کشمیر!اقتصادی ناکہ بندی کی شرمناک دھمکی

اڑیسہ کے سیاح محمد قیصر اپنی اہلیہ کے ساتھ کشمیر کی وادی کا نظارہ کرتے ہوئے (تصویر :معیشت)
اڑیسہ کے سیاح محمد قیصر اپنی اہلیہ کے ساتھ کشمیر کی وادی کا نظارہ کرتے ہوئے (تصویر :معیشت)

(نوٹ :مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں۔ادارہ کسی طرح کی مسئولیت کا ذمہ دار نہیں ہے۔کشمیر کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر مذکورہ مضمون نذر قارئین ہےتاکہ حالات کا صحیح اندازہ لگایا جاسکے۔ادارہ معیشت)

عبدالرافع رسو ل
اقتصادی ناکہ بندی اسرائیل کاایک جنگی ہتھیارہے جسے وہ اہل غزہ کے خلاف استعمال کرتاچلاآرہاہے2008میںاسرائیلی سوچ وفکرکی حامل جموں کے جنونی ہندوانتہاپسندتنظیمیںحکومتی آشیروادسے اس ہتھیارکواہل وادی پرآزماچکی ہیں۔ کشمیرپر2008کی طرح ایک بارپھراقتصادی ناکہ بندی کے مہیب سایے منڈلارہے ہیں۔ ہندوستان کی یرقانی جماعت وشواہندوپریشدنے دھمکی دی ہیکہ اگر اسمبلی کے اسپیکر نے بڑے گوشت پر پابندی ختم کرنے سے متعلق بل پر بحث کی اجازت دی تو وادی کشمیر کی اقتصادی ناکہ بندی کردیں گے ۔ستمبر2008میںبھی جموں کی جنونی ہندوانتہاپسند تنظیموں کی طرف سے وادی کی شرمناک اقتصادی ناکہ بندی کردی گئی تھی جس کی وجہ سے کئی ماہ تک اہل غزہ کی طرح اہل کشمیربھی پیچ وتاب میں مبتلارہے ،اس دوران وادی کشمیرمیںاشیاء خوردنی اورادویات نایاب رہیں جبکہ کشمیری مسلمانوں کی ’’اقتصادی شہہ رگ‘‘ میوہ صنعت کو چھ سو کروڑ روپے سے زائدمالیت کا نقصان پہنچایاگیاتھا۔ وشواہندو پریشد کی اقتصادی ناکہ بندی کی تازہ دھمکی سامنے آنے کے بعدکشمیرمیں سخت ردّعمل پایاجارہاہے۔کشمیر کا ہر فرد بلا لحاظ عمر و جنس نےیک زبان ہو کراس دھمکی کومستردکرتے ہوئے کہاہےکہ عیدالاضحی پرحلال جانوروں کی قربانی کرنے میں کسی ناجائزقانونی موشگافی اورنہ ہی کسی یرقانی جماعت کی دھمکی سے خوفزدہ ہوںگے کیوں کہ خداکے حکم کے سامنے تمام فرسودہ قوانین اورفسطائی قوتوں کی دھمکیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔اہل کشمیرنے اپنے اس عزم کااعلان کیاہے کہ اگراقتصادی ناکہ بندی کی گئی تو اس سے کشمیرمیںسنگین صورتحال پیداہوگی اوراس کے بھیانک نتائج نکلیں گے جبکہ حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔اہل کشمیر نے انصاف رکھنے کادعویٰ رکھنے والی عالمی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ جموں کی فرقہ پرست تنظیموں اور حکومت نواز جماعتوں کی دہشت گردی سے تحفظ فراہم کرانے کے لیے آگے آئے۔2008 میںجب جموں کی ہندوفرقہ پرستوں نے وادی کشمیر کے مسلمانوں کو اقتصادی موت مارنے کا قصد کیا تو وادی کشمیر کے مسلمانوں نے اپنی خواہش، آرزو اور تمنا کا برملا اظہار کر کے شاہراہ راولپنڈی کو کھولنے کا مطالبہ کر دیا تھا،کیونکہ یہ پہلے کی طرح آج بھی وادی کشمیر کی راولپنڈی ، پشاور، کابل اور پھر بخارا، سمرقند اور تہران اور اس سے آگے ایک وسیع جہاں کی جانب ایک بڑا دروازہ ہے۔ اور اس طرح کے کسی دروازے کے کھلنے کی اہمیت کشمیر کی خوبصورت جیل میں بیٹھا ہوا کوئی محبوس شخص ہی سمجھ سکتا ہے ۔اپنی تجارت کا رخ پاکستان کی طر ف موڑ نے کے مطالبہ کرنے کے سوا2008کے حالات میں ان کے پاس اس وقت کوئی چارہ کار نہیں بچا تھا۔وادی کشمیر کا سیاسی اور معاشی نظام تنفس راولپنڈی شاہراہ تھی جس کے ذریعے وادی کا صدیوں سے ان علاقوں سے جنہیں اس وقت مسلم ہندوستان کہا جا تا تھا نہ صرف رابطہ تھا بلکہ وسطِ ایشیا تک رسائی بھی تھی لیکن 1947میں کشمیر پر ہندوستان کے فوجی قبضے کے بعدکشمیرکے تنفس کا یہ قدرتی راستہ بند ہوا ۔پون صدی گذرجانے کے باوجود جموں کشمیر کے اس فطری راستے پر ہندوستانی فوج بدستورقابض ہے جسکے باعث کشمیریوں کااس شاہراہ پر نقل وحمل ممکن نہیں رہنے دیا گیا ۔ کشمیرپر جبری قبضے کے بعد ہندوستان نے’’ درّہ بانہال ‘‘کے ذریعے کشمیرکے لئے ایک مصنوعی راستہ کھول دیا جو جاں بلب کشمیری معا شرے کے لیے’’ آکسیجن ٹینٹ ‘‘یا تنفس کا مصنوعی نظام تھا ۔وادی کشمیر کے لوگوں نے اس آکسیجن ٹینٹ سے اتنا ہی فائدہ اُٹھایا جتنا کہ زندگی کی نبض جاری رکھنے کے لیے ضروری تھا۔کشمیرمیں ہندوانتہاپسندجماعتوں کی طرف سے کی جانے والی اقتصادی ناکہ بندی کے خلاف پائے جانے والے شدید ردعمل کوٹھنڈاکرنے کے لئے21اکتوبر2008 میں شاہراہ راولپنڈی اور کشمیر کو پاکستان سے ملانے والے پونچھ، راولا کوٹ کے دوسرے قدرتی راستوں کو تجارت کے لیے کھولا گیا۔ بادی النظر میںکشمیرکے فطری راستوں کو آر پار تجارت کے لیے کھولنا بڑا دلربا نظر آرہا تھا اور اسے کشمیریوں کیساتھ ہمدردی اور غمخواری کا تاثر بھی دیاجا رہا تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ عمیق مشاہدے کے بعد یہ ثابت ہواکہ یہ کشمیریوں کیےساتھ کوئی ہمدردی کاکارنامہ نہیں تھابلکہ یہ کلی طورپرکشمیر کی جدوجہد آزادی کے صریحاً خلاف ایک ایسی سازش رچائی گئی ، جسکے تانے بانے بہت دور تک جا ملتے ہیں۔2008میں شاہراہ راولپنڈی اور کشمیر کو پاکستان سے ملانے والے پونچھ، راولا کوٹ کے دوسرے قدرتی راستے کھل گئے تو کشمیر کے تاجر صنعت کار اور فروٹ گروورس حسب توقع فرحاں و شاداںنظر آئے کہ تجارت کے طفیل اب وہ لاہور میں مفکر ملت شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی آخری آرام گاہ پر پہنچ کر ان کی مغفرت اور ترقی درجات کے لیے دعا کریں گے، علامہ کی آخری آرام گاہ پر پہنچنا یقینا ہر کشمیری مسلمان کا محسور کن خواب اور والہانہ شوق و ذوق ہے کیونکہ ان کے پر اثر کلام نے انہیں جدوجہد آزادی برائے اسلام پر ابھارا لیکن عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے محدود پیمانے پر اس شاہراہ کے کھول دیئے جانے اور محدود تجارت سے کشمیر وادی کے تجار اور صنعت کاروں کا خواب اب بھی تشنہ تعبیر ہے۔اس سچائی اور صداقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ راولپنڈی روڈ کو صرف محدود تجارت اور محدود سفر کے لیے کھول دینے کا عمل کشمیری مسلمانوں کی عظیم اور بیش بہا قربانیوں کا مقصود و مطلوب ہے اور نہ ہی کشمیری مسلمان اپنے پیاروں کو اس حقیر مقصد کے لیے قربان کر رہے ہیں بلکہ جس اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے ملت اسلامیہ کشمیر نے ہر طرح کی قربانی پیش کی اسے حاصل کئے بغیر اسے کسی بھی دوسری شئے سے اطمینان و راحت اور سکون نہیں مل سکتایہی وجہ ہے کہ وہ بس ، ریل اور تجارت کو کوئی خاص اہمیت نہ دے کرتقسیم برصغیر کے ادھورے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بر سر مطالبہ ہیں اور وہ مقصد کے حصول کے لیے قربانیاں دینے کے لیے قطار اندر قطار کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اسلامیان کشمیر کو معلوم ہے کہ انہیں ان کا پیدائشی حق ملنے کے بعد ہی ان کی تجارت اور کاروبار کو عارضی اور وقتی فائدوں کے بجائے فی الحقیقت ایک ایسا پائیدار اور مستقل فائدہ ملے گا کہ وسطِ ایشیاء کی وسیع و عریض دنیا کی منڈیوں میں کشمیر کی صنعت اور پھل فروٹ کی بڑے شوق اور ذوق سے تجارت ہو سکے گی۔ کشمیر کے آر پار تجارت کے لیے جو بودا طریقہ کار وضع کیا ہے اس سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہ محض دنیا کو دھوکہ دینے کی چال ہے۔اگرچہ کشمیری مسلمان سرینگر راولپنڈی روڈ کھولنے کے لیے اپنی تمنائوں اور آرزوئوں کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن کشمیر کی آزادی کے بغیر ان کے خوابوں کی یہ تعبیر ہر گز نہیں جن کے خدو خال واضح ہیں۔2008میں ہی کشمیر کے نظریاتی طبقے نے اپنے اس موقف کابرملااظہارکردیاتھا کہ ایک سماجی ضرورت کی تکمیل اور انسانی المیے کے خاتمے کے نام پر بس سروس کا اجراء اورتجارت کشمیر کے مسئلے کو سیاسی طور پر تباہ کر دے گا۔ رفتہ رفتہ لوگ مسئلہ کشمیر کی بنیاد یعنی حق خود ارادیت سے غافل اور حق سفر کی بحالی کی بھول بھلیوں میں کھو کر رہ جائے گی اور ہندوستان یہی چاہتا ہے کہ مسئلے کی موجودہ شدت کم ہو کر اس پر سماجی اور تجارتی خواہشات حاوی ہو جائیں اگر چہ ہم بھی سمر قند اور بخارا کی وسعتوں میں پرواز کرنے کی دلی آرزو رکھتے ہیں ۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے نظریاتی طبقے کایہی موقف سچ ثابت ہوا جن حالات میں راولپنڈی روڈ کھولی گئی اور جس منطق کے تحت یہ شاہراہ محدود پیمانے پر کھل گئی یہاں سے ثمر قند اور بخارا کیا راولپنڈی اور کراچی تک کشمیری مسلمانوں کی پرواز ممکن نہیں ہوسکی۔ اس میں کیا کلام ہے کہ سمر قند، بخارا اور ترکستان ہمارے آباء کا مسکن رہا ہے ہم انہیں چاہنے والے نہیں ہونگے تو پھر کون ہوگا۔؟شاہراہ مظفرآبادکیاخاک کھل گئی اورکشمیرکے آرپاررہنے بسنے والے بھائیوں کواس راستے سے کتنی منفعت پہنچی اس حقیقت کی پردہ کشائی اس امرسے ہوتی ہے کہ اب بھی سری نگرکے بجائے جموں ہی ریاست کی سب سے بڑی منڈی ہے اورکشمیرکی اقتصادیات کوجان بوجھ کی طرح اسی منڈی کے دست نگربنادیاگیا۔ ہندوستان کے کشمیرپر فوجی قبضے کی وجہ سے کشمیر کی ساری تجارت ،عبورومروراور نقل وحمل کی یہ واحد سبیل ہے۔ جس کی ہندو فرقہ پرست ویشواپریشدنے ناکہ بندی کی دھمکی دی ہے۔ہندوستان اورجموں کی یرقانی جماعتوںنے اس راستے کی ناکہ بندی کرنے کی جوتازہ دھمکی دی ہے اس دھمکی سے بلاشبہ کشمیر میں انسانی آبادی ایک بارپھر زبردست خطرات سے دوچار نظرآرہی ہے ۔صاف دکھائی دے رہاہے کہ خطہ کشمیرایک بارپھر اشیائے خوردونی اور ادویات کی قلت کا شکار ہوجائے گا۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ جب سے ریاست میں بی جے پی اورپی ڈی پی کی ملی جلی سرکار بنی ہے ریاست کے مسلمانوں کے خلاف سازشوںکا ایک جال بچھایا جارہا ہے اور انہیں ہر ممکن طریقے سے تنگ اور ہراساں کرنے کی کوششیں بروئے کار لائی جارہی ہیں۔بہرکیف!2008 کوجس طرح ہندئوںکے امرناتھ شرائن بورڈ کو آٹھ سو کنال اراضی کی منتقلی نے اضطراب کے خاموش آتش فشاںکو پھٹنے پر مجبور کیا اور یہ آتش فشاں مسلسل تین ماہ تک لاوااگلتا رہا۔آج ایک بارپھریہ آتش فشان لاوااگلنے کے لئے تیاربیٹھاہے ۔جموں کے ہندوفرقہ پرستوں نے کشمیرکی اقتصادی ناکہ بندی کردی تواس آتش فشان سے لاوااگل پڑیگا۔جس طرح 2008میںجموں کے ہندوفرقہ پرستوںکے کشمیری مسلمانوں کے خلاف اقتصادی ناکہ بندی کے شرمناک اورمذموم فیصلے نے حادثات اور واقعات کی ایک کڑی کو جنم دیا اور یوں حالات نے اسلامیانِ کشمیر کے زبردست احتجاج اور انکے مظاہروں نے کشمیر کی تحریک آزادی میں نئی جان ڈالی تھی جموں کے جنونی ہندو ترنگا اٹھائے میدان میں آگئے اور خار کھانے لگے یوںوادی اور جموں کے مابین فاصلوں کی دیوار مزید بلند ہوگئی،اس پس منظرکومدنظررکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ اگرویشواہندوپریشدنے اپنی دی ہوئی دھمکی پرعمل درآمدکیاتواس طرح کی صورتحال پیداہونے میں کوئی ابہام نہیں ہوناچاہئے ۔سچ یہ ہے کہ جموں کے ہندوفرقہ پرست اقتصادی ناکہ بندی کوکشمیری مسلمانوں کے خلاف اسی طرح جنگی ہتھیارکے طورپراستعمال کرناچاہتی ہیںکہ جس طرح اسرائیل اسے اہل غزہ کے خلاف استعمال کرتاہے۔خیال رہے کہ اسرائیل نے 2006 میں غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘کی منتخب حکومت کے قیام کے بعد انتقاما شہر کے تمام بری اور بحری راستے بند کر دیے تھے، جس کے باعث بیرون ملک سے کسی بھی قسم کے سامان کی ترسیل اور تجارت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔اس کے بعد سے اسرائیل غزہ کوسزادینے کے لئے اقتصادی ناکہ بندی کرتارہاہے ۔2014میں بھی اسرائیل نے اہل غزہ پر اقتصادی ناکہ بندی کردی تھی،اس دواران امدادی سامان لے کر غزہ آنے والے عالمی امدادی قافلے’’ فریڈم فلوٹیلا 1‘‘ جسکی قیادت ترکی کررہاتھاپر صہیونی کمانڈوز کے حملے کے بعد اسرائیل پر عالمی تنقید کے بعد صہیونی حکومت نے شہر کی معاشی ناکہ بندی میں نرمی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم عملا آج تک یہ ناکہ بندی جاری ہے۔معاشی ناکہ بندی اور زمینی راستوں کی بندش کے باعث غزہ کا محکمہ صحت بری طرح متاثر ہے۔ محکمہ صحت کے پاس مریضوںکے لیے ادویہ ناکافی ہے۔ جنگوں اوراقتصادی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ کا معاشرہ اور معیشت پوری طرح سے بکھر گئی ہے اور معیشت کے انہدام سے غزہ اب رہائش کے قابل نہیں رہا ہے۔ اقتصادی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ کی پوری عوام مفلسی اور محرومی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوئی ہے ۔عالمی رپورٹوں کے مطابق اگرغزہ میں موجودہ اقتصادی رحجانات جاری ر ہے تو پانچ چھ سال کے اندر اندر غزہ پوری طرح سے ناقابل رہائش علاقہ بن سکتا ہے ۔

نوٹ :مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں۔ادارہ کسی طرح کی مسئولیت کا ذمہ دار نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *