پاکستانی خواتین کی معاشی خود مختاری اور خاندان کے ڈھانچے پر اس کے اثرات

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ،اسلام آباد نے خواتین کے مسائل پر ایک سروے کرایا ہے جو یہ بیان کرتا ہے کہ آخر پاکستانی معاشرہ کہاں جا رہا ہے ۔ہندوستان میں بھی کم و بیش وہی مسائل ہیں جو وہاں دیکھنے کو مل رہے ہیں افادہ عام کے لئے مذکورہ اسٹڈی کو یہاں شائع کیا جارہا ہے ۔(ادارہ)

میمونہ عنبرین
میمونہ عنبرین

ایس جی جی آئی (صنف کے مسائل کے مطالعہ کے لئےاسٹڈی گروپ) کے ورکنگ گروپ کی تیسری میٹنگ کاا نعقاد جناب خالد رحمٰن کی زیر صدارت ہوا۔ محترمہ میمونہ عنبرین ، لیکچرار شعبہ ویمن اینڈ جینڈر اسٹڈیز علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے ’’ خواتین کی معاشی خودمختاری خاندان کے ڈھانچے پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر پریزنٹیشن دی ۔
یہ پریزینٹیشن صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دسووا نامی ایک گاؤں میں کی جانے والی خود شرکتی تجرباتی تحقیق پر مبنی تھی ۔ دسووا گاؤں میں خواتین کی اکثریت معاشی طور پر خود کفیل ہے اس لئے اس موضوع پر مطالعہ کے لئے یہ جگہ مثالی تھی ۔ محترمہ عنبرین نے اس گاؤں میں چھ ماہ قیام کیا ۔ انہوں نے لوگوں سے انٹرویو لئے اور تحقیق کے مختلف ذرائع اور طریقے استعمال کرتے ہوئے وہاں کے سماجی ڈھانچے اور وہاں بسنے والے افراد کے رجحانات اور رویوں کا جائزہ لیا۔
اس مطالعہ کا بنیادی مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ اقتصادی طور پر خود مختار خواتین گھریلو ذمہ داریوں اور نوکری کے درمیان توازن کس طرح برقرار رکھتی ہیں۔ اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کس طرح خواتین کی اقتصادی خود مختاری ان کے رویے اور تعامل پر اثر انداز ہوتی ہے ۔
محترمہ میمونہ عنبرین سمجھتی ہیں کہ معاشرے میں خواتین کا کردار گھر کے روایتی میدا ن سے نکل کر عام زندگی کے تما م میدانوں میں سرگرم شمولت تک پھیل گیا ہے ۔ ان کے کردار میں یہ وسعت نظریات اور عمل کی نئی توضیح و تشکیل کر رہی ہے ۔ چونکہ خاندان کا ادارہ مشکلات سے دوچار ہے اس لئے خواتین کو سخت محنت کرنی ہے کہ وہ اپنی خاندانی زندگی اور ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے نئے مطلوبہ کردار کو بھی درست انداز سے ادا کر سکیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسئلے کو سمجھا جائےاورصورت حال کے گہرے تجزیے کے ذریعے قومی زندگی میں خواتین کی شرکت کے لئے ایک مناسب لائحہ عمل ترتیب دیا جائے ۔
اپنی تحقیق کے طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے محترمہ عنبرین نے کہا کہ گاؤں میں ان کے چھ ماہ کے قیام کے دوران انہوں نے صرف سوال نامے اور انٹرویوز پر تکیہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے مقامی تقریبات، روایات اور روز مرہ کی زندگی میں شرکت کر کے ان کی معمول کی زندگی کا مشاہدہ کیا۔عمر رسیدہ اور معز ز افراد کی نشاندہی معلومات کے بنیادی ذریعے کے طور پرکی گئی ۔اور فیلڈ ورک کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات کو ان سے چیک کروایا گیا۔ اور ماضی قریب میں مقامی معاشرہ جن مراحل سے گزرا ہے اس کو سمجھنے میں بھی ان افراد نے بہت مدد کی۔
دسووا گاؤں بڑی آبادی پر مشتمل علاقہ ہےجہاں عموماً خواتین متنوع اقتصادی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ لوگ اچھے تعلیم یافتہ ہیں، کچھ ڈاکٹر اور سی ایس پی آفیسرز گاؤں ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور یہیں رہتے ہیں۔ زیادہ تر خواتین بطور استاد برسر روزگار ہیں جبکہ دیگر خواتین نرسنگ اور دوسری معزز نوکریاں کر رہی ہیں ۔ کچھ خواتین زراعت، پولٹری اور دستکاری کے کاروبار میں بھی شامل ہیں۔ وہ خواتین جو گھر پر رہتی ہیں وہ بھی دستکاری اور سلائی کے کام میں مشغول رہتی ہیں ، تاہم ابھی تک کوئی ایسی خاتون نہیں ملی جو انفرادی طور پر اپنا کاروبار چلا رہی ہو۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اس گاؤں کا ہائی اسکول تقریبا سو سال قبل برطانیہ کے دور اقتدار میں تعمیر کیا گیا تھا

حِرا محمود
حِرا محمود

گاؤں کی آبادی مسلم اکثریتی ہے اور خواتین کی اکثریت پردہ کرتی ہے اور پانچ وقت نماز پابندی سے ادا کرتی ہے۔ البتہ گاؤں میں کچھ عیسائی آبادی بھی ہے۔
اپنی تحقیق کے نتائج پیش کرنے سے پہلے انہوں نے اس تصور کو بیان کیا جو اس تحقیق کی بنیاد بنا ۔ انہوں نے کہا کہ’’ عورت کا مقام ‘‘ کی اصطلاح سے ان کی مراد وہ مقام ہے جو معاشرتی ڈھانچے میں بطور فرد ایک عورت کے حقوق و فرائض کی روشنی میں واضح کیا جاتا ہے ۔ اور اقتصاد سے مراد وہ تمام سرگرمیاں ہیں جو آمدن بڑھانے یا بچت سے متعلق ہوں۔ ان کی رائے ہے کہ خواتین گھریلو اقتصاد میں اپنا حصہ ملا رہی ہیں کہیں براہ راست (آمدنی بڑھا کر) اور کہیں بالواسطہ (بچت کر کے) ۔
انہوں نے اپنا مشاہدہ بتایا کہ معاشی طور پر خود کفیل خواتین فیصلہ سازی اور دیگر گھریلو معاملات میں زیادہ حصے کی طلبگار ہوتی ہیں۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں خواتین شادی کے بعد شوہر کے گھر منتقل ہونے سے انکار کر دیتی ہیں اور اصرار کرتی ہیں کہ یا تو وہ ان کے پاس آکر رہے یا پھر شادی ختم کر دی جائے۔ خواتین کے اس اصرار نے مقامی سماجی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی پیدا کی ہے ۔ اور اب اس گاؤں کو عام طور پر’’ جوائیاں دا پنڈ‘‘ (دامادوں کا گاؤں) کہا جاتا ہے۔
اس تبدیلی کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ بیٹے عموماً اپنے والدین کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے کہ ان کی دیکھ بھال کر سکیں ۔ بلکہ خواتین اپنے والدین کو اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔ تا ہم عموما کسی بھی فیصلے میں نہ تو والدین یا دیگر بزرگوں سے رہنمائی لیتی ہیں اور نہ اس میں دخل اندازی کی اجازت دیتی ہیں۔
خاندان میں ہم آہنگی کے فقدان کا تناسب کام کرنے والی خواتین کے خاندانوں میں بہ نسبت کام نہ کرنے والیوں کے بہت زیادہ ہے۔ پہلے پہل لوگ مشترکہ خاندان کے طور پر رہتے تھے مگر اب مشترکہ خاندان تیزی سے چھوٹے خاندانوں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔
ایک اور ہم پیش رفت جس کا حال ہی میں مشاہدہ کیا گیا یہ ہے کہ والدین اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ انہیں آئندہ دنوں میں اپنے بیٹوں کے بجائے بیٹیوں پر تکیہ کرنا پڑے گا، وہ اپنے اثاثہ جات میں سے بیٹیوں کے لئے عموماً زیادہ حصہ مختص کرتے ہیں۔

ایمن جویریہ
ایمن جویریہ

اگرچہ خواتین کمانے میں مشغول ہیں لیکن تا حال گھریلو مصارف میں ان کا حصہ معمولی ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ ایک خاتون جو نوکری کے ذریعے کچھ کما رہی ہے وہ روز مرہ کے اخراجات چلانے کے لئے اپنی آمدن گھریلو مصارف میں ڈالتی ہو۔ ابھی تک مرد کو ہی خاندان کے معاشی انتظامات کا ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے۔
اسی طرح گھریلو کام کاج کا انتظام خواتین ہی کرتی ہیں خود یا ملازمین کے ذریعے جن کا بندوبست اور اخراجات کی ادائیگی مرد ہی کرتے ہیں۔ بچوں کی نگہداشت کا کام دا دا /دادی کرتے ہیں یا پھر ملازمین کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ مردوں کو قربانی دینی ہے اور برداشت کرنا ہے۔ اور خاندان میں چپقلش اکثر دیکھنے کو ملتی ہے۔ طلاق کا تناسب اس گاؤں میں ارد گرد کے علاقے سے بہت زیادہ ہے۔ خاندان کے اندرونی مسائل کے باوجود کسی گھریلو تشدد کا کوئی واقعہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ صاحب مقالہ کا خیال ہے کہ یہ اس سمجھداری کا نتیجہ ہے جو تعلیم کی وجہ سے ان میں آئی ہے۔
ایسی خواتین جو کمائی کے لئے باہر نہیں جاتیں وہ بھی گھریلو اقتصاد میں اپنا حصہ ملا رہی ہیں کیوں کہ وہ خاندان اور گھریلو کام کاج پر پوری توجہ دینے کے ساتھ ساتھ آمدنی میں اضافے اور بچت کی سرگرمی میں مشغول رہتی ہیں۔
چونکہ کام کرنے والی خاتون نے سرکاری اور سماجی مصروفیات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ہوتا ہے اور گھریلو کام کاج کے لئے رکھے ہوئے ملازمین کو بھی ادائیگی کرنی ہوتی ہے، اس لحاظ سے کام کرنے والی خواتین کی گھر میں شراکت ایک گھریلو خاتون کے برابر ہو جاتی ہے۔
عام طور پر خواتین وہی کام کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس کی انہوں نے تعلیم حاصل کی ہو، نوکری کو تعلیم کا حتمی نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔
بہر حال اسی گاؤں میں ایسی خواتین بھی ہیں جو انتہائی اہل ہیں پھر بھی وہ نوکری کے انتخاب کے بجائے اپنے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کی طرف توجہ دینے کو ترجیح دیتی ہیں۔ جبکہ ان کے شوہر اورخاندان کے دیگر مرد حضرات ضروریات زندگی کے لئے کماتے ہیں۔
اگرچہ فیصلہ سازی میں معاشی طور پر خود کفیل خواتین کا اصرار ہے کہ ان کی بات گھریلو خواتین کے مقابلے میں زیادہ سنی جائے، لیکن درحقیقت گھریلو زندگی کو دینے کے لئے ان کے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے۔ جبکہ گھریلو خاتون اس حوالے سے زیادہ بااختیار نظر آتی ہے۔
خواتین کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے محترمہ عنبرین نے حاضرین کو بتایا کہ شعبہ انتھروپولوجی کے تحت ہونے والے کامیاب مطالعہ جات مسلسل یہ دکھا رہے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں مرد و خواتین اسی عورت کو مثالی سمجھتے ہیں جو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے خاندان کے ادارے کو منظم رکھتی ہیں اور اسے مضبوط کرتی ہیں۔ اگرچہ بیرونی معاشی سرگرمیوں میں عورت کی شمولیت کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے لیکن تا حال عورت کے روایتی کردار کوبہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
بعد کی بحث میں تمام لوگوں نے اس پریزنٹیشن کو بہت سراہا اور اس بات کا اظہار کیا گیا کہ پریزینٹر کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سماجی اور تہذیبی منظر نامے کی ایک حقیقی تصویر ہے۔
اس بات کو نمایاں کیا گیا کہ مثالی اور خود کفیل عورت کا تعین پاکستانی معاشرے کے تناظر میں ہونا چاہئے۔ معاشی اختیار سے مراد عموماً سماجی و معاشی پابندیوں سے آزادی اور فیصلہ سازی میں خود مختاری ہی لیا جاتا ہے۔ بہر حال یہ تصور معاشرے کی ساخت اور مقامی اقدار و روایات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پاکستانی معاشرے میں باوجود اس حقیقت کے کہ وہ گھریلو آمدن میں ایک پیسہ بھی نہیں دیتے لیکن پھر بھی بیشتر خاندان کا سب سے عمر رسیدہ شخص ہی سب سے زیادہ قابل احترام اور با اختیار ہوتا ہے۔ لہذا پاکستانی معاشرے میں بااختیار ہونے کا لازمی تعلق معاشی مقام سے نہیں ہے۔
اسلام کی تعلیمات کے مطابق ایک عورت کو اپنی ملکیت اور آمدن پر مکمل حق حاصل ہے۔ لیکن چونکہ معاشرتی تعلقات مروت، قربانی اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے ہی مضبوط ہوتے ہیں، اس لئے ایک خاتون جو کماتی ہے اسے گھریلو اخراجات میں حصہ ڈالنا چاہئے اور اسی طرح مرد حضرات کو گھریلو کام کاج میں خواتین کا ہاتھ بٹانے سے کترانا نہیں چاہیے۔ باہمی عزت و احترام اور تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے یہ طریقہ روایتی طور طریقوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔
یہ فطری بات ہے کہ جو شخص بھی معاشرتی زندگی کو زیادہ وقت اور خدمات دیتا ہے اسے اہم معاملات میں زیادہ اعتماد اور حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ خواتین جو گھر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں، کام کرنے والی خواتین کے مقابلے میں خاندانی معاملات میں ان کا زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ اور بیشتر مواقع پر خاندان سے متعلق معاملات میں ان کی رائے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
ایک اور قابل غور بات یہ تھی کہ تعلیم کو ہر حالت میں کمائی سے نہ جوڑا جائے ۔ یہ عمومی مشاہدہ ہے کہ ان پڑھ لوگ بھی بہت زیادہ کمائی کر سکتے ہیں۔ تعلیم کا اصل مقصد انسانی شخصیت کی تعمیر اور اچھے رویوں کی نشوونما ہے۔ اس تصور کو معاشرے میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔
تعلیم نسواں کے یہ مقاصد انہیں علاقوں میں حاصل کئے جا سکتے ہیں جہاں مرد حضرات تعلیم یافتہ ہوں۔ کیوں کہ ناخواندہ مرد یقیناً تعلیم نسواں کے راستے میں مشکلات پیدا کریں گے۔ زیر مطالعہ گاؤں میں تعلیم نسواں کی اتنی بلند شرح صرف اسی لئے ممکن ہوئی کہ گاؤں کے مرد تعلیم یافتہ تھے۔ مرد و خواتین دونوں کی ترقی اور نشوو نما باہم مربوط ہے جسے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
عورت کو با اختیار بنانے کی حالیہ کوششیں بڑے تجارتی اداروں کے اقتصادی مفادات کا حصہ نظر آتی ہیں۔ اس معاشی اختیار کی حوصلہ افزائی کرنے والے جان بوجھ کر عورت کے اس کلیدی کردار کو نظر انداز کرتے ہیں جو اس نے معاشرے میں ادا کرنا ہے۔ عورت کو معاشی طور پر با اختیار بنانے سے کسی طور انکار نہیں کرنا چاہئے لیکن معاشرے کے توازن، ضروریات اور اقدار کو ضرور ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *