تجارت پھیلانا بھی عبادت ہے

کچھ تاجر دوست سمجھتے ہیں کہ جب چھوٹی دوکان سے اللہ تعالی حلال روزی دے رہا ہے تو کاروبار پھیلانے کی کیا ضرورت ہے؟ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ کاروبار تو صرف ضرورت کی حد تک کرنا چاہیے۔ جب ضرورت پوری ہوگئی تو اب دوکان بند کردیں۔ ایسے دوست پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان پڑھ لیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے گھر بیچا، پھر اس رقم کی سرمایہ کاری ایسی ہی کسی چیز میں نہ کی تو اس مال میں برکت نہیں ہوگی۔‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الرہن: 2490)
سوچنے کی بات ہے کیا آج کے دور میں تجارت صرف اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کرنی چاہیے۔ کیا تجارت کو پھیلانا ثواب نہیں ہے؟! اس میں کوئی شک نہیں کہ دل میں مال و دولت کی حرص نہیں ہونی چاہیے۔ مگر عالم اسلام کو مضبوط کرنے اور بے روزگار مسلمانوں کو نیا روزگار فراہم کرنے کی نیت سے تجارت پھیلانے میں کیا حرج ہے؟ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 24فیصد بے روزگاری ہے۔ باخبر تاجر رہنما کہتے ہیں کہ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ان نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی نیت سے کاروبار پھیلانا بلاشبہ ثواب ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں صحابہ کرام کی اولاد نے تجارت اسی لیے چھوڑ دی تھی کہ ہمیں جب رزق حلال گھر بیٹھے مل رہا ہے تو پھر تجارت کرنے کی کیا ضرورت؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا:’’ اگر تم نے تجارت چھوڑ دی تو تمہارے مرد اور عورتیں، تجارت کرنے والی قوم کی غلام بن جائیں گی۔ ‘‘(تراتیب: 19/2)
خوابوں کی تعبیر کے ماہر امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں: میرے والد ’’سیرین‘‘ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔ مگر انہوںنے آزادی ملنے کے بعد کپڑوں کی تجارت شروع کردی۔ ایک بار ’’سیرین‘‘ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد واپس جانے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا۔ پوچھا: یہ تم نے کپڑوں کا گٹھڑ کیسے اٹھا رکھا ہے؟ سیرین نے عرض کیا: میں اس میں کپڑے لپیٹ کر بازار جاتا ہوں اور وہاں تجارت کرتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں موجود قریشی صحابہ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا: اے قریشی قوم! یہ اور اس جیسے غلام تم پر تجارت میں کہیں سبقت نہ لے جائیں۔ بے شک تجارت میں ایک تہائی امیری ہے۔ (ایضا)
ایک تاجر میں قناعت ضرور ہونی چاہیے۔ وہ جتنا کمائے اس پر اللہ کا شکر ضرور ادا کرے، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ کاروبار کو وسعت نہ دے۔ وہ ایک چھوٹی کمپنی سے ملٹی نیشنل کمپنی بنانے کی جستجو نہ کرے۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے اسلام اس لیے تو قبول نہیں کیا کہ مال کمائوں۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا ہی عمدہ بات ہے کہ نیک آدمی کے پاس حلال مال ہو۔‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی: باب البائ) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کیا ہے:’’ مال خوش نما اور مزیدار ہے، جس شخص نے اس کو حلال طریقے سے حاصل کیا، پھر درست جگہ خرچ کیا تو اس کے لیے یہ مال بہت اچھا مدد گار ہے۔‘‘ (مشکوۃ شریف: 5162)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *