اور کئی سالوں سے اس مقصد کے لئے کس ایسی مناسب ترین جگہ کی تلاش کررہی تھیں جو مناسب داموں میںمل جائے لیکن تقدیر ساتھ نہیں دے رہی تھی۔‘‘ پھر گزشتہ موسم گرما میں انھوں نے فوڈ نیٹ ورک شو دیکھا اور یہی وہ لمحۂ بازیابی تھا کہ وہ باغ باغ ہو اٹھیں۔ انھوں نے پٹیل کو آواز دی اور انھیں مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کھانوں کے کاروبار سے دلچسپی رکھتے ہوں تو انھیں کھانوں کے ٹرک کے کاروبار کو آزمانا چاہئے۔ پٹیل نے نیرج کا مشورہ ایک کان سے سنا اور دوسرے سے اڑا دیا۔ مگر ہونی کو کیا کہئے، بلنگسلے کی ملازمت ہاتھوں سے جاتی رہی تو دوسرے دن ان دونوں نے ایک بار میں بیٹھ کربار کے سفید نیپکن پر اپنے کاروبار کا منصوبہ بنایا۔ بلنگسلے کے بقول ’’نیرج ایسے ہندوستانی پکوان پیش کرنے کی موافقت میں نہ تھیں جو ریستورانوں میں عام طور پر ملا کرتا ہو۔ وہ تو ایسے پکوان چاہتی تھیں جو (ممبئی کی) سڑکوں پر کھایا جاتا ہو۔ پھر اس کے بعد ہم لوگوں نے لاس اینجلس کے لوگوں کے مزاج کے پیش نظر اسے مزید لذّتوں سے آراستہ کیا۔‘‘
وہ روایتی ہندوستانی پکوانوں کے ساتھ ساتھ خوب بکنے والے ہندوستانی برگر اور دوسرے مرکب پکوان بھی پیش کرتی ہیں۔ بیلنگسلے کے بقول ’’ہمارے گاہکوں میں اُن لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جنھوں نے کھانے کے ٹرکوں سے کبھی کچھ نہیں کھایا یا پھر ہندوستانی کھانوں کے بارے میں ان کا تجربہ محدود تھا۔ ایک بار ہمارے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ان کے چہروں کے تاثرات کو دیکھنا اور ان کے احساسات کو سننا بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ ہندوستانی کھانوں کے ذائقہ شناسوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ اس میں صرف شوربہ ہوتا ہے اور یہ خوب مسالہ دار ہوتا ہے۔۔۔‘‘
’’ہم اکثر و بیشتر لوگوں سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ ہمارے پکوان کم از کم چکھ کر تو دیکھیں۔ اگر وہ اسے پسند نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں، کوئی حرج نہیں، کوئی نقصان نہیں، لیکن اگر وہ ہمارے پکوان ایک بار چکھ لیتے ہیں تو اُن کی حیرانی قابل دید ہوتی ہے۔ جب کوئی ہمارے مسالوں کی بھینی بھینی خوشبو سونگھتا ہے یا شیرینی کو زبان پر رکھتا ہے تو اس کے چہرے کے تاثرات حیران کن ہوتے ہیں۔ لطف تو تب آتا ہے جب وہ جاکر اپنے کنبے اور دوستوں کو بھی اس لذت سے روشناس کرانے کے لئے لے کر آتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو کچھ دیر پہلے بڑے بے اعتنائی سے ہمارے ٹرک کے سامنے سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ہے نہ دلچسپ بات!‘‘ –

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *