جوتوں کے بڑے برانڈ ز بھی حرام کام میں ملوث!

٭…خنزیر کی کھال سے تیار شدہ جوتوں کی نشانی یہ ہے اس جوتوں کے تلووں اور اطراف میں تین ، تین ڈاٹس ہوتے ہیں

٭…خنزیر کی کھال سے تیار شدہ جوتوں کی نشانی یہ ہے اس جوتوں کے تلووں اور اطراف میں تین ، تین ڈاٹس ہوتے ہیں

٭…کھانے پینے ، لگانے ، پہننے اور استعمال کی اکثر مصنوعات میں حرام کی آمیزش کا رفتہ رفتہ انکشاف ہو رہا ہے

عجیب کھیل ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسوں سے جاری ہے ، ہماری بے فکری ، لاپرواہی اور عدمِ دلچسپی سے بھر پور انداز میں فائدہ اٹھا یا جارہا ہے ،فوڈ انڈسٹری کا حال تو اس دورِ جدید میں کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ کن کن طریقوں سے مسلمانوں کو حرام کھلایا جارہا ہے ، ہماری روحانی طاقت کو برباد کرنے کے لیے کون سا ہتھکنڈاہے جسے نہ اپنایا گیا ہو ،دورِ حاضر میں تو بظاہر یوں لگتا ہے جیسے آج اسلامی ممالک میں پیدا ہونے والے بچے کے منہ میںرکھی جانے والی غذا سے لے کر قریب المرگ بوڑھے کی زبان پر رکھی جانے والی دوا تک کوئی چیز حرام کی آمیزش سے پاک نہیں !

کھانے پینے ، لگانے ، پہننے اور استعمال کی دیگر تمام مصنوعات میں حرام کی آمیزش کا رفتہ رفتہ انکشاف ہو رہا ہے ، اسی حوالے سے ایک رپورٹ پیشِ خدمت ہے جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ملک بھرکی نمایاں مارکیٹوںکے نامور برانڈزمیں خنزیر کی کھال سے تیار شدہ جوتے بلا خوف وخطر فروخت کیے جارہے ہیں ، اس فکر سے آزاد ہو کر کہ کوئی مسلمان وضو ،غسل کرنے کے بعد پیروں کو گندگی سے بچانے کے لیے اس جوتے کو پہنے گا ، جبکہ خنزیر کے چمڑے سے بنا یہ جوتا اس کے جسم سے مسلسل مس ہوتا رہے گا تو اس کے جسم کی پاکیزگی ، طہارت اور عبادت اپنے آپ میں ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ؟ اس ذمہ داری سے دستبردار ہو کر یہ گھناؤنا عمل جاری ہے کہ کوئی مسلمان اس ناپاک چمڑے سے بنے جوتوں کو مسجد اور دوسری عبادت گاہوں میں لے جائے گا تو آیا اس سے مسجد کا تقدس پامال نہیں ہوگا؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں اس رپورٹ کو آپ کے سامنے پیش کرنے کے!
اسی مقصد کے لیے چار مہینے کی مسلسل محنت اور معلومات اکھٹی کرنے کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل کا پروگرام نشر ہوا ، اس اسکینڈل کو بے نقاب کرنے کی محرک ایک ای میل تھی جو کہ ایک برطانوی خاتون نے اس پروگرام کے اینکر کو بھیجی تھی۔ ای میل میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال انہوں نے تقریباً تمام مارکیٹوں میں PIG LATHERسے بنے ہوئے جوتے بکثرت دیکھے تو اسے حیرت کے شدید جھٹکے لگے کہ ملک میں بھی ایسے ناپاک جوتے بلا روک ٹوک فروخت کیے جا رہے ہیں! اس کے ساتھ ہی اس خاتون نے سور کی کھال کی کچھ موٹی موٹی نشانیوں کو بھی واضح کیا تھا۔ اس میل کے موصول ہوتے ہیں انہوں نے اس منافع بخش اور بظاہر بے عیب مگر مکروہ کاروبار کے چہرے سے نقاب سرکانے کے لیے کچھ اس انداز سے کام شروع کیا ۔
ابتدائی تحقیق اور ریسرچ کے بعد جن علامات کا علم ہوا تھا ان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دو دن کی مسلسل محنت سے مختلف مارکیٹوں سے سور کی کھال سے مماثلت رکھنے والے مشکوک جوتے خریدے ، اور اس کے بعد اسے ٹیسٹ کے لیے ’’لیدر ریسرچ سینٹر ‘‘میں دیے، ٹیسٹ کے لیے درکار دنوں کے انتظار کے بعد آخر کار رپورٹ آگئی، لیکن یہ جان کر بڑی مایوسی ہوئی کہ یہ سور کی کھال کے جوتے نہیں بلکہ سور کی کھال سے مماثلت (مشابہت) رکھنے والے جوتے تھے۔لیکن ان کی خبر اپنی جگہ پکی تھی کہ ایسے ناپاک جوتے بازاروں میں فروخت ہو رہے ہیں،اسی لیے انہوں نے ہمت نہ ہاری اور لیدر کے ایک ماہر کی خدمات حاصل کرنے کے بعد اس کی نشاندہی پر کچھ مزید جوتے خریدے۔
سور کی کھال کے جوتے بنانے والوں میںکچھ بڑے برانڈز اور ان کے بااثر مالکان بھی شامل ہیں ، اسی لیے لیدر کے اس ماہر کی زندگی اور ملازمت کو لاحق ممکنہ خطرات کے پیش ِ نظر اس کی شناخت کو پوشیدہ رکھا گیا ہے ، چمڑے کے اس ماہر کے لیے بھی ہزاروں شوز اسٹور کے لاکھوں جوتوں میں سے سوّر کی کھال کے جوتے تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ، کیونکہ کوئی بھی دکاندار جوتے کو اُدھیڑنے یا پھر ضرورت سے زائد پرکھنے کی اجازت ہر گز نہیں دیتا تھا ۔سو، پورے دن کی عرق ریزی کے بعد بالآخر شہر کے مشہور اور مہنگے برانڈ کا ایک جوتا ہاتھ لگا جس پر شک گزرا کہ یہ سور کی کھال کا بنا ہوا جوتا ہو سکتا ہے ، اس ٹیم نے فوراً اس جوتے کو خرید لیا ، مزید تحقیق کے لیے ٹیم پھر لیدر ریسرچ سینٹر پہنچی ، ضروری کاروائی اور مقررہ فیس کی ادائیگی کے بعد یہ جوتا بھی ان کے حوالے کر دیا ، چند روز بعد بالآخر لیدر ریسرچ سینٹر نے اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ اس جوتے میں سور کی کھال یعنی پگ لیدر کو استعمال کیا گیا ہے۔ (PCSIR) ’’کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ‘‘کی تصدیقی رپورٹ آنے کے بعد انہیں کچھ حوصلہ ہوا کہ ان کی محنت رائیگا ں نہیں گئی۔
اس جرم کو بے نقاب کرنے کے لیے تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپوں کے جوتے مختلف اوقات میں خریدے گئے اور انہیں ٹیسٹ کے لیے لیدر ریسرچ سینٹر بجھوایاگیا، اور یہاں بھی الگ سے ہزاروں روپوں کی فیس ادا کی گئی ، جب کہ اس تحقیق میں چار بڑی دکانوں کو شامل کیا گیا کہ ان سے ایسے جوتے خریدے گئے ، جبکہ ان چار دکانوں میں سے دو کانداروں نے حلفاً کہا کہ ہم جوتے امپورٹ کرتے ہیں ہمیں قطعاً اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان جوتوں میں سور کی کھال استعمال کی جا رہی ہے ، جبکہ سور والے جوتوں کا تمام اسٹاک تلف کرنے کا وعدہ بھی کیا ، اسی لیے پروگرام میں ان دو دکانداروں کی شناخت کو خفیہ رکھا گیا ہے ۔ دوسری جانب دو دکانوں کے مالکان نہ اپنی غلطی ماننے کو تیار تھے اور نہ ہی سور کی کھال یعنی پگ لیدر کے بنے ہوئے جوتوں کی فروخت کو روکنے پرآمادہ تھے ، لہذا ان کو کیمرے کی آنکھ سے دکھا یا گیا ہے۔ اور رپورٹ کے آخر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ ،کوئی تحقیقاتی کمیشن یا پھر عدالت کہے تو ہم ان دکانوں کے نام، وہاں سے خریدے گئے جوتوں کے سمپل اور لیدر ریسرچ سینٹر کی رپوٹ تحقیقات کے لیے پیش کرنے کو تیار ہیں!
خنزیر کی کھال سے تیار شدہ جوتوں کی نشانی یہ ہے کہ اس جوتوں کے تلووں اور اطراف میں تین ، تین ڈاٹس (یعنی 3باریک سوراخ ) تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہوتے ہیں ، اور یہ باریک سوراخ اس بال کی نشاندہی کرتے ہیں جو سوّر کی کھال موجود ہوتے ہیں ، تو اس کھا ل کو مختلف مراحل سے گزار کر جب اس کا چمڑہ تیار کیا جاتا ہے تو اس پراسس کے دوران وہ بال تو نکل جاتے ہیں لیکن نشان چھوڑ جاتے ہیںاور یہی واضح نشانی ہے سور کے کھال کی! تو آپ حضرات بھی بیش قیمت جوتے پسند کرتے وقت خوب جانج پھٹک اور تسلی کرنے کے بعد ہی خریدیں کہ اس میں تو کہیں وہ باریک ڈاٹس نمایاں نہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *