مولانا ابوالکلام آزاد انسٹی ٹیوٹ برائے ایشیائی مطالعات:ہندوستانی تہذیب کا علمبردار

ترجمہ: دانش ریاض

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ بڑی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ دس سالہ سفر طے کرکے اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوگئے ۔لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کی شکست کاتجزیہ کیا جارہا ہے لیکن سابق وزیر اعظم نے اپنی خاموشی کے باوجود ملک کے لئے جو کام انجام دیا ہے وہ لائق ستائش ہے جس کا اعتراف بذات خود موجودہ حکومت کے ذمہ داران نے کیا ہے۔ذیل میں سابق وزیر اعظم کی 16جنوری 2010کی وہ تقریر پیش کی جارہی ہے جو انہوں نے مولانا ابولکلام آزاد انسٹی ٹیوٹ برائے ایشائی مطالعات،کلکتہ کے نئے کیمپس کے افتتاح کے موقع پر کی تھی ۔( معیشت بیورو)

Manmohan

مولانا ابوالکلام آزاد انسٹی ٹیوٹ برائے ایشیائی مطالعات:ہندوستانی تہذیب کا علمبردار

’’یہ میرے لئے باعث افتخار ہے کہ میں کولکاتہ میں مولانا ابوالکلام آزاد انسٹی ٹیوٹ برائے ایشیائی مطالعات کے نئے کیمپس کا افتتاح اور کولکاتہ سائنس سینٹر کے دوسرے مرحلے کے لئے سنگ بنیاد رکھ رہا ہوں ۔
تہذیب و تعلیم کے لئے بنیادی تعاون
مولانا ابوالکلام آزاد نے تقریباً 15برس اس عظیم شہر میں کام کرتے ہوئے گذارا ہے ۔جن لوگوں کا ہندوستان کی سیکولر گنگا جمنی تہذیب کے معماروں میں شمار ہوتا ہے ان میں وہ ایک تھے۔ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ہی جس میں کلچر کو بھی شامل کیا گیا ہے ،انہوں نے ملک کی تعلیمی ترقی اور تہذیبی قدروں کی بحالی کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں،یقینا یہ ایک قابل تعظیم خراج عقیدت ہوگا کہ ایک ایسا ادارہ جو کولکاتہ کے عظیم بیٹے کے نام نامی منسوب ہے تعلیم و تعلم کا مرکز بن جائے اور ساتھ ہی ایشیائی مطالعات کے لئے مختلف الخیال قدروں کے اظہار کے ساتھ اسکالر شپ دینے والا مرکز قرارپائے۔
سائنس سیٹی
سائنس سیٹی اس شہر کے لئے میل کا پتھر بن چکا ہے ۔لہذا میں امید کرتا ہوں کہ سائنس سیٹی کا دوسرا مرحلہ بھی جدید تعلیمی تقاضوں اور ٹکنالوجی کی تدریس کا فریضہ انجام دے گا کیونکہ ان دونوں کے ذریعہ تفریح و اطلاعات کاکام انجام دیا جا سکے گا،نوجوانوں کے درمیان سائنس کی مقبولیت انتہاء پہ ہے لیکن یہ اس وقت گراں قدر قرار پائے گی جب ہم عارف معیشت اور عارف سماج ہو جائیں۔
بدلتا رُت
19ویں صدی میں کولکاتہ ہندوستانی نشاۃ ثانیہ کا مولد رہا ہے۔یہ وہ مقام بھی ہے جہاں قومی تحریک اور ہماری تہذیب کی پیمائش ہوئی ہے۔یقینا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کولکاتہ کے بالمقابل ہندوستان میں کو ئی ایسی جگہ نہیں ہے جو تہذیبی قدروں کے مابین میل کا پتھر ثابت ہو۔یہ ہمارے اداروں ،میوزیم،لائبریری اور اکیڈمی کے ذریعہ ان ہوائوں کے چلنے کا وقت ہے جو موسم کو تبدیل کر دے۔ہم جدید ٹکنالوجی اور مینجمنٹ کو متعارف کرانا چاہتے ہیں تاکہ وسیع تاریخ اور آثار قدیمہ کے عظیم سرمائے کی حفاظت کی جا سکے اسی کے ساتھ زبان و ادب اور آرٹس میں موجود ہماری صلاحیتوں کی ہمت افزائی کی جا سکے۔
ہمارے تہذیبی مآخذ اور اداروں کا پروفیشنل منیجمنٹ
میرے دماغ میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ کلچرل وزارت کی اولین ذمہ داریوں میں ہمارے اداروں اور تہذیبی مآخذ کے انتظام و انصرام میں جدید تقاضوں کا پاس و لحاظ رکھنا ہے جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم اپنی قدیم تاریخ و ثقافت کی حفاظت ملک میں موجود ان ماہرین سے کر وائیں جنہوں نے ان امور میں قیمتی وقت لگایا ہے۔میں اس بات سے بھی متفق ہوں کہ بیوروکریسی کے موجودہ چلن نے تہذیب و ثقافت کی بازیافت کو بھلا کر رکھ دیا ہے ۔لہذا پہلے مرحلے پر قومی سطح کے آٹھ کلچرل اداروں کے سربراہان کی تقرری میں نرمی پیدا کرنا ہے۔اسی کے ساتھ ہم آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور دوسرے اداروں کی سربراہی کے لئے بہت جلد ہی بیرونی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے والے ہیں۔
آزادی اور لچک
میں اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ ان اداروںکے بہتر طور پر چلنے کے لئے آزادی کے ساتھ لچک کی ضرورت ہے لہذا ہم اس ضمن میں بھی غور و فکر کر رہے ہیں،میں ہمیشہ یہ کہتا رہا ہوں کہ اگر ثقافتی سرمائے کی حفاظت سے متعلق کوئی سوال ہے تو مالیات کا کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہونا چاہئے۔اسی طرح ہم اس وقت اس بات کی بھی کوشش کریں گے کہ کسی طرح کی فروگذاشت نہ ہو اور ذمہ داری کے ساتھ چیزیں پایہ تکمیل کو پہنچیں۔
طاقت کا پھیلائو
جہاں کہیں بھی آرکائیوز یا آرکیالوجی کی فیلڈ ہے وہاں معلومات کا خزانہ ہے۔ وسائل اور ماہرین بھی ملک میں موجود ہیں ۔لہذا آرکیالوجیکل سر وے آف انڈیااور نیشنل آرکائز کی یہ ذمہ داری ہوگی ہے کہ حکومت کے علی الرغم جو بھی مہارت موجود ہے اس کا استعمال جہاں مر کزی سطح پر ہووہیں ریاستی سطح پر بھی اس میں وسعت قائم کی جائے اور پائیدار نیٹ ورکنگ کی بنیاد رکھی جائے۔
پروفیشنل منیجرس کی نگہداشت
میں نے کلچرل وزارت سے دریافت کیا ہے کہ طویل مدت تک کے لئے ہم کس طرح کلچرل پروفیشنل منتظمین اور منیجرس کی صلاحیتوں کو جلا بخش سکتے ہیں جو ہمارے میوزیم ،آرکائیوز اور اکیڈمی کی دیکھ بھال کر سکیں۔ہم میوزیولوجی،آثار قدیمہ سے متعلق مطالعات اور فنکارانہ تعلیم کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں،اسی کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر میوزیم منیجمنٹ میں پوسٹ گریجویشن کورس کو بھی متعارف کرانا چاہتے ہیں۔حکومت ان منتخبہ یونیورسٹیوںکی مالی امداد کر سکتی ہے جو اس میدان میں درس و تدریس میں دلچسپی کا اظہار کریں۔
دراصل یو روپی دنیا ہمارے تہذیبی نمونوں ،تاریخی عمارتوں،نقاشی کے کاموں اور ثقافتی سرمائے کو دیکھ کر ہی قریب آئی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کو اکثرنظرانداز کیا گیا ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری طرف سے ان چیزوں کے لئے بھر پور نگہداشت کی ضرورت ہے تاکہ ہم اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں ان تمام چیزوں کو سموئیں وہیں اس کا اظہار بھی کر سکیں ۔تہذیبی اور تاریخی یہ دونوں چیزیں دنیاوی معیار کے اعتبار سے بالکل فرسودہ ہو چکی ہیں۔میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آخر ہمارے میوزیم برٹش میوزیم،ہر میٹیج،یا اسمتھ سونین کی طرح کیو ں نہیں ہیں۔
میوزیم کی بہتری کے لئے اقدامات
کلچرل وزارت نے اولین سطح پر میوزیم کی بہتری کے لئے اقدامات کا فیصلہ کیا ہے ،میں نے مرکزی مشاورتی بورڈ برائے کلچر،جہاں اس میدان کے قابل قدر ماہرین ہیں ،سے کہا ہے کہ وہ ہمارے میوزیم کو عالمی پیمانے کا حامل بنانے کے لئے ایکشن پلان تیار کریں۔ہم بہترین صلاحیتوں کے حامل ماہرین سے گفتگو کریں گے اور پھر ملٹی میڈیا،ڈیزائن ،روشنی،آواز و انداز کے ذریعہ میوزیم کو ایسا بنائیں گے کہ مشاہدین ہمیشہ یاد رکھیں۔
اسٹوڈیو تھیٹر کا انتظام
ہم تخلیقی آرٹ کے حاملین کو اپنا ہنر دکھانے کے لئے اضافی طور پر اہمیت دینا چاہتے ہیں۔مجھے آپ لوگوں کو یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ حکومت ہند جلد ہی تھیٹر اور ڈانس گروپ کے ساتھ سالانہ مشاہرہ میں دو گنا اضافہ کر رہی ہے ۔درحقیقت کولکاتہ میں تھیٹر سے جڑے ہوئے اہم شخصیات کا مطالبہ تھا کہ محدود سامعین کے لئے کوئی ایسی چھوٹی جگہ مخصوص کی جائے جہاں چھوٹے پیمانے پر لوگ اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں اور جسے اسٹوڈیو تھیٹر سے موسوم کیا جا سکے،لہذا میں یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ کلچرل وزارت نے مالیاتی طور پر معاونت کرتے ہوئے اس طرح کے اسٹوڈیو تھیٹر کی اسکیم حتمی طور پر منظور کر لی ہے۔
معاصرانہ تحریر کی ترقی/خدمت
حالیہ برسوں میں ہندوستان کے مختلف زبانوں کی تحریروں میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے جبکہ ہندوستانی قلمکاروں نے حالیہ برسوں میں ہی عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی ہے۔لہذا اس طور پر بھی اب یہ ناگزیر بن گیا ہے کہ ہندوستان کی دیگر زبانوں کی معاصرانہ تحریروں کو نوجوانوں کے بیچ مقبول عام بنایا جائے،کیونکہ ہمارے بیشتر قلم کار جوان ہی ہیں جو معاصرانہ تحریروں سے بحث کرتے ہیں۔
بیرون ملک ہندوستانی لٹریری سرمائے کاتعارف
ہم نے قومی ترجمہ کاری مشن قائم کیا تھا جسے اب فعال بنا رہے ہیں۔گذشتہ ہفتے ہی تین نیشنل اکیڈمیوں کی کو آرڈی نیشن کمیٹی کے ذمہ داران جمع ہوئے تھے ۔اس میٹنگ کی قابل قدر بات یہ تھی کہ کس طرح احسن انداز میں کام کرتے ہوئے ہندوستانی لٹریری سرمائے کی بیرون ملک تشہیر کرائی جائے۔فنڈ اور ماڈیول سے متعلق تمام چیزیں تیار کر لی گئیں ہیں اور مجھے اس بات کی قوی امید ہے کہ آئندہ سال عربی،چینی،فرانسیسی،روسی،اسپینش،اور انگریزی زبان میں جدید ہندوستانی لٹریچراور کلاسکس موجود ہوں گے۔اسی طرح مساویانہ طور پر یہ بھی ضروری ہے کہ بیرونی کلچر ل اثرات کو ہم اپنے یہاں بھی جگہ دیں ،لہذا ہم اس بات کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ علاقائی مطالعات اور بیرونی زبانوں کو بھی ملک میںفروغ دیا جائے۔
آرکائیوتکنیک میں بہتری
ہمارے اداروں کے آرکائیوز کی تکنیکی بہتری ہماری کلیدی ضرورتوں میں شامل ہے ۔سنگیت ناٹک اکیڈمی،فلم ڈویزن،زونل کلچرل سینٹر،اندرا گاندھی نیشنل سینٹر برائے آرٹس اور اس جیسے بیشتر ادارے آڈیو ویژول جیسے گراں قدر سرمایہ رکھتے ہیں لیکن ان کی اولین ضرورتوں میں اس کا تحفظ ہے،کلچرل وزارت مذکورہ آڈیو ویژول کومحفوظ رکھنے،ڈیجیٹائز کرنے اور تشہیر کرنے کے لئے ہر ممکنہ تعاون کرے گی تاکہ یہ تمام دستاویزات معاصر کلچرل تاریخ کا حصہ بن سکیں۔
کولکاتہ کے کلچرل اداروں کی جدید کاری
بنگال میں کلچرل مزاج کی تجدید کاری کے لئے حکومت سخت محنت کر رہی ہے۔ کولکاتہ جدید ہندوستان میں تحقیق و تفتیش کا مر کز بن گیا ہے،ایشیا ٹک سوسائٹی نے حال ہی میں اپنا 225واں یوم تاسیس کا جشن منایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کلچرل وزارت نے خصوصی اعانت کرتے ہوئے رواں مالی سال میں 90کروڑ روپیہ کولکاتہ میں واقع ان قدیم اداروںجیسے ایشیا ٹک سوسائٹی،انڈین میوزیم،وکٹوریا میموریل اور نیشنل لائبریری کی جدیدکاری کے لئے مختص کیا ہے تاکہ ان داروں کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔
واضح رہے کہ ان میں کا ہر ادارہ ہمارے ملک کی تہذیب کا علمبردار اور شبیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ ادارے پہلے برس مکمل طور پر فیض رساں نہیں ہو سکے ہیں۔لیکن نیشنل لائبریری کی جدید کاری ہمارے اولین کاموں میں ہے،مجھے یہ جان کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ نیشنل لائبریری کی 24لاکھ کتابوں کو آئندہ 6 ماہ کے عرصہ میں آن لائن فارمیٹ میں ڈیجیٹلائزڈ کر دیاجائے گاجس سے لوگ بآسانی استفادہ کر سکیں گے۔مجھے یہ قوی امید ہے کہ یہ چاروں ادارے مختص رقوم کو مخطوطات،پینٹنگ،گراں قدر قدیم سرمائے کو محفوظ کرنے اور اس کی نمائش کرنے میں سخت محنت سے کام لیں گے۔
اعلی اداروں کے لئے فنڈ
رواں مالی سال میں ہم نے خدا بخش لائبریری پٹنہ،رام پور رضا لائبریری ،اتر پردیش اور دہلی پبلک لائبریری کو اضافی رقم عطا کیا ہے۔دہلی میں نیشنل گیلری برائے ماڈرن آرٹ نے چھٹی مرتبہ اپنی جگہ میں توسیع کی ہے جبکہ شہر یوں کے مطالبہ پر بنگلور میں نئی شاخ قائم کی گئی ہے۔مغربی بنگال کے وزیر اعلی نے پبلک اور پرائیویٹ اشتراک کے ذریعہ کولکاتہ میوزیم برائے ماڈرن آرٹ قائم کرنے کے لئے مجھے خط لکھا ہے،فی الحال ہم اس مشورے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ہم ہندوستان کے سب سے بڑے سائنسداں جے سی بوس کے آچاریہ بھون کو سائنس ہیریٹیج میوزیم میں منتقل کرنے کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں جبکہ ہم نے سر جادو ناتھ سرکار آرکائیو اور میوزیم کی بہتری کے لئے اقدامات کیا ہے۔کلچرل وزارت کلکتہ کے دیگر تاریخی کلچرل اداروں کی بہتری کے لئے کوشش کر رہی ہے جیسے کہ اکیڈمی آف فائن آرٹس اور گورنمنٹ کالج آف آرٹ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کی 150ویں یوم پیدائش
مئی 2011میں دنیا گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور کی 150ویں یوم پیدائش کا جشن منائے گی۔ماہرین کی اعلی قومی کمیٹی گرو دیو کے اصول و اقداران کی حیات و خدمات کا جائزہ لے گی اور کامیاب پروگرام منعقد کرنے کے لئے مشورے دے گی۔گذشتہ ہفتے ہی میں نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کے اس خیال سے اتفاق کا اظہار کیا ہے کہ کیونکہ بین الاقوامی سطح پر عظیم شاعر کی پذیرائی کے لئے عالمی سطح کے پروگرام کا انعقاد کیا جائے۔
وشوا بھارتی کی تجدید
قومی سرمائے کی بہترین یاد گاروں میںوشوا بھارتی سر فہرست ہے ۔لہذا یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے توسط سے حکومت ہند نے اس کی بہتری کے لئے پہلے ہی 95کروڑ روپیہ مختص کر دیا ہے۔ہم شانتی نکیتن کے کلچرل جائدادوں کو محفوظ کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔آئندہ چار برسوں کے اندر ہم یہاں موجود مشہور شاعر و ادیب کے ہاتھ سے تحریر کردہ مسودے، گراںقدر پینٹنگس ،خطاطی کے نمونے وغیرہ کو محفوظ کرنے کی کوشش کریں گے۔جبکہ مجھے امید ہے کہ اسی دوران ہم رابندر بھون اور کلا بھون کی جدید کاری پر بھی توجہ دیں گے۔میں نے یہ کیا ہے کہ 1930کے بعد سے یہ پہلا موقع ہوگا جب کہ ہم پیرس اور دوسرے اہم شہروں میں ٹیگور کے کاموں کی نمائش لگا سکیں گے اس کے ساتھ ہی میں مزید دو باتوں کی یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اول ہم ٹیگور کے رابندر چتراولی اوردوم ان کے تحریری سرمائے کو شائع کر نے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔
البتہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گرو دیو کے کائنات سے متعلق خیالات کو کس طرح عام لوگوں تک پہنچایا جائے جو کہ عظیم تہذیبی سرمایہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *