سروگیسی کابڑھتارجحان: ایک ابھرتی صنعت

محمدمسرورفیضی

surrogasy

جب ہم تاریخ پرنظر ڈالتے ہیں تو افراط و تفریط کی کھنچاتانی کا ایک عجیب سلسلہ نظر آتاہے،ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ عورت جو ماں کی حیثیت سے جنم دیتی ہے اور بیوی کی حیثیت سے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں مرد کی رفیق رہتی ہے ،بہن بن کر تمام مسائل کا سامنا کرتی ہے،خادمہ بلکہ لونڈی کے مرتبے میں رکھ دی گئی ہے،اسکو بیچا اور خریدا جاتا ہے،ملکیت کے تمام حقوق سے محروم رکھاجاتا ہے، گناہ اور ذلت کا مجسمہ تصور کیا جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو برابر کے حقوق دیئے اور اس سماج میں جہاں پیدا ہوتے ہی اسے زندہ درگور کردیاجاتاتھا ،اسلام نے ہر لحاظ سے عورت کو عزت و احترام بخشا اورہر محاذ پر عورتوں کے احتر ام کا درس دیا ،مگر آج کے ترقی یافتہ دور میں ترقی کے نام پر عورت کو بازارکا حصہ بنادیاگیا ،مساوات کے نام پر اسکے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے،صنف نازک کو بااختیا ر بنانے کے نام پر جتنی بھی کوششیں ہوتی ہیں وہ صرف دکھاوٹی اور علامتی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میںعورت کو وہ مقام نہیں مل پاتا جسکی وہ حقدار ہے،اسے دیوی بناکر پوجا تو جاسکتا ہے مگر اسے بازار میں بیچنے سے بھی پرہیز نہیںہے۔
عورت ماں ہوتی ہے اور ماں ایک مقدس رشتہ ہے جسے اسلام نے انتہائی بلند مقام اور عزت و احترام بخشا ہے،ماں کے پیروں تلے جنت ہے،آج اسی ماں کو کرائے پرلیکر استعمال کیاجارہا،کرائے کی مائوںکی صنعت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے،دراصل ایسی خواتین جو خود بچہ پیدا کرنے کی تکلیف سے بچنا چاہتی ہیں یا وہ بانجھ جوڑے جن کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہوسکتا کرائے کی مائوںکی خدمات حاصل کر کے صاحب اولاد بن رہے ہیں ۔کرائے کی مائوں کے ذریعے بچہ پیدا کرنے کے عمل میںمرد کی منی(اسپرم)سے بیضہ حاصل کرکے اسے کرائے کی ماں کے رحم میں داخل کیا جاتاہے اور حاملہ ہونے کے بعد کرائے کی ماں کو بچے کی پیدائش تک میڈیکل ہاسٹل میں ڈاکٹروں اور نرسوںکی زیر نگرانی رکھا جا تا ہے تاکہ بچے کی نشو و نما کا صحیح طریقے سے دھیان رکھا جائے،اس فعل کو سروگیشن یعنی دوسرے کے بچے کو اپنی کوکھ میںپرورش کرنا ،سروگیشن کرنے والی عورت کو سروگیٹ کہا جاتا ہے جو کرائے پر کوکھ دیکر دوسرے کے بچے کو جنم دیتی ہے، کچھ دنوں قبل مسٹر پرفیکٹ کے نام سے مشہور فلم اسٹار عامر خان نے اپنے بیٹے کی تصدیق کی جس کی سروگیشن کے ذریعہ پیدائش ہوئی تھی ،حال ہی میں سپر اسٹار شاہ رخ خان نے کرائے کی ماں کے ذریعے ایک بچہ حاصل کیا ہے جسکی انہوں نے تصدیق بھی کی ہے لیکن اس مسئلے پر تنازع اس وقت پیدا ہو اجب کرائے کی ماں کی کوکھ میں پل رہے بچے کے جنس کا پتہ لگانے کیلئے شاہ رخ خان نے اسکا ٹیسٹ کروایا تھا،ہمارے ملک میں اسطرح کی طبی جانچ پر پابندی عائد ہے، اسکے باوجود یہ جانچ کروایا گیا تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اس جانچ میں اس بچے کی تشخیص لڑکی ہوتی تو اسے بھی دنیا میں شاید نہ آنے دیا جا تا ۔ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں تقریبا 3 کڑور خواتین بانجھ پن کی شکارہیں ،ان میں سے تقریبا بیس فیصدی کو آئی وی ایف کی ضرورت ہے لیکن بہ مشکل دس فیصد لوگ ہی اسکا خرچ برداشت کرپاتے ہیں۔
اے۔ آر۔ ٹی (اسسٹیڈ رپروڈیکشن ٹکنکس )کے ماہر اور ممبئی کے فورٹس لا فیم و لیلاوتی ہسپتال سے جڑے ڈاکٹر رشی کیش پئی کے مطابق اس عمل میںسروگیٹ ماں کا انتخاب اور بچے کے خواہش مند جوڑے کے سا تھ ہونے والا معاہدہ ایک معاشی اور معاشرتی پہلوہے ،جسمیں میڈیکل سائنس کا کوئی دخل نہیں ہے ،انکے مطابق پیسوں کا لین دین اور قانونی معاہدے سے ڈاکٹروں کا کوئی سروکار نہیں،ہمارا کام صرف تکنیکی اور میڈکل مدد دینا ہے،منظور شدہ ایجنسیاں سروگیٹ ماں کا انتظام کرتی ہیںاور انکے مدد سے ہی خواہش مند جوڑے انکے ساتھ قانونی معاہدہ کرتے ہیں،زیادہ تر سروگیٹ مائیں فرٹیلیٹی سینٹر پر خود جاکر اپنی خدمت دینے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں،اولاد چاہنے والے جوڑے ان سے بذات خود نہیں مل پاتے لیکن وہ منظور شدہ ایجنسیوں یا فرٹیلیٹی سینٹر کی مدد سے کرائے کی کوکھ کا انتظام کرلیتے ہیں۔
آئی وی ایف سینٹر چلا رہی ڈاکٹر شیفالی جین کے مطابق سروگیٹ مائیں یہ کام پیسے کیلئے کرتی ہیںاور ان میںسبھی طرح کی ضرورت مندخواتین ہوتی ہیںکوئی عورت اپنے بچے کیلئے اچھی پڑھائی کاانتظام کرنا چاہتی ہیںتو کسی کو اپنے شوہر کے قرض کی ادئیگی میں اسکی مدد کرناہوتاہے،معاشی مجبوری میں کرائے پر اپنی کوکھ دینا کسی عورت کیلئے پیشہ ور فیصلہ ہوسکتا ہے مگر اسمیں جذباتی پیچیدگیوںکی کمی نہیں ہے۔بچے کی پیدائش ایک عور ت کی زندگی کا سب سے خوبصورت احساس ہوتاہے بچے کی پہلی کلکاری ،ننھے پیروںکا پہلا قدم اور اسکی تتلاتی زبان سے نکلے الفاظ ماں کیلئے کبھی نہ بھولنے والا لمحہ ہوتا ہے جسے وہ ہمیشہ اپنے دل میں سجا کر رکھتی ہیں۔
ہمارے ملک ہندوستان میںکرائے کی مائوں کے ذریعے بچے پیدا کرنے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہاہے جس نے ایک ابھرتی ہوئی صنعت کی شکل اختیارکرلیا ہے اور اب سول سوسائٹی میں بھی یہ بات زیر بحث ہے کہ اس صنعت کیلئے قواعد و ضوابط بنائے جائیں ،ہندوستانی قانون کے مطابق کرائے کی مائوں سے پیداہونے والی اولاد پر کرائے کی مائوںکا نہ تو کوئی حق ہے اور نہ ہی انکی کوئی ذمہ داری ،اسکے مخالف مغربی ممالک میں بچے کو جنم دینے والی سروگیٹ ماںہی بچے کی حقیقی ماں سمجھی جاتی ہے اور پیدائشی سرٹیفکیٹ پر بھی اسی خاتون کا نام درج کیا جاتا ہے، معاشرے میں کرائے پر کوکھ دینے والی مائو ں کی سماجی زندگی آسان نہیںہوتی، کیونکہ انہیں سماج میں بری نظر سے دیکھا جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ بیشتر کرائے کی مائیں بچہ جنم دیکر دوسری جگہ منتقل ہوجاتی ہیں ۔ناقدین کا خیال ہے کہ کرائے کی مائوں کے ذریعے غریب خواتین کا استحصال کیا جارہا ہے اسلئے انکا مطالبہ ہے کہ اس کیلئے سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں ،یہ صنعت اس قدر عروج پر ہے کہ غیر ممالک کے ہم جنس پرست جوڑے بھی یہاں کے کرائے کی مائوں سے بچے پیدا کراکرلے جاتے ہیں ،تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی بہ آسانی دستیابی ،جدید ٹکنالوجی ،کم قیمت اور دوستانہ قانون کی وجہ سے بھارت کرائے کی مائوں کا مرکز بن گیا ہے ،بیرون ملک سے بھارت آنے والے بے اولاد جوڑوں کیلئے کرائے کی ماں خریدنا انتہائی سستا اور آسان ہے کیونکہ بھارت میں غریبی میں روز بہ اضافہ ہوتا جارہا ہے ،مائیں اپنی دوسری اولاد کوپر سکون دیکھنے کیلئے اپنی کوکھ تک کرائے پر دے دیتی ہیں ،اسلئے پر کشش رقم کے بدلے ماں بننے والی خواتین کی کوئی کمی نہیں ہے۔روس میں سروگیٹ ماںچاہنے والوںکو دس سے بیس لاکھ خرچ کرنا پڑتا ہے،جبکہ اپنے ملک میں دولاکھ روپئے میں سروگیٹ ماں مل جاتی ہے۔مختلف ممالک سے کئی لوگ بھارت اس لئے آتے ہیں کہ یہاں سستے میں سروگیٹ ماںمل جاتی ہے۔
ایک عورت جب کسی کے بچے کوکوکھ میںرکھتی ہے تو اس سے پہلے سروگیٹ ماں اور بچہ لینے والے کے بیچ ایک معاہد طے ہوتا ہے اس معاہد ہ میں تمام باتوں کا ذکر کیاجاتاہے جیسے معاوضہ،خرچ، سروگیٹ ماں کیا کھائے گی کیا نہیں وغیرہ۔
ٓآج سروگیسی مختلف فیہ مسئلہ ہے ایسے کئی معاملے سامنے آئے ہیں جن میں سروگیٹ ماں جذباتی تعلق کی بنیاد پر بچہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ بچہ معذورپیداہو یا قرار ایک بچے کا ہو ، جڑواںبچے پیدا ہوجائیں تب کئی طرح کے اختلافات سامنے آتے ہیں، جس میں جینیٹک والدین کا بچے کو اپنانے سے انکار بھی شامل ہے۔سروگیٹ مائوں کیلئے ہاسٹل جسے ناقدین بچہ فیکٹری کہتے ہیں ،اسمیں رہنا ضروری ہوتا ہے،جہاں تربیت یا فتہ نرسیں صحت مند بچے کی پیدائش کیلئے سروگیٹ مائوں کو اچھا کھانا ، صحت مند غذا اور دیگر ضروری ادویات دیتی ہیں تاکہ بچے کی صحیح نشو ونما ہوسکے،ہاسٹل میں رہنے والی مائوں کو ہفتے میں صرف ایک دن اتور کو اپنے شوہر اور بچوں سے ملاقات کی اجازت ملتی ہے مگر اس دوران وہ اپنے شوہر سے جسمانی تعلقات نہیں بناسکتی۔ڈاکٹروں کے مطابق سروگیٹ مائیںزیادہ سے ز یادہ تین مر تبہ اپنی کوکھ کرائے پر دے سکتی ہیں جبکہ بچہ پیدا کرنے کے عمل کے دوران کسی حادثے کی صورت میں ہسپتال ،ڈاکٹر یا اولاد مطلوب جوڑے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔
بھارت میں2002ء سے کمرشل سطح پر کرائے کی مائوں کا کاروبار جاری ہے جوروز بہ روز بڑھتا جارہا ہے موجودہ دور میں اسکی مارکیٹ تقریبا ایک ارب ڈالر سے زائد ہے ،بھارت کے علاوہ دوسرے ممالک بھی اس صنعت میں شہرت رکھتے ہیں مگر بھارت میں یہ صنعت بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اسکی اصل وجہ غریبی ہے دراصل یہاں خاندانی رشتے بہت مضبوط ہوتے ہیں اور والدین اپنے بچوںکیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے حکو مت ان مسائل کو سنجیدگی سے لے اور انکا حل تلاش کرے صرف قانون بنانا ان مسائل کا حل نہیں ہے، عملی جامہ پہنانا ضروری ہے۔
دووقت کی روٹی کے لئے باربار اپنے جسم کو کرائے پر دینے کی وجہ سے ان عورتوں کے جسم کی حالت کافی خراب ہوجاتی ہے جس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیںہے نہ توحکومت اس جانب قدم اٹھارہی ہے اور نہ ہی وہ لوگ جوان سے یہ کام کرارہے ہیں۔ ان کے معالجے کے لئے بھی ان کے پاس پیسہ نہیں ہے ،غریب خاندانوں کی بے بسی کی وجہ سے بانجھ جوڑے تو مسکرارہے ہیںمگر انکی مسکراہٹ کاانتظام کرنے والا کوئی نہیں۔
( مضمون نگار ڈی ڈی نیوز دہلی میں اینکرہیں)
masroorfaizi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *