سونے کی چڑیا اور کولمبس! باشعورقومیں اپنے زمانے اورعلاقے خود ڈھونڈھ لیتی ہیں

مغلوں کی تعمیر  نشاط باغ جس نے  جنت نظیر کشمیر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیا
مغلوں کی تعمیر نشاط باغ جس نے جنت نظیر کشمیر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیا

عمرفراہی

ایک زمانے میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا- کولمبس نے پندرہویں صدی عیسوی میں اسی چڑیا کی تلاش میں اپنی کشتی کے رخ کو ہندوستان کی طرف موڑ دیا اور بھٹکتے ہوےُ امریکہ کے ساحل پر جا پہنچا – تاریخ میں آتا ہے کہ جب کولمبس اور اس کے ساتھی اس ملک میں داخل ہوےُ تو وہاں کے لوگ سونے کے ٹکڑوں سے کھیل رہے تھے- کولمبس نے انہیں بہت سارا کھانے کا سامان دیا اور بدلے میں کںُی ٹن سونا لے کر واپس لوٹا-اس کا مطلب ہندوستانی تہذیب امریکہ سے کںُی سو گناہ زیادہ قدیم اور ترقی یافتہ ہے – اس کے باوجود ہم امریکہ سے ایک ہزار سال پیچھے ہیں اور آذادی کے بعد سے مسلسل زوال پذیر ہیں تو کیوں ؟ اس کا بھی جواب آپ کو اسی مضمون میں مل جائے گا کہ ہندوستان  جس وقت سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اس وقت  یہاں پر مغلوں کی حکومت تھی اور انہوں نے نہ صرف انفرادی اور قبائلی زندگی بسر کرنے والی منتشر قوموں کو متحد اور منضبط کیا بلکہ اس پورےخطے میں عدل و انصاف اور مذہبی رواداری کی فضا قاںُم کرتے ہوئے مختلف فلاح وبہبود کے کام کے ساتھ  ہندوستانی معاشرے کو تہذیب و اخلاق کے ایک نئے رنگ میں ڈھال دیا -ان کی تعمیر کی ہوئی خوبصورت عمارتیں آج بھی پوری دنیا میں تعمیراتی علوم اور امور پر تجربہ کرنے والے آرکیٹیکٹ اور سول انجینئرنگ کے طالب علموں کیلئے یونیورسٹی اور تجربہ گاہ کا درجہ رکھتی ہیں اور دنیا یہ دیکھ کر حیران ہے کہ آخر ایک ایسے دور میں  جبکہ نہ تو اس وقت جدید ٹکنالوجی تھی اور نہ ہی مسلمانوں میں جدید تعلیم کے میر کارواں سرسید احمد  اورعلی گڈھ تحریک کا وجود ہی تھا، تاج محل اور لال قلعہ جیسی خوبصورت عمارتوں کی  تعمیر کیسے ممکن ہو سکیں-

انگریز حکمرانوں کی اخلاقی غیرت اور فراخ دلی کو سلام کیا جانا چاہیے کہ جس طرح سے انہوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اگر وہ چاہتے تو مسلمانوں کی دشمنی میں  ان عمارتوں کو بھی اسی طرح بارود کا ڈھیر لگا کر نیست و نابود کر  دیتے جیسا کہ 6 دسمبر 1992 میں ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں پانچ سو سالہ پرانی عمارت  بابری مسجد  شہید ہو گئی – مگر انہوں نے  ان تاریخی عمارتوں کو آثارقدیمہ کے طور پررجسٹرڈ کر کے  ہمیشہ کیلئے  محفوظ کردیا -بعد میں  انگریزوں نے پورے ملک میں خود بھی اہم سرکاری عمارتیں تعمیر کیں اور ہر طرف جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ریلوے لائنوں کا جال بچھا دیا اور سونے کی چڑیا ہندوستان کی شان و شوکت جوں کا توں برقرار رہی – اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اس پورے دور کو غلامی کا دور کہتے ہیں اور ہر سال جشن آذادی بھی  مناتے ہیں- ہم یہ جشن  کیوں مناتے ہیں اور اس آذادی سے ہمیں کیا حاصل ہوا اس کا بھی جواب ہمارے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ یہ ہماری آستھا ہے اور ہم اپنی اس خوبصورت دیوی آستھا  کے آگے ہرروز کسی نہ کسی پنسارے ، دابھولکر اور اخلاق کے خون کا بلیدان پیش کرتے رہتے  ہیں – جبکہ سچائی یہ ہے کہ ہندوستان آذادی سے پہلے جتنا آذاد , خودمختار , خودکفیل اور ترقی یافتہ تھا  آذادی کے بعد کبھی نہیں رہا بلکہ آذادی کے بعد ہمارے نااہل اور بدعنوان سیاستدانوں نے سونے کی اس چڑیا کو ورلڈ  بینک میں گروی رکھ دیا ہے اور یہ چڑیا ایک بار پھر کسی کولمبس کے انتظار میں ہے-
ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی ابھی تک دنیا کے چوبیس ملکوں کا سفر کر چکے ہیں اور سرمایہ داروں کو دعوت بھی دی ہے کہ وہ ہندوستان میں اپنی تجارت کو فروغ دیں مگر ابھی تک دنیا کے کسی کولمبس نے اپنے جہاز کا رخ ہندوستان کی طرف نہیں موڑا ہے – محترم مودی جی کو کون سمجھائے کہ جو قومیں باشعور بیدار اور مہذب ہوتی ہیں وہ اپنے زمانے اور علاقے خود ڈھونڈھ لیتی ہیں- دراصل اگر ہمارے اندر مغلوں اورانگریزوں کی طرح حکمرانی اور سیاست کا سلیقہ اور شعور ہوتا تو کولمبس خود ہماری تلاش میں ہوتے اور ہم خود ایک امریکہ دریافت کر لیتے – اسی تناظر میں  ہندوستان کی آذادی کے دوران برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل نے ایک بہت ہی دلچسپ بات کہی تھی کہ ہم جن لوگوں کو آذادی سونپ رہے ہیں یہ بدمعاش اور بے غیرت قسم کے لوگ ہیں جو حکومت میں آتے ہی  قدرت کی طرف سے مفت فراہم ہونے والی نعمت ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس لگا دیں گے -اب تقریباً 68 سال بعد ملک میں بھکمری فاقہ کشی قتل وغارت گری اور افراتفری کا جو ماحول ہے ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ عام آدمی کا سانس لینا کتنا دوبھر ہوچکا ہے – آذادی کے 68 سالہ تجربے اور اور چرچل کی پیشنگوئی سے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں رہا کہ آج ہم تہذیب واخلاق اور ترقی کے کس مقام پر ہیں اور آذادی کے بعد سے ہی جو حرکتیں ہمارے سیاستداں کر رہے ہیں دنیا کے سامنے ہماری شبیہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ ہمیں گوالوں اور  سپیروں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے-اس بات کی تصدیق ہمارے اس  کردار سے بھی ہوتی ہے کہ آذادی کے بعد آج تک ہم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے دنیا کے سامنے ہماری کوئی جدید انفرادی شناخت قائم ہو سکے- اس کے برعکس  یورپ کے سفید فام باشندوں نے صرف تین سو سالوں میں امریکہ کو دنیا کے تیسرے سپر پاور ملک میں تبدیل کر دیا – اور صرف یورپ ہی نہیں ناسا میں کام کرنے والے تمام سائنسدانوں میں ایک تہائی تعداد  ہندوستانی سائنسدانوں کی   بھی ہے- سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے سائنسداں اور دانشور جس میں کہ ایک نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیہ سین بھی شامل ہیں اتنے باصلاحیت اور ہنرمند ہیں تو خود اپنے ہی ملک کو سپر پاور کیوں نہیں بنا سکے اور دیگر ممالک میں نوکری اور مزدوری کیوں کر رہے ہیں-  غور کرنے کا مقام یہ بھی ہے کہ  1917 میں  جس ملک کی معیشت امریکہ سے سترہ گنا زیادہ تھی 1947میں گھٹ کر تین گنے پر کیسے آگئی-اوراب آذادی کے بعد تو ترسٹھ گنا کم ہو چکی ہے – اس کا مطلب چرچل کی بات درست تھی اور آذادی کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آیا یہ لوگ حقیقتاً نالائق اور نا اہل تھے اوران کے اندرسیاسی شعور کی کمی تھی مگر سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں اس وقت ان سے اعلٰی اور افضل کوئی جماعت بھی تو نہیں تھی – یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چرچل ہی پاگل تھا جس نے ہمارے قابل احترام مجاہدین آذادی کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے – لیکن پچھلے 68 سالوں سے جس طرح  ہمارا ملک  پستی اور زوال کی طرف مائل ہے کچھ تو ایسی بات ضرور ہے کہ تین ہزارسال پرانی ہندوستانی تہذیب تین سو سالہ امریکی تہذیب سے کئ گنا پیچھے کی سمت چلی گئ اور امریکہ جسے غنڈوں موالیوں اور اسمگلروں کا ملک کہا جاتا تھا اس کا صدر رشیوں اور منیوں اور ویویکا نند کے دیش جہاں  پروشوتم رام نے ایک مثالی حکومت کی بنیاد رکھی تھی اسے اپدیش دے کر چلا جاتا ہے- شاید اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے لوگوں میں سے رام کی مریادہ ختم ہو چکی ہے – یعنی دوسروں کی عزت و آبرو کا احترام اور قوت برداشت کی جو خاصیت اور صلاحیت رام میں تھی اور جنھوں نے اپنی چہیتی بیوی  سیتا پر لگائے گئے ایک عام آدمی کے الزام کو پرکھنے کیلئے اگنی پریکشا سے گذار دیا تھا  آریوں کی موجوہ نسل جو کبھی اپنی اسی خصوصیت کی وجہ سے حکمراں رہی ہے جب اونچ نیچ ذات پات اور شرک و بدعات جیسی برائیوں میں مبتلا ہوئی تو دوبارہ مسلمانوں سے مغلوب ہو گئ-یورپ میں اہل  کلیسا بھی اپنی اسی بد عقیدگی کی وجہ سے مسلمان سپہ سالاروں کے مقابلے میں شکست کھاتے چلے گیُے تھے مگر جب اسی یورپ نے اپنے آپ کو حقیقت کے سانچے میں ڈھالا تو خود ان مسلمانوں پر بھی غالب آگئے جنھوں نے عمل کی بجائے نصیب کو اپنا نصب العین بنا لیا تھا – اقبال نے اسی تناظر میں برہمنوں اور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوےُ کہا کہ
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ مہراب
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مملکتیں قوموں کو نہیں پیدا کرتی ہیں قومیں مملکتوں اور سلطنتوں کو پروان چڑھاتی ہیں اور قوموں کی سب سے بڑی طاقت ان کا اخلاق ہوتا ہے اور اخلاق یہ ہے کہ اس کے اندر دوسروں کو برداشت کرنے کی طاقت ہو – شاید یہی وہ اخلاق کی طاقت ہے جسے جب کوئی قوم یا جماعت کھو دیتی ہے تو اس کے اندر سے قیادت اور حکومت کی صلاحیت بھی ختم ہو جاتی ہے – پھر بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آریوں سے لیکر مسلمانوں اور انگریزوں کی حکومت تک ہندوستان میں اخلاقی زوال کی صورتحال اتنی خستہ نہیں تھی جو ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ فسادات میں ایک قوم اور مذہب کے نہتے لوگوں کو حکومت کی پولس خود  گاڑی میں بھر کر لے جاتی ہے اور انہیں ایک سنسان علاقے میں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور قاتل کچھ دنوں کے بعد با عزت بری بھی ہو جاتے ہیں- بدقسمتی سے یہ سارا کھیل حکومت اور اقتدار پر بیٹھے ہوئے سیاست دانوں کی مرضی اور ملی بھگت سے ہوتا ہے -اور ابھی حال ہی میں اخلاق کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اور باقاعدہ مندر کے لاوُڈ اسپیکر سے اعلان کرواکر جس طرح قتل کیا گیا دنیا کے کسی مہذب سماج میں ایسی مثال کہیں نہیں ملتی- حد تو یہ ہے کہ ملک کا وزیر اعظم مقتول کے وارثین کی دلجوئی میں ایک لفظ بھی نہیں ادا کرسکا- سوال یہ ہے کہ کیا اسی دن کیلئے ہم نے آذادی حاصل کی تھی- اور کیا اس طرح ہم ایک مہذب اور ترقی یافتہ ملک کے طورپر دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لائق بھی ہیں؟ اور کیا کبھی ہم فرصت میں بیٹھ کرغوربھی کرتے ہیں کہ دنیا کی سب سے قدیم تہذیب اور سماج  کی نمائندگی کرنےوالے ملک کی شبیہ اس قدرزوال کی طرف کیوں مائل ہے اور محض تین سو سالوں پر محیط امریکی تہذیب وتمدن اور ٹکنالوجی کو عروج کا درجہ کیسے  حاصل ہوا؟ اگر ہم حقیقت میں یہ جاننے کیلئے سنجیدہ ہیں تو حال کے ایک معمولی واقعے کو ہی دیکھ لیں کہ کس طرح امریکہ کی پولس ایک احمد نام کے مسلمان بچے کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتار کر لیتی ہے اوراس کے بچائو میں امریکہ کا صدر بھی حرکت میں آجاتا ہے بلکہ آنے والے الیکشن میں امریکی صدارت کی امیدوار ہلری کلنٹن نے بھی یہ سوچے بغیر کہ گوروں کی اکثریت میں اس کا منفی پیغام جاسکتا ہے احمد کے حق میں بیان دینے کی جرات کی – مگر آذادی کے بعد سے لیکر آج تک ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو قیامت گذری کیا کبھی کسی سیاسی پارٹی کے سربراہ, ملک کے وزیر اعظم یا صدر نے مسلمانوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کی جرات کی؟ دراصل  جب کوئی قوم تنگ نظری اور بخیلی کا شکار ہوتی ہے تو اس کا نقصان سب سے پہلے خود اسی کو بھگتنا پڑتا ہے – یہ بخیلی اور تنگ نظری چاہے کسی دوسری قوم کے ساتھ عصبیت اورناانصافی کی شکل میں ہو یا اپنے علم اور فن کو چھپا کر دیگر قوموں کی ترقی میں اڑچن پیدا کرنے کی غرض سے ہی کی جائے- خاص طور سے اقتدار پر قابض جب کوئی قوم اپنے ہی ملک میں دیگر مذہب اور گروہ کے ساتھ عصبیت او ناانصافی کا مظاہرہ کرے تو وہ ملک دنیا کے نقشے پر کبھی بھی اپنا مقام نہیں بنا سکتا

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *