یو پی ایس سی میں عربی و فارسی پر پابندی

ڈاکٹر سید ظفر محمود

تقریباً دو برس سے ہم پریشان ہیں کہ سول سروس کے مین امتحان کے لئے اختیاری مضامین کی فہرست میں سے یو پی ایس سی نے عربی اور فارسی کو خارج کر کے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل محتلف یونیورسٹیوں کے عربی و فارسی کے پروفیسر ودیگر اساتذہ میرے پاس تشریف لائے اور اس نا خوشگوار تبدیلی پر تشویش ظاہر کرتے ہوے بتایا کہ وہ ایک وفد لے کر اس وقت کی یو پی اے حکومت کے وزیر اعظم دفتر میں وزیر مملکت (جویو پی ایس سی کی ذمہ داروزارت پرسونیل و ٹریننگ کے انچارج ہوتے ہیں) کے پاس گئے تھے لیکن انھوں نے کوئی مدد نہیں کی۔ ایک صاحب خیر نے ہائی کورٹ میں پیٹیشن بھی دائر کر دی جو کہ تکنیکی بنیاد پر خارج ہو گئی۔ پھر میں نے طے کیا کہ حقائق کی جڑ تک پہنچنا ضروری ہے۔ لہٰذا زکوٰۃ فائونڈیشن آف انڈیا نے حق اطلاع قانون کے تحت یو پی ایس سی کو خط لکھ کر عربی اور فارسی کو اختیاری مضامین کی فہرست میں سے نکالنے کے لئے فیصلہ جن بنیادوں پر لیا گیا ان سے متعلق تمام دستاویز وںاورکاغذوں کی نقلیںطلب کیں۔ جواب آیا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا۔ فائونڈیشن فرسٹ اپیل میں چلی گئی۔ اس دفعہ 2012 اور 2013 کے یو پی ایس سی نوٹیفکیشنوںکے اقتباسات بھی منسلک کر دئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2012 تک اختیاری مضامین کی فہرست میں عربی و فارسی شامل تھے اور 2013 سے انھیں نکال دیا گیا۔ اپیلیٹ اتھارٹی سے فائونڈیشن نے کہا کہ یا تو یو پی ایس سی نوٹیفائی کرے کہ عربی و فارسی اختیاری مضامین کی فہرست میں شامل ہیں ورنہ پرنسپل انفارمیشن آفسر کو ہدایت دی جائے کہ فائونڈیشن کو مطلوبہ دستاویز و کاغذات مہیا کریں۔ اپیلیٹ اتھارٹی نے فائونڈیشن کے حق میں فیصلہ دیا۔ لہٰذا اب پرنسپل انفارمیشن آفسر نے فائونڈیشن کو بتایا کہ یو پی ایس سی نے اپنی 2012 کی رپورٹ میں مرکزی حکومت کو لکھا تھا کہ اختیاری مضامین کی فہرست میں صرف انگریزی اور وہ ہندوستانی زبانیں شامل رکھی جائیں جو دستور ہند کے شڈیول VIII میں شامل ہیں۔کیونکہ عربی اور فارسی شڈیول VIII میں شامل نہیں ہیں اس لئے انہیں اختیاری مضامین کی فہرست سے نکال دیا گیا۔

دل نہیں مانا ‘ لہٓذا میںخود یو پی ایس سی گیا اور میں نے وہاں لائبریری میں تقریباً پورا دن لگایا۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد کی متعدد رپورٹیں پڑھ ڈالیںاور خصوصاً 2012 کی رپورٹ۔ معلوم ہوا کہ یو پی ایس سی کے ذریعہ تشکیل کردہ پروفیسر ارُن نِگاویکر کی صدارت میں ایک 6 رکنی کمیٹی(Prof Arun Nigavekar Committee) نے 30 اگست 2012 کو اپنی رپورٹ یو پی ایس سی کو پیش کی تھی جس میں ِ صفحہ نمبر 108 پر پیرا 6.4.7 میں لکھا ہے کہ ’’ستیش چندرا کمیٹی کو سول سروس ’مین امتحان‘ میں شامل اختیاری مضامین کی فہرست پر نظر ثانی کا کام دیا گیا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ جن مضامین میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تعداد مقابلتاً قلیل ہے انھیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ اُس نے سفارش کی تھی کہ 4 مضامین (فرانسیسی‘جرمن‘ روسی اور چینی) کو نکال دیا جائے ‘‘۔لیکن ہاں‘ یو پی ایس سی نے 2012 کی جو اپنی رپورٹ مرکزی حکومت کو دی اس میں ضرور یہ لکھ دیا کہ انگریزی کے علاوہ دستورہند کے شڈیول VIII میں شامل ہندوستانی زبانوں کو ہی یو پی ایس سی ’مین امتحان ‘کے لئے اختیاری مضامین کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ لیکن ایسا یو پی ایس سی نے کس بنیاد پر لکھا یہ عقدہ ابھی کھلنا باقی ہے۔ نِگاویکر رپورٹ کو بنیاد بنا کر یو پی ایس سی سے جرح کی جا سکتی ہے(Cross examination) ‘ دیگر تحقیق شدہ دلیلیں بھی دی جا سکتی ہیں۔لیکن میں نے یو پی ایس سی میں ملت کی آنکھیں کھولنے والی ایک تلخ حقیقت بھی دیکھی۔ وہ یہ کہ2012 اور اس کے پہلے کئی برس میں کبھی تو پورے ملک سے صرف ایک ایک امیدوار نے عربی اور فارسی کو اپنا اختیاری مضمون بنایا اور کبھی ایک نے بھی نہیں۔ اب قارئین اور ملت کے بہی خواہ مجھے بتائیں کہ میں لڑائی لڑوں بھی تو کس کے حق کے لئے ؟

نصیحت محمدی ؐ ہمیں یاد ہے کہ ہر انسان کوکسی نہ کسی شکل میں جد و جہد کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے‘ جو لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں وہ دیر سویرسے غلام بنا لئے جاتے ہیں۔ جب رسول اﷲ ؐاور حضرت ابو بکرصدیق ؓ جبل طور کی غار میں چھپ گئے اور یارِ غار نے تشویش کا اظہار کیا کہ دشمن وہاں نہ آ جائیں تو ارشاد رسالت ہوا کہ’ ’آپ اُن دو اشخاص کے ایک جگہ تنہا ہونے کی کیا اہمیت سمجھتے ہیں جہاں تیسرا خدا خود ہو‘ آپ بالکل پریشان نہ ہوںکیونکہ یقینا اﷲ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔جب وہ اونٹنی جس پر سوار ہو کر حضور ؐ مدینہ منورہ پہنچے اور میزبانی کا خواہشمند ہر خاندان اونٹنی کی لگام اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھاتو ارشاد نبوی ؐہوا کہ اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ حکم الٰہی کی تعبیدار ہے۔ مسجد نبوی اسلامی سماج کے ہر پہلو کی عکاسی کرتی تھی: عبادت گاہ‘ تعلیم گاہ‘ سماجی نشونما کا مرکز‘ فریقین کے درمیان مذاکرہ و مصالحت کی جائے وقوع‘ حکمرانی و انتظامی امور کے بندو بست کا دفتر‘عوام کے لئے ایثار و فرض شناسی کی تلقین کا منبر ‘ غرضیکہ دین میں زندگی کے ہر شعبے کی مشمولیت کی زندہ مثال۔ یہ سب کام اس عمارت سے ہوتے تھے جو کھجور کے پیڑ کے تنوں پر کھڑی کی گئی تھی اور جس کی چھت کھجور کے پتوں کی تھی۔ بہر حال 13 برس کی ذلت‘ عقوبت و ایذا رسائی ختم ہو چکی تھی اور اس کے بجائے کامیابی و کامرانی کے اگلے اُن دس برس کی شروعات ہو چکی تھی جس کی مثال دنیا میں دیکھنے کوآگے کی14 صدیوں میں نہیں ملی ہے۔ ہجرت سے قبل تک رسول اکرم ؐ مبلغ تھے لیکن اس کے بعد سے وہ ایک ایسی سلطنت کے حاکم بھی بن گئے جو شروع میں قلیل رقبہ میں سمائی ہوی تھی لیکن جس نے دس برس میں اپنے دائرہ اقتدار میں دنیا کے بڑے خطے کو سمیٹ لیا ‘ یہ سب کام انھوں نے عمر کے 53 ویں برس سے لے کر 63 ویں برس تک کیاجبکہ ان کا خام مال (Raw material)تھے مختلف البطن خدادادعوام۔

تاریخ رسالت کے مندرجہ بالا مدارج پر آج کے ہندوستانی منظرنامہ میں ہمیں اپنے کو رکھ کر لائحہ عمل طے کرنے کے لئے سبق لینا ہو گا۔ وزارت انسانی وسائل جلد ہی نئی تعلیمی پالسی منظر عام پر لانے والی ہے‘ آر ایس ایس کی ذہنیت والے تاریخ داں متعلقہ کمیٹیوں میں شامل کر لئے گئے ہیں۔ ملک کی فرقہ وارا نہ فضا کافی مکدر ہو چکی ہے۔ علی گڑھ کے وائس چانسلر کی زبان کو میڈیا نے اس لئے بیجا طور پر پکڑ لیا کہ فضاکی اس آلودگی سے میڈیا کے کافی افراد مستثنیٰ نہیں رہ سکے۔ مہاراشٹر ہائی کورٹ نے مسلمانوں کے لئے ملازمت میںرزرویشن پر روک لگا دی ہے۔ مرکزی وزیر سماجی انصاف نے صاف بیان دیا ہے کہ موجودہ حکومت عدالت عالیہ میں شڈیولڈ کاسٹ کی تعریف میں سے مذہب کی قید ہٹانے کی مخالفت کرے گی ورنہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی رزروڈ سیٹوں میں حصہ مل جائے گا جس سے تبدیلی مذہب کے راستے کھل جائیں گے۔وزیر اعظم میانمار گئے لیکن وہاں مسلمانوں پر ہو رہی ادارہ ساز زیادتیوں پر روک لگانے کا کوئی ذکر نہیں آیا۔مگر ہم ہیں کہ ثمم بکمن ‘جبکہ حالات اُتنے خراب تو نہیں ہیں جتنے بعثت نبویؐ کے وقت تھے۔

امریکی حکومت کے انڈر سکریٹری(جو ہمارے ملک میں وزارتوں کے سکریٹریوں کے ہم منصب ہوتے ہیں) دہلی آئے اور یہاں غیر سرکاری اشخاص سے بھی ملے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کے ملک کا ایجنڈا ہے کامبیٹنگ ٹررزم اورکائونٹر ٹررزم(Combating Terrorism & Countering Terrorism) ۔کائونٹر کے معنی ہیں جوابی کاروائی اور کامبیٹ کہتے ہیں جنگی مقابلہ کو۔ یعنی حکومت کی ساری توانائی اور اس کا پورا ظرف اس میں استعمال ہو رہا ہے کہ انتہا پسندی و دہشت گردی کی جو حرکتیں ہو چکی ہوں ان سے کس طرح نپٹا جائے۔ یقیناً انتہا پسند و دہشت گردعناصر سے سختی سے پیش آنااور انھیں سزا دینا حکومت و عدلیہ کا فرض ہے ۔ لیکن جو بچہ آج 5 برس کا معصوم ہے وہ اب سے 20 برس بعد اگر دہشت گرد بن جاتا ہے اور اگر ہم آج یا ان 20 برسوں میں اس کی روک تھام کے لئے کچھ نہ کریں تو آج اور ان 20 برسوں میںاور اس کے بعد بھی حکومت اور معاشرہ کو ناسمجھ اور غیر ذمہ دار ہی مانا جائے گا۔ ہمارے ملک اور دنیا کے تمام ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کو پالسی کے تحت تحقیق کرنی ہو گی کہ اگلے 20 برس میں ملک و دنیا میں ہونے والے کون کون سے ظلم و نا انصافی اور دل شکنیاں ہیں یا ہونے والی ہیں جو اس جوان ہوتے ہوے بچے کے ذہن میں منفی رجہانات پیدا کر سکتی ہیں اور ان کے حق شفع (Preemption)کے لئے ملک و دنیا کو اپنی پالسیوں اور حکمت عملی میں کیا تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ عالمی سماج کو یقینی بنانا ہو گا کہ اگر حقوق انسانی اور ملکی مفاد میں تضاد ہو تو حقوق انسانی کی ہی قدر دانی کی جائے۔ اِدھرمسلم یونیورسٹی سے متعلق حالیہ قومی واردات سے ہمیں یہ اندرونی سبق بھی لینا ہو گا کہ اگر کسی لکیر کو کوئی بلا وجہ چھوٹا کہنے لگے تو بہتر طریقہ یہ ہو گا کہ ہم اس لکیر کو نہ چھیڑیں بلکہ ہم برابر میں اپنی پنسل سے ایک زیادہ لمبی لکیر کھینچ دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *