زکوۃ کی فضیلت واہمیت

رمضان کیسے گزاریں ؟ (۲۱)
مولانا ندیم الواجدی

zakat

زکوۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے ، نماز اور روزے کی طرح یہ بھی ایک فرض عبادت ہے، قرآن کریم میں ۸۲/ جگہوں پر نماز کے ساتھ زکوۃ کا ذکر کیا گیا ہے، اور تنہا زکوۃ کا ذکر ان کے علاوہ ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں زکوۃ کی کس قدر اہمیت ہے ایک جگہ فرمایا گیا: ہُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَ، الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ، اُو لٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْن (لقمان: ۳-۵)’’ہدایت اور رحمت ہے ان نیک لوگوں کے لیے جو نماز قائم کرتے ہیں زکوۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ اپنے رب کی طرف صحیح ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘ جو لوگ زکوۃ ادا نہیں کرتے اور مال کی محبت میں اس قدر گرفتار رہتے ہیں کہ جو فریضہ اللہ نے ان کے مال میں متعین کردیا ہے اس کی ادائیگی سے پہلو تہی کرتے ہیں ان کے لیے قرآن کریم میں سخت ترین وعید ہے، ارشاد فرمایا: وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلَیْمٍ، یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُمُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُم تَکْنِزُوْنَ (التوبۃ: ۳۴-۳۵) ’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجئے جس دن اسے (سونے چاندی کو) دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان (مال ودولت والوں) کی پیشانیوں، پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا کہ) یہ ہے جو تم نے جمع کیا تھا اب اپنے جمع کردہ خزانے کا مزہ چکھو‘‘ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وَلَایُنْفِقُونَہَا کے لفظ سے اس طرف اشارہ ہوگیا کہ جو لوگ بہ قدر ضرورت اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو باقی ماندہ مال کے لیے یہ وعید نہیں ہے، اس کی تائید حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس مال کی زکوۃ ادا کردی جائے وہ کَنَزْ تُم میں داخل نہیں ہے (سنن ابوداؤد کتاب الزکوۃ:۲۱۸) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات عین عمل جزاء عمل بنا دیاجاتا ہے، جیسا کہ یہاں ہے کہ جو سرمایہ ناجائز طور پر جمع کیا گیا تھا یا سرمایہ تو جائز تھا مگر ا س کی زکوۃ ادا نہیں کی گئی تھی وہ سرمایہ خود سرمایہ داروں کے لیے عذاب بن گیا، یہاں ایک پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ تپتے ہوئے سونے چاندی سے داغ لگانے کے لیے جسم کے تین حصوں کا انتخاب کیا گیا ہے، پیشانی، پہلو اور پیٹھ، ان تین اعضائے بدن کی تخصیص اس لیے کی گئی ہے کہ جب کوئی سائل یا زکوۃ کا طلب گار اس کے سامنے آتا ہے تو اس کو دیکھ کر سب سے پہلے اس کی پیشانی پر بل پڑتے ہیں، پھر اس سے نظر بچانے کے لیے وہ دائیں یا بائیں مڑتا ہے، اس پر بھی سائل نہ چھوڑے تو اس کی طرف پشت کرلیتا ہے (معارف القرآن: ۴/۳۶۳) ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیْرًا لَّہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (آل عمران: ۱۸۰) ’’اور ہرگز نہ خیال کریں ایسے لوگ جو اس چیزمیں بخل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات ان کے لیے کچھ اچھی ہوگی (ہرگز نہیں) بلکہ یہ بات ان کے لیے بہت ہی بری ہے وہ لوگ قیامت کے روز طوق پہنائے جائیں گے اس مال کا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا‘‘ بخل کی جو سزا اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے اس سزا کی تفصیل حضرت ابوہریرہؓ کی اس روایت میں مذکور ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو اللہ نے مال عطا کیا پھر اس نے اس میں زکوۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے روز یہ مال ایک سخت زہریلا سانپ بن کر اس کے گلے میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گا وہ اس شخص کی بانچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں ، تیرا سرمایہ ہوں پھر سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی(نسائی: ۵/۳۹، رقم الحدیث:۲۴۸۲)
ادیان سابقہ میں زکوۃ:
زکوۃ اسلام میں کوئی نئی چیز نہیں ہے، سابقہ شریعتوں میں بھی زکوۃ مشروع تھی چناں چہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :{وَاَوْحَیْنَا اِلَیْہِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئَ الزَّکٰوۃ} (الانبیاء:۷۳)ِ ’’اور ہم نے ان کو نیک کام کرنے کا نماز قائم کرنے کا اور زکوۃ دینے کا حکم دیا‘‘ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دو سرے فرزند حضرت اسماعیل کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: { وَکَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ} (مریم: ۵۵) ’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اورزکوۃ کا حکم دیا کرتے تھے‘‘ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ شریعتوں میں زکوۃ کا حکم موجود تھا اس کی نوعیت کیا تھی اور طریقۂ کار کیا تھا اس سلسلے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا، اسلام نے زکوۃ کے حکم کو نہ صرف یہ کہ باقی رکھا ہے بلکہ اسے ایک باضابطہ شکل بھی دی ہے۔
زکوۃ کی فرضیت:
ایک قول کے مطابق زکوۃ کی فرضیت مکّے میں ہوچکی تھی، چناں چہ سورۂ مزمل کی آخری آیت میں وآتوا الزکوۃ کا حکم بھی موجود ہے، مشہور اور راجح قول یہی ہے کہ زکوۃ ۲ھ؁ میں فرض ہوئی، اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر چہ سورۂ مزمل مکی ہے مگر یہ آخری آیت مدنی ہے، لیکن سورۂ مومنون ، نمل اور لقمان کی ابتدائی آیتوں میں بھی زکوۃ کا حکم موجود ہے جب کہ یہ تینوں صورتیں بھی مکی ہیں، ان آیتوں کے متعلق بھی یہی کہنا پڑے گا کہ یہ مدنی ہیں، باقی آیات مکّے میں نازل ہوئیں، اس سلسلے میں مشہور مفسر حافظ ابن کثیرؒ کی رائے قرین عقل ہے کہ شاید زکوۃ تو مکہ مکرمہ میں اوائل اسلام میں ہی فرض ہوگئی ہو مگر اس کے نصاب اور مقدار واجب کی تفصیلات مدینہ طیبہ میں ہجرت کے دوسرے سال میں بیان کی گئیں ہوں، تفسیر روح المعانی میں بھی یہی قول اختیار کیا گیا ہے، ابتدائے اسلام میں لوگ اپنے مال کی زکوۃ لا کر سرکارد وعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے بے ساختہ طور پر ان کے لیے دعائیں نکلتی تھیں، چناں چہ صحابۂ کرام سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیںحاصل کرنے کے لیے زکوۃ پیش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے، ایسے ہی حضرات کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : { وَیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَوٰۃٍ الرَّسُوْلِ} (التوبۃ:۹۹) ’’اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے قرب کا ذریعہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعا لینے کا ذریعہ بنا تے ہیں‘‘ اس طرح یہ زکوۃ نادار مہاجرین صحابہ کی ضروریات زندگی کے لیے اہمیت اختیار کر گئی تھی ،مال دار صحابہؓ صدقہ وزکوۃ سے خود بھی غریب صحابہؓ کی مدد کیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھی پیش کردیا کرتے تھے، اس وقت تک زکوۃ کی وصولی کا کوئی باضابطہ نظام نہیں تھا یہاں تک کہ ۹ھ؁ میں یہ آیت نازل ہوئی :خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا (التوبۃ: ۱۰۳) ’’آپ ان کے مالوں میں صدقہ لے لیجئے جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک وصاف کردیں گے‘‘
زکوۃ کا مقصد:
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ زکوۃ کا مقصد مال داروں کے قلب کی تطہیر وتزکیہ ہے، جیسا کہ سورۂ توبہ کی آیت (۱۰۳) میں یہ مقصد واضح کیا گیا ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ زکوۃ کے ذریعے وہ زکوۃ دینے والوں کو گناہوں سے پاک کردے، اور ان کے دل مال کی حرص ومحبت سے پیدا ہونے والے اخلاقی رذائل سے پاک وصاف ہوجائیں، اگرچہ زکوۃ کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے قوم کے ان نادار اور غریب لوگوں کی مدد ہوتی ہے جو عارضی یا مستقل اسباب کی بنا پر اپنی ضروریات زندگی فراہم کرنے سے عاجز رہتے ہیں، جیسے یتیم بچے، بیوہ عورتیں، معذور افراد، عا م فقراء ومساکین اور اسی طرح کے دوسرے لوگ، زکوۃ ان لوگوں کی اعانت کا بہت بڑا ذریعہ ہے، مگر مذکورہ آیت میں اس مقصد کا ذکر نہیں ہے، اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ زکو ۃ کا اصل مقصد در اصل یہی ایک فائدہ ہے، دوسرے فوائد اگراس فریضے کی ادائیگی سے حاصل ہوتے ہیں تو وہ ضمناً ہوتے ہیں، پہلی شریعتوں میں زکوۃ کا کوئی مصرف نہیں تھا، بلکہ طریقہ یہ تھا کہ جو مال زکوۃ کے طور پر وصول ہوتا اسے کسی میدان وغیرہ میں جمع کردیا جاتا اور آسمانی بجلی آکر اسے خاکستر کردیتی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ سے شریعت کا اصل مقصد خود صاحب مال کی اصلاح اور تطہیر ہے معاشرے کے افراد کی خدمت واعانت ثانوی درجے میں ہے اور یہ صرف اس امت کی خصوصیت ہے کہ جو مال زکوۃ کے طور پر نکالا جارہا ہے اسے امت کے فقراء اور مساکین کے لیے جائز کردیا گیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ زکوۃ امت کے مال دار افراد پر فرض ہے، مگر تمام مال داروں پر نہیں ہے بلکہ ان میں کچھ شرائط کے ذریعے تخصیص کردی گئی ہے پہلی شرط تو یہ ہے کہ زکوۃ دینے والا بالغ ہو، نابالغ بچوں کی ملکیت میں کتنا ہی مال کیوں نہ ہوں اس پر یا اس کے سرپرستوں پر کوئی زکوۃ نہیں ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ زکوۃ دینے والا عاقل ہو، مجنوں پر زکوۃ نہیں ہے، آزاد ہو، غلام پر زکوۃ نہیں ہے، مالک ہو اگر کسی کے قبضے میں کوئی مال ہے اورو ہ اس کا مالک نہیں ہے تو اس پر زکوۃ نہیں ہے ،مال بہ قدر نصاب ہو، اگر مال نصاب سے کم ہو تو اس پر زکوۃ نہیں، مال ضر وریات اصلیہ سے زائد ہو، اگر کسی کی ملکیت میں ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی ضروریات زندگی میں داخل سمجھی جاتی ہیں جیسے رہائشی مکان، کپڑے، برتن، فرنیچر، گاڑی وغیرہ ان پر زکوۃ نہیں اس مال پر ایک سال مکمل گزر چکا ہو، ایک سال سے پہلے زکوۃ واجب نہیں ہوگی، مالِ نامی ہو یعنی بڑھنے والا ہو، جیسے سونا چاندی، تجارتی سامان، مویشی وغیرہ اور جو مال نامی نہیں ہے وہ اگر ضرورت سے زائد ہو تب بھی زکوۃ نہیں ہے، مثلاً کسی کے پاس کئی رہائشی مکانات ہوں متعدد گاڑیاں ہوں غیر ضروری برتن اورکپڑے وغیرہ ہوں ،اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر مال پر زکوۃ نہیں ہے، بلکہ اس مال پرز کوۃ ہے جو عادتاً بڑھتا رہتا ہے جیسے مال تجارت، مویشی یا سونا چاندی۔(فتاوی عالمگیری: ۱/۱۷۲ بدائع الصنائع: ۲/۷۸)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *