ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم

’کمسنی کب تک ‘ قانون کا مسودہ تیار،
آج کابینہ میں پیش ہوگا
مرزاعبدالقیوم ندوی، اورنگ آباد* 9325203227

اس وقت ملک میںبچہ جرائم پرکافی بحث ہورہی ہے،دہلی اورممبئی کے شکتی مل کے گینگ نے سب کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔آئے د ن ملک میںزنا بالجبر کے واقعات رونما ہورہے ہیں ،جن میں نوجوان اورکم عمر کے لڑکوں کی شمولیت تشویشناک ہے۔ جس نے ارباب اقتداراور ماہرین قانو ن کو یہ سوچنے پرمجبورکردیا ہے کہ ان کم عمر مجرمین کو کیا کیا جائے ۔سزا کے وقت سب سے بڑا مسئلہ مجرمین کی کمسنی کا آتا ہے ۔کم عمر ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے جرائم کہ جن کے جن انجام دینے سے بالغ مرد کوعمر قید،پھانسی،10-20سال کی سزا ہوتی ہے ،اگر یہ جرائم کم عمرنابالغ لڑکے انجام دے تو ان مجرمین کوزیادہ سے زیادہ تین سال تک ریمانڈ ہوم رکھا جاتاہے۔کم عمر مجرم ہونے کے سبب ان کوکوئی خاص سزا نہیں ہوتی ۔عمر کی حدکو کمی جائے اس پر بہت بحث ہورہی ہیںماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ آج کے انٹرنیٹ کے زمانہ میں لڑکے لڑکیاںوقت سے پہلے ہی بالغ ہوجاتے ہیں۔نوعمر لڑکوں کے ہاتھوںمیںموبائل آجانے کے سبب ان کے اندر جنسی جذبات بڑی شدت سے ابھر رہے ہیں۔ بڑے شہروں میں رونماہونے والے جرائم میںکم عمر کے لڑکوں کی تعدادبہت زیادہ ہے۔2011میں جب ملک کی راجدھانی دہلی میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم کا ریکارڈ کی جانچ ہوئی تو اس میںیہ دیکھاگیا کہ ان کے انجا م دینے والے اکثرنوجوان اورکم عمر کے لڑکے شامل ہیں۔جس کی بناپر دہلی کے سابقہ نائب گورنر تیزیندر سنگھ کھنہ نے عمر کی حد کو کم کرنے کی شفارش مرکزی وزیر داخلہ سے کی تھی۔عمر کی حد کم کرنے کی مانگ کرنے سے پہلے ہمیںکچھ ضروری باتوں کا علم ہونا چائیے ۔بھارت نے نوعمر مجرمین کی عمر کی حدکا جو قانون بنایا ہے اس کی بنیاد 1989میںunoکے ذریعہ جاری کیاگیا اعلامیہ ہے ۔تعزیرات ہند میں18سال سے کم عمر والوںکی سزا تین سال تک ریمانڈ ہوم میںرکھنے کی ہے۔عمرکی جوقید لگائی گئی ہے وہ اس بنیادپر کہ 18سال سے کم عمروالے بچوں میںیہ سمجھ نہیںہوتی کہ وہ کیاکرنے جارہے ہیں اوراس کا انجام کیا ہوگا۔ان کے اندر پختگی نہیںہوتی۔ان باتوں کومدنظررکھتے ہوئے مذکورہ بالاسزاتجویزی کی گئی ہے۔کچھ سماجی تنظیموں کا یہ کہناکہ اگر ان کمرعمر والے مجرمین کو سولہ سال کی عمر میںہی جیل میںڈال دیاجائے گاتو وہ وہاںعادی مجرمین کو صحبت میںاور زیادہ بگڑجائیںگے۔؟ اگر گناہ انجام دیتے وقت ہی اس کے نام پراگر خون،زنا،ڈاکہ جیسے جرائم کا ا ندراج ہوں تو اس کوکیاکیاجائے۔!!!
مرکزی وزیرداخلہ کی رپورٹ میں چونکا دینے والے اور حیرت انگیز اعداد وشمار سامنے آئے ہیں جن میں بچہ جرائم کا ریکارڈ دیا گیاہے ۔2013میں1007بچوںپر خون کرنے سے جیسے خطرناک گناہوں کاانداج ہے۔2012میں39ہزار822اسی طرح 2013میں 43ہزار 506لڑکوںمختلف جرائم میں گرفتار کیاگیا۔2013میں 07سے 12سال کے عمر والے 1130،بارہ سال تا 16سال کے عمر والے 13346،اسی طرح16تا18سال کے عمر والے28ہزار830شامل ہونے کی رپورٹ ہاتھ میںآئی ہے۔زنا بالجبر جیسے جرائم میں سولہ تا اٹھار ہ سال کی عمر والوں کی تعداد زیادہ ہیں۔ان میںسے اکثر بچوں اور لڑکوںپر خون،رہزنی،ڈاکہ ،چوری ،پاکٹ مارنا،لڑائی جھگڑے جیسے جرائم میںان کا فیصد بہت ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو بچہ مجرم کہا جائے یا پختہ عمر کے عادی مجرموںمیں شمار کیاجائے۔ملک کی موجودہ سماجی وسیاسی صورتحال کے پیش نظرملت اسلامیہ کے اس بیش بہا سرمایہ کی حفاظت کرنا ،نوجوان نسل کو گناہ و جرائم کے راستے سے روکنابہت ضروری ہوگیاہے۔آج بڑے شہروں میںجومجرمین پکڑے جاتے ہیںنہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ان میںمسلمان پائے جاتے ہیں۔ان کو کیسے کم کیاجاسکتاہے،ا س پر سنجیدگی سے غورکرنا ہوگا۔ورنہ ملت اسلامیہ کا یہ قیمتی سرمایہ ضائع ہوجائیگا۔
مسلم نوجوانوں کا حال: رمـضان المبارک کو الوداع کہتے ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا ہے ، عالم اسلام کی صورتحال اور فلسطین و غازہ پر یہودیوں کے ظلم و ستم کی تصویریں بھی facebook.what’s upپرگردش کررہی ہیں، مسلمانان عالم اپنے بھائیوں پرہونے والے مظالم کی وجہ سے سخت غم اور غصے میں ہیں۔وطن عزیزکی بھی صورتحال بدلی ہوئی ہے۔ریاست کی عوام بارش کی وجہ سے پریشان ہے،لاکھوں ہاتھ اللہ کے آگے پھیلے ہوئے ہیں،کروڑوں آنکھوں سے آنسو جاری ہے۔مسلمان آج بھی گڑاگڑاکر اور تہجد میںدھاڑے مارمار کر امت مسلمہ کی حفاظت کے لیے اللہ کے سامنے رورہے ہیں۔ تصویر کا ایک رخ یہ ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ملت کے نوجوان نشہ کررہے ہیں، مختلف قسم کی گولیاں کھارہے ہیں،گانجہ پی رہے ہیں اور بہت سے تو شراب بھی پی رہے ہیں،ہمارے ایک نوجوان دوست نے جب یہ بتایا تو ہم پریشان ہوگئے کہ یہ ملت کا قیمتی سرمایہ کس طرح ضائع ہورہا ہے ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے شہر کے مشہور و معرو ف مسلم علاقہ میں مغرب کی نماز کے بعدچائے پینے کے لیے گیا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ ایک بڑے ہال میں نوجوان کیرم کھیل رہے ہیں ۔کیرم کھیلنے میں اس قدر مگن ہے کہ میں وہاں پانچ منٹ تک کھڑا رہا کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ مولوی صاحب آپ یہاں کیسے ؟ان کا انہماک دیکھ یر میںدنگ رہ گیا کہ یہ نوجوان جس خشوع وخـضوع ،یکسوئی ودلجمعی کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور جتنا وقت یہاں دے رہے ہیں اگر اس کا دسواں حصہ بھی مسجدوں میںلگادیں تو ہم سمجھتے ہیںکہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کافی بدلی ہوئی نظر آئے گی اور اللہ تبارک تعالی جب ان نوجوان ہاتھوںکو اپنے آگے اٹھتا ہوا دیکھے گا تو یقینا ان کی دعاؤں کو رد نہیں کرے گا۔
سگریٹ بیڑی،گٹکا،پان اور تمباکو تو کوئی مستحسن چیز ہے، جس کے کھانے اور کھلانے کو لوگ ثواب سمجھتے ہو،اس قدر کھایا اور کھلایا جارہاہے کہ الامان والحفیظ،کھانے اور پینے کے لیے جگہ کی کوئی قیدنہیںہے،بی ان کے اثرات آپ مسجدوں کے بیت الخلاء اور طہارت خانو ں میں دیکھ سکتے ہیں ۔یہ لوگ بڑے اطمینان سے جگالی کرتے ہوئے پان اور گٹکے کے پیچ مارتے ہوئے ،سگریٹ و بیڑی کے مرغولے اڑاتے ہوئے اطمینان سے مسجدوںکے بیت الخلاء کو خراب کرتے رہتے ہیں،جبکہ ذاتی مکانوں میںاس عمل سے گریز کرتے ہیں،کیونکہ وہاں اہلیہ اور والدہ محترمہ فوراََخبر لیں گی۔کیا کریں لت جو لگ گئی ہے۔بقول غالب ؔ چھٹتی نہیں غالب منھ کو لگی ہوئی۔
نشہ کی کئی قسمیں اور طریقے ہوتے ہیں،ایک نشہ تو وہ ہے جو عام ہے،جس کے فوری اثرات مرتب ہوتے ہیں،نشہ کرنے والا آدمی فوراََ پہنچانا جاتاہے، دوسرا نشہ معنوی ہوتا ہے جس میںآدمی گناہ بے لذت کا شکار ہوتاہے۔ اس کے مضراثرات اورشناخت دیر سے ہوتی ہے ۔کچھ لوگوں کو کسی چیز کی لت پڑ جاتی ہے،نشہ اورلت دونوں بھی خطرناک ہے۔دونوں کے لیے آدمی بے چین رہتا ہے۔ ان کے کیے بغیر وہ سکون و اطمینان کی سانس نہیںلے سکتا ۔آج کل نوجوانوں میںیہ دونوں قسمیں شدت سے سرایت کررہی ہیں،اس کی ایک بہت بڑی وجہ mobilکا حد سے زیادہ بڑھتا ہوا استعمال ہے،ہزار دوہزار روپیے میںچائنا کے نئے پرانے smart phone مل جاتے ہیں، جس پر نوجوان نسل porn site,ودیگرجنسی ویب سائٹس کا اس پرطرفہ تماشہ یہ کہ موبائل کمپنیوں نے بیس روپیے میں انٹرنیٹ کی سہولت مہیاکردی ہے۔
اسلام میں زنا کی جو حد ہے اس کی تفصیلات فقہ کی کتابوں میںدرج ہے۔سن بلوغت پر بھی علماء اور فقہاء کے مختلف اقوال ہیں،راجح اور زیادہ مشہور قول 15سال کی عمر کو سن بلوغ ماناگیاہے۔ پندرہ سال کی عمر کے لڑکے پر تمام اسلامی حددوکا نفاذ ہوگا ۔اس پر اجروثواب بھی ملے گا،جزر توبیخ بھی ہوگی ،سزا کا مستحق بھی ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *