’’زندگی میں سنت نبویﷺ کا اہتمام بیماریوں سے دور رکھتا ہے‘‘

 ڈاکٹر امام الدین اندرے (فوٹو: معیشت ڈاٹ اِن)
ڈاکٹر امام الدین اندرے (فوٹو: معیشت ڈاٹ اِن)

پرنس علی خان ،مسینہ ، وکہارڈ اوربرج کینڈی اسپتال میں خدمات پیش کرنے والے ڈاکٹر امام الدین اندرے سے آرزو شوکت علی کی ملاقات

ممبئی کے مشہور ناگپاڑہ جنکشن سے ایک مصروف شاہراہ جسے عرف عام میں صوفیہ زبیرروڈکہا جاتا ہے۔ وہاںگاڑیوں کی لمبی قطار اکثر ڈرائیوروں کو کچھ وقت کا آرام عطا کرتی ہے۔جے جے فلائی اور کی طرف جانے والی گاڑیاں کچھ پل کے لیے مذکورہ سڑک پر سرخ سگنل کے ختم ہونے کا انتظار کرتی ہیں اور پھر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوجاتی ہیںلیکن اس تھوڑے سے وقفے میںانہیں جو سکون میسر آتا ہے ڈرائیور اسے بہت دیر تک محسوس کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی شاہراہ پرواقع عائشہ بائی چیمبرمیں انتہائی خاموشی کے ساتھ اپنا فریضہ ادا کرنے والے ڈاکٹر امام الدین اندرے بھی لوگوں کی زندگیوں میںایسا سکون بھرتے ہیں کہ مریض اپنی مخصوص دعائوں میں انہیں طویل عرصے تک یاد رکھتا ہے۔
خطہ کوکن میں شری وردھن تعلقہ کے چھوٹے سے گائوں ،سائیگائوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر امام الدین اندرے کا شمار ممبئی کے کامیاب سرجن میں ہوتا ہے۔ ابتدائی تعلیم اردو میڈیم اسکولوں میں ہوئی لیکن شعبہ طب و جراحت میں انہوں نے ممتاز مقام حاصل کیا ہے ۔تقریباً بیس برسوں سے شعبہ طب و جراحت میں اپنی خدمات انجام دینے والے ڈاکٹرامام الدین اندرے نے ہزاروں آپریشنس کیے ہیں اورالحمدلللہ لوگوں کو شفاء حاصل ہوا ہے۔ممبئی کے مشہورپرنس علی خان ،مسینہ ،وکہارڈ،برج کینڈی اسپتال کےساتھ وہ اپنا ذاتی سر جیکل کلینک بھی مذکورہ مقام (صوفیہ زبیر روڈ) پر چلاتے ہیں جہاں شام پانچ بجے سے گیارہ بجے رات تک ان سے ملاقات ہو سکتی ہےلیکن بہتر یہ ہے کہ ملاقات کے لیے لوگ ان کے موبائل 9820075460 پر رابطہ کر کے جائیں تو انہیں بآسانی ملاقات کا وقت مل سکتا ہے۔ دراصل ڈاکٹر امام الدین اندرے محض پیسہ کمانے کے لیے اس پیشہ سے وابستہ نہیں ہوئے بلکہ فریضہ انسانیت کے ساتھ خدمت خلق کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ایک ملاقات میں وہ کہتے ہیں’’دراصل شفاء کا تعلق تقویٰ سے ہے اور میں اپنے تقویٰ کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہوں،لہذا جب خوف خدا کے ساتھ علاج کرتا ہوں تو اللہ رب العزت بہتری عطا فرماتا ہے،لہذامیں دوسروں سے بھی یہ کہتا ہوں کہ وہ تقویٰ کا دامن نہ چھوڑیں ،ان شاء اللہ خدا وند قدوس شفاء عطا کرے گا‘‘ ۔
ڈاکٹرامام الدین اندے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے دوسروں کی طرح محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر مریضوں کا علاج نہیں کیا بلکہ اپنے پیشہ کو جدید ٹکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔وہ کہتے ہیں’’ یقینا ماضی کے مقابلے آج میڈیکل فیلڈ میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے، موجودہ دور میں نہ صرف علاج بہتر ہوا ہے بلکہ لوگوں کو آسانیاں بھی میسر آئی ہیں ۔Advance Technologyکی وجہ سے سرجری میں کافی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔Laproscopicسرجری اب بآسانی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے خاص طور سے Appendix کے لئے نئی ترکیب Button Hole Surgery )بٹن ہول سرجری کا آغاز کیا ہے جس سے لوگوں کا ایک ہی Holeمیں اور ایک ہی ٹاکے میں آپریشن ہو جاتا ہے ۔کم خرچ اور آسانی کی وجہ سے مریض بھی مطمئن رہتا ہے‘‘۔
اس وقت جبکہ میڈیکل فیلڈ میں مرد و خواتین کا اختلاط عام بات ہے جبکہ مسلم خواتین پردے کی وجہ سے علاج معالجہ میں بھی گھبراتی ہیں ڈاکٹر امام الدین اندرے اس ضمن میں بھی مثبت سوچ رکھتے ہیں،ڈاکٹر امام الدین اندرے کے مطابق’’جب کسی خاتون مریض کا آپریشن کرنا ہوتا ہے توکوشش اس بات کی کی جاتی ہے کہ جسم کے انہیں مقام سے کپڑا ہٹایا جائے جوآپریشن کے وقت کی ضرورت ہو،جبکہ پینٹ اور کیتھرائیزیشن کا کام نرسیز کرتی ہیں اس دوران بذات خود نہ میں وہاں موجود رہتاہوں اور نہ کسی مرد کو داخلے کی اجازت دیتاہوں،اس طرح شریعت کا لحاظ بھی ہوتا ہے اور مریض کا علاج بھی‘‘۔
ایک دوسری حقیقت جو ڈاکٹر امام الدین اندرے کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے وہ اپنے مریض کو علاج کے ساتھ ہی مختلف جگہوں پر ڈسکائونٹ دلوانے کا معاملہ ہے۔ڈاکٹر اندرے کہتے ہیں’’آج کل تحقیق و تفتیش میں کافی اخراجات ہوتےہیں۔میرے پاس اکثر غریب یا متوسط درجات کے لوگ آتے ہیں لہذا پیتھالوجی ،سٹی اسکین،ایکسرے،ایم آر آئی وغیرہ میں لوگوں کا کافی خرچ ہوتا ہے۔ میں اپنے مریضوں کو ان تمام ٹیسٹ پر ۵۰فیصد کی چھوٹ دلواتا ہوں جسکی وجہ سے اگر کوئی میرے یہاں علاج کرواتا ہے تو دوسرے مقامات کے بالمقابل اس کا بل نصف کے قریب ہوتا ہے‘‘۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ڈاکٹر امام الدین اندرے کے یہاں کفایت شعاری،غرباء و مساکین کی غمگساری کے ساتھ لللہ فی اللہ کا معاملہ بدرجہ اَتم موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے کی ایک بڑی تعداد ان سے مستفید ہورہی ہے ۔ان کےدینی خیالات کے ساتھ عملی اقدام ،ان کی سعی و جہد کو مہمیز دینے کا کام کرتے ہیں۔ڈاکٹر امام الدین اندرے کہتے ہیں’’آج کل لوگوں کا رجحان محض پیسہ کمانا ہےاگر یہ فکر حرز جاں بن جائے کہ دنیا کے بعد آخرت ہے اور تمام لوگوں کو مرنے کے بعد حساب دینا ہے تو بہت سارے معاملات خود بخود حل ہوجائیں گے۔اگر ہم اپنی زندگی نبی پاک ﷺ کے طور طریقے کے مطابق گذاریں تو یہ بابرکت بھی ہے اور عبادت بھی،اور یہی آخرت میں کامیابی کا نسخہ بھی۔ لہذا میں نوجوان ڈاکٹروں کو مشورہ دیتا ہوں کہ صوم و صلوۃ کی پابندی کرتے ہوئے اپنی پریکٹس کریںاور خوف خدا کے ساتھ ہر قدم کو پھونک پھونک کر رکھیںتو ان شاء اللہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی نصیب ہوگی۔‘‘
موجودہ دور کی خرابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اور نئی نسل کو نشہ آور چیزوں سے بچنے کا مشورہ دیتے ہوئے اندرے کہتے ہیں’’ایم ڈی،شراب،گٹکا،سگریٹ وغیرہ کیسنر جیسی موذی مرض کا سبب ہیں لہذا لوگوں کو چاہئے کہ وہ ان چیزوں سے بچیں اور اپنے معاشرے کوبھی بچائیں‘‘۔
نبی پاک ﷺ کی سنت کو سائنٹفک قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر امام الدین اندرے کہتے ہیں’’جب ہم پیشاب کے بعد استنجا لیتے ہیں (پانی سے صفائی کرنا)تو یہ بات ذہن میں رہے کہ پروٹین کا آخری پروڈکٹ یوریا اور یورک ایسڈ گردوں میں فلٹر ہو کر پانی کے ساتھ پیشاب بناتا ہےاور وہ باہر آتا ہے۔اب یہ یوریا اور یورک ایسڈ فرٹلائزر کا کام کرتا ہےاس کو اگر جلد پر دس منٹ کے لیے رکھیں اور تھوڑا پانی ملائیں تو وہ جلنا شروع ہوجائے گا،اسی طرح اگر پیشاب ہمارے اعضاء پر گرتا رہے اور ہم اسے صاف نہ کریں تو یہ ناسور بنے گاجس سے چھٹکارہ کے لیے سنت کا اہتمام ضروری ہے۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی و موت کا معاملہ اللہ رب العزت کے ہاتھ ہے اگر وہ چاہے تو افعیٰ کا زہر بھی کام نہ آئے اور چاہے تو زنبور کا کاٹا بھی مر جائے،ایسے میں کچھ ہاتھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں شفاء کے لیے منتخب کیا جاتا ہے اور یہ کہنا بے بضاعتی کا باعث نہیں ہوگا کہ الحمد لللہ ڈاکٹر امام الدین اندرے کے ہاتھ میں اللہ رب العزت نے شفاء دیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *