آخر ہم مسلمانوں کے کس غم میں شامل ہوں؟

آزاد میدان ممبئی میں عوام نماز ادا کرتے ہوئے۔(فائل فوٹو: معیشت)
آزاد میدان ممبئی میں عوام نماز ادا کرتے ہوئے۔(فائل فوٹو: معیشت)

آرزو شوکت علی
عصر کی نماز ہو چکی تھی ۔آرتھر روڈ جیل کے بیرک نمبر ۶میں قیدی معمول کی چہل قدمی کر رہے تھے ۔ بیرک بند ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔چونکہ رمضان المبارک کے ایام تھے لہذانماز کے بعدکچھ لوگ مصلیٰ پر ہی موجود تھے۔میں بھی ان کے درمیان بیٹھا دینی امور پر خوش گپیوں میں مشغول تھا۔دھیرے دھیرے دینی مسئلے نے مسلک کی چادر اوڑھ لی۔اب وہاں موجود کوئی چوبیس نمبری تھاتو کوئی وہابی،کوئی اہل سنت والجماعت کا علمبردار تو کوئی خواجہ کا پرستار،کوئی ولی کی کرامات کا خوگر تو کوئی بزرگوں کا ہی منکر۔مسلک کی چادردھیرے دھیرے لوگوں کے چہروں کو ڈھکنے لگی تھی اور پھر اچانک ایک چھوٹے سے مصلے پر اتنی دیواریں کھڑی ہوگئیں کہ لوگوں کو حبس محسوس ہونے لگا ۔
معاملہ اس قدر پیچیدہ ہوگیا کہ لوگ اپنی سانسیں درست کرنےکی بجائے دوسروں کی سانسوں کو دبانے میں ہی عافیت سمجھنے لگے اور ہر مسلک کا پجاری دوسرے کی مسلک کا گلا گھونٹنے پر آمادہ نظر آنے لگا۔اب خوش گپیاں بلند آوازوں میں تبدیل ہو چکی تھیں۔لوگوں کے آستین چڑھنے لگے تھے اور پھر اچانک میں ان لوگوں کے بیچ اپنے آپ کوبے یار و مددگار محسوس کرنے لگا جنہیں میں عصر کی نماز پڑھا کر فارغ ہوا تھا۔ لوگوں کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی اور میرے بیچ گھیرا تنگ ہوتا جارہا تھا ۔’’مسلک کے مجاہدوں‘‘نے مجھے چاروں طرف سےگھیر رکھا تھا۔اب ان کی سانسیں میری سانس سے ٹکرانے لگی تھی۔لوگوں نے آستین چڑھا لی تھی،روزہ افطار سے قبل ہی مغلظات شروع ہوچکے تھے۔میں اس آفتِ ناگہانی سے پریشان اپنی بقا ء کی سبیل ڈھونڈھ رہا تھا کہ اچانک اپنے کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا۔میری نظریں اس شخص کی طرف اٹھ گئیں۔دیکھا تو وہ کرشنا تھا۔کرشنا چھوٹا راجن گینگ کا شارپ شوٹر رہ چکا تھا جبکہ بعد میں اس نے روی پجاری گینگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔وہ قتل کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے تھا۔وہ شام کا وقت میرے ساتھ گذارتا تھا۔بسا اوقات ہم ساتھ میں ہی چہل قدمی کیا کرتے تھے۔جیسے ہی اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا وہاں موجود دیگر لوگوں نے معاملے کی نزاکت کو سمجھ لیا۔کیونکہ ایک طرف اگرچھوٹا شکیل کے شوٹر مجھے حصار میں لئے ہوئے تھے تو دوسری طرف روی پجاری گینگ کا شوٹر میری دفاع میں موجود تھا۔اب سارا بیرک جو ’’توتو میں میں‘‘کو آئے دن کا معمول سمجھتا تھا ،اس معرکے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہ رہا تھا۔تمام لوگوں کی نگاہیں ہم لوگوں پر ٹکی ہوئی تھیں۔لوگ کسی ناگہانی واقعہ کے منتظر تھے کہ اچانک ۱۹۹۲-۹۳بم دھماکوں کے ملزم محمد سلیم چیختے ہوئے بیرک میں داخل ہوئے ’’کوئی ہاتھ مت اٹھانا‘‘’’کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا‘‘۔اور پھر پورا مجمع چھٹ گیا۔کہ سلیم صاحب ان لوگوں کے سربراہ تھے اور گینگ کے لوگوں پر ان کی عزت لازم تھی۔ جبکہ بذات خود سلیم صاحب مجھ سے انسیت رکھتے تھے۔
دوسرے دن جب میں کرشنا کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا تو میں نے اس سے گذشتہ روز کےواقعہ پر اس کی رائے جاننے کی کوشش کی اور یہ بھی کہ اچانک وہ کیوں آگیا تھا۔ کرشنا کہنے لگاجب سے آپ آئے ہیں میں آپ کو بہت قریب سے جاننے کی کوشش کر رہا ہوں،میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں آپ لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔(واضح رہے کہ ان دنوں روی پجاری گینگ کی طرف سے پریشان کئے جانے اور مارےجانےکی دھمکی اخبارات کی زینت بھی بن چکی تھی)لیکن جیسے جیسے آپ سے دوستی ہوئی ویسے ویسے میرے خیالات آپ کے تعلق سے تبدیل ہوتے چلے گئے۔میں یہ دیکھتا ہوں کہ آپ کی دوستی ہر ’’ہانڈی‘‘والوں سے ہے۔ہر گروپ میں آپ اٹھتے بیٹھتے ہیں کسی سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔مسلمانوں کے ساتھ ساتھ آپ ہندوئوں سے بھی ویسے ہی پیش آتے ہیں جیسے کہ آپ ان کے دوست ہوں ۔اسی دوران آپ کو دیکھا کہ آپ نے جمعہ کی نماز شروع کردی اور جمعہ کے دن آپ نے ’’پروچن ‘‘دینا شروع کردیا ۔حالانکہ اس بیرک میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تھی۔پہلا جمعہ جب آپ لوگ پڑھ رہے تھے تو مجھے بہت غصہ آیا تھا کہ اب ان لوگوں(مسلمانوں) نے یہ نیا کچھ شروع کیا ہے۔اسی لئے جب آپ کا ’’پروچن‘‘ شروع ہوا تھا تومیں یہ دیکھنے کے لئے کہ آپ کیا بولتے ہیں اپنی جگہ پر بیٹھا رہا تھا۔لیکن پورے ’’پروچن‘‘ میں بھائی چارے اور مانوتا کی جو بات سننے کو ملی تو میرا خیال بدل گیا کہ ’’کم از کم جو غنڈے یہاں جمع ہیں وہ کچھ تو بھلائی کی باتیں سن رہے ہیں‘‘۔کرشنا اپنی باتیں جاری رکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔’’میں بنارس کا رہنے والا ہوں ۔خاندانی پنڈت ہوں جبکہ گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کی ہے۔میں خراب سنگت کی وجہ سے ممبئی بھاگ آیا اور پھر انڈرورلڈ میں شامل ہوگیا ۔شروع میں مجھے تمام چیزیں اچھی لگتی تھیں لہذا جرائم کرتا رہا۔’’بھائی‘‘ کے ہر فون پر کام کرتا تو ’’بھائی‘‘ کا قریبی ہوتا چلاگیا لیکن جب پکڑا گیا تو احساس ہوا کہ میں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ہے۔ اب جیسے جیسے دن گذرتے ہیں مجھے اپنی غلطیوں کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا جاتا ہے۔میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا رہا ہوں کہ جیل میں وہی لوگ آتے ہیں جو جرائم کرتے ہیں لیکن ان چار برسوں میں جب سے میں یہاں ہوں پہلی مرتبہ دیکھا ہے کہ کسی کو غلط الزامات کے تحت پولس نے سلاخوں کے پیچھے بھیجا ہے۔‘‘کرشنا کہہ رہا تھا کہ ’’یہاں بھانت بھانت کے مسلمان ملزمین ہیںجو اپنے باہر کے کالے کارنامے بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں ۔لیکن آپ لوگوں کے تعلق سے میں نے کوئی ایسی بات نہیں سنی جو یہ ظاہر کرتی ہو کہ آپ لوگ جرم کی دنیا کا حصہ ہیں۔کل بھی آپ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تھی اور شاید یہ رمضان کا تیسرا جمعہ تھا ۔کل میں اپنے تمام دوستوں کے ساتھ آپ کا ’’پروچن ‘‘سنتا رہا ،مجھے بڑا ہی اچھا لگا ۔لہذا آج جب ان لوگوں نے آپ کو گھیر لیا اور بحث کرنے لگے تو پہلے مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا لیکن جب یہ دیکھا کہ ان لوگوں کی نیت آپ کو مارنے کی ہے تو مجھے یہ چیز برداشت نہیں ہوئی۔ اسی لئے میں فوری طور پر آپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا کہ کوئی غلطی سے بھی ہاتھ لگانے کی کوشش نہ کرے۔کیونکہ جن لوگوں نے آپ کو گھیررکھا تھا ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جن کے سنگین جرائم سے میں واقف ہوں۔ان میں سے بیشتر چور ہیں،ڈاکہ ڈالنے والے یالٹیرےہیں۔کچھ پاکٹ مار ہیں اور کچھ انڈرورلڈ سے وابستہ ،جو دو ہزار روپئے ماہانہ پر جرائم کرتے ہیں۔میں اس بات کو گوارہ نہیں کررہا تھا کہ کوئی شریف آدمی ان غنڈوں سے مار کھا جائے۔‘‘پھر کرشنا پوچھنے لگا کہ’’ آخر بات کیا ہوئی تھی؟وہ لوگ تو آپ کوبڑا مانتے تھے پھر اچانک یہ کیا ہو گیا‘‘؟میں نے کہا ’’دراصل مسئلہ ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ کاتھا، میں کسی ایک ’’اسکول آف تھاٹ ‘‘کو نہیں مانتا بلکہ پورے اسلام پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں۔کل وہ لوگ جن چیزوں پر بحث کر رہے تھے وہ نہ تو اسلام میں ہے اور نہ ہی اسلام اس کی اجازت دیتا ہے لہذا جب وہ جواب نہیں دے سکے تو پھر لڑنے بھڑنے پر آگئے۔‘‘کرشنا کہنے لگا کہ ’’میں نے اسلام کے بارے میں پڑھا ہے لیکن جو اسلام کی تھیوری ہے اور جو مسلمان پریکٹیکل کرتے ہیں اس میں بڑا فرق لگتا ہے۔اسی طرح آپ کے یہاں بھی اتنے سارے ’’پنت‘‘ہیں کہ آدمی کنفیوژ رہتا ہے ،کون صحیح ہے اور کون غلط۔ ’’پنت‘‘ کے نام پر لڑائیاں ہوتی ہیں تو ہم لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو !یہ خود ہی آپس میں لڑتے ہیںتو دوسروں کو اچھی باتیں کیا سکھائیں گے؟اسلام ایک سنسکاری مذہب ہے لیکن مسلمانوں کے اندر سنسکار بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔یہاں جیل کے اندر سب سے زیادہ جو لوگ جرائم کر کے آتے ہیں وہ مسلمان ہی ہیں ۔میںسمجھ نہیں پاتا کہ آخر ان نئے نئے بچوں کو آپ کی سماج میں سمجھانے والا کوئی کیوں نہیں ہے۔چند پیسوں کے لئے یہ کیوں سنگین جرم کر بیٹھتے ہیں‘‘۔کرشنا اپنی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھا لیکن میں کسی طرح کے فوری جواب سے قاصر تھا۔
اب جبکہ ان واقعات کو زمانہ گذر گیا ہے ،کہیں کسی نہاں خانے میں یہ چیزیں یادرہ گئی ہیں۔ لیکن جیسے ہی کہیں کوئی مسلکی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ماضی کے یہ واقعات یاد آجاتے ہیں۔اس وقت جبکہ ملک فرقہ پرستی کی آگ میں جل رہا ہے جابجا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہیں ایسی صورتحال میں بھی مسلمان اپنے مسلکی خول سے باہر نہیں نکل سکےہیں۔رمضان المبارک سے دو تین روز قبل میں کولکاتہ کے سفر پر تھا کہ ایک روز دیکھا کہ سیالدہ کے قریب مصروف شاہراہ کومقامی مسلمانوں نے جام کر رکھا ہے۔چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے مسجد کی بازیابی کے خواستگار ہیں۔میں اس بات سے پریشان کہ آخر یہاں کسنے مسجد پر قبضہ کرلیا کہ بازیابی کے لئے سڑکوں پر نکلنا پڑ رہا ہے۔میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ معاملہ کیا ہے تو پتہ چلا کہ کیلا بگان کی مسجد پر دوسرے مسلک والوں نے قبضہ کر لیا ہے جبکہ مقامی کارپوریٹربھی قبضہ کرنے والوں کا ساتھ دے رہا ہے۔اپنی عادت سے مجبور میں وہاں بھی لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگا اور یہ گذارش کرنے لگا کہ آپ لوگ کم از کم راستہ جام نہ کریں کہ یہ مصروف شاہراہ ہے اور شام کے وقت لوگوں کا ازدہام ہے۔لو گ کن ضروریات کے ساتھ گذر رہیںآپ کو اس کا اندازہ نہیںہے۔ آپ لوگوں کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کی شبیہ خراب ہو رہی ہے بلکہ اسلام کو بھی آپ بدنام کر رہے ہیں۔دفعتاً صورتحال وہی پیش آئی کہ لوگوں نے مجھے حزب مخالف کا سمجھ کر گھیر لیا ۔کچھ اوباش شاید کسی اور پلان کی ترتیب میں لگ گئے کہ میرے شناسائوں نے مجھے اپنے حصار میں بھیڑ سے باہرنکالا اور پھر اپنی حفاظت میں جائے قیام تک پہنچا دیا۔
میں نے اپنے ذارائع سے اصل واقعہ جاننے کی کوشش کی تو مسلمانوں کی کم ظرفی پر رونا آگیا۔دراصل مذکورہ مسجد میں کہیں سے کوئی بڑا فنڈ آیا تھا ۔کسی طرح مقامی کارپوریٹر کو اس کی بھنک لگ گئی جس نے مسجد کے متولی سے سانٹھ گانٹھ کر موجودہ پیش امام کو نوٹس جاری کروادیا۔چونکہ موجودہ پیش امام کا مسجد کے معاملات میں عمل دخل تھا اور وہ مذکورہ فنڈ کو کسی اور ہاتھ میں جانے نہیں دینا چاہ رہے تھے۔لہذا امام سے ہی چھٹکارا حاصل کرنے کا پلان بنایا گیا۔سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ،اس کا بہتر طریقہ یہی تھا کہ معاملے کو مسلکی رنگ دے دیا جائے اور مذکورہ فنڈ کے ساتھ ساتھ رمضان میں جمع ہونے والے فنڈ پر بھی قبضہ کر لیا جائے۔
جب مسلمانوں کےاندر اس قبیل کی فکر پیدا ہوگی تو کیا آپ بہتری کی امید کر سکتے ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *