” بچین میں ایک رشتے دار نے مجھے ہوس کا نشانہ بنایاتھا”

برکھا دت اپنی حالیہ ریلیز ہوئی کتاب کے ساتھ
برکھا دت اپنی حالیہ ریلیز ہوئی کتاب کے ساتھ

معروف صحافی اور این ڈی اے ٹی وی کی اینکر وکنسلٹنگ ایڈیٹر برکھا دت کی اپنی حالیہ ریلیز کتاب میں انکشاف
معیشت ڈاٹ اِن و ایجنسیاں
نئی دہلی (معیشت نیوز)اکثر و بیشتر شاہ سرخیوں میں رہنے والی معروف صحافی اور این ڈی اے ٹی وی کی اینکر کنسلٹنگ ایڈیٹر برکھا دت نے اپنے بچپن میں ہونے والی جنسی زیادتی کے ایک واقعہ کا بلا جھجک اظہارکرکے جہاں دوبارہ خبروں میں ہیں وہیںہندو انتہا پسندوں کے معاشرے میںشجر ممنوعہ پر بات کرنے پر ان کی بے باکی کو سراہنے کے ساتھ تنقید کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔یاد رہے برکھا دت نے حال ہی میں ایک خبر میں دعوی کیا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے نریندر مودی سے کھٹمنڈو میں خفیہ ملاقات کی تھی۔اس خبر کی وجہ سے پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج کے درمیان تناؤ پیدا ہو گیا تھا جبکہ نواز شریف کے سیاسی مخالفین ان کی متذکرہ ملاقات کی دوٹوک تردید کے باوجود انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
برکھا دت کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن میں اُن کے ایک دور کے معمر رشتے دار نے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔ برکھا نے اپنے اُس رشتے دار کو ایک وحشی درندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُس شخص نے اُنہیں جذباتی اور ذہنی ہیجان سے دو چار کیا ہے۔ اپنے ان جذبات کو وہ کراہت، بیزاری اور غُصے سے تعبیر کرتی ہیں۔
“میں نے آخر کار اپنی ماں کو بتایا کہ میرے ساتھ بہت ہی وحشت ناک واقعہ ہوا ہے‘‘۔ دت نے اپنی نئی کتاب “This Uniquiet Land” میں بچپن میں اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ اس کتاب کے اقتباسات این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر شائع ہوئے ہیں۔
برکھا دت تحریر کرتی ہیں، ’’میرا حملہ آور فوری طور سے۔ میرے گھر سے نکال باہر کیا گیا اور میں نے اُن کراہت آمیز، وحشتناک لمحوں کو اپنی یادوں کی گہرائی میں کہیں چھپا لیا۔ میری دُعا ہے کہ اُس تاریک جگہ پر مجھے کبھی دوبارہ نہیں جانا ہو۔‘‘
واضح رہے کہ ہندو معاشرے میں جنسی زیادتی عام بات ہوچکی ہے۔چھوٹی عمر کی لڑکیوں کی شادی ہو یا پھر گھر کے افراد کاگھریلو خاتون کو ہی جنسی زیادتی کا شکار بنانا اب ’’کرائم پٹرول‘‘جیسے سیرئل کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ برکھادت کایہ کہنا ہے کہ اُن کا یہ بھیانک تجربہ ہندوستانی معاشرے میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ انہوں نے 2007 ء میں حکومت کی طرف سے کروائے جانے والے اُس سروے کا حوالہ دیا جس میں شامل کیے جانے والے تمام بچوں میں سے نصف نے یہی کہا کہ انہیں کسی نا کسی طریقے سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ برکھادت کے بقول بہت سوں نے شرم کے مارے خاموشی احتیار کی جس کے سبب اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو دندناتے پھرنے کا موقع مل گیا۔
واضح رہے کہ 2002 ء میں نئی دہلی میں ایک طالبہ کے گینگ ریپ کے واقعے کے بعد سے ہندوستان کودنیا بھر سے شدید تنقید کا سامنارہا ہے۔ گینگ ریپ کےاُس واقعے میں طالبہ ہلاک ہو گئی تھی۔ تب سے اندرون ملک اور دنیا بھر میں ملک میں خواتین کے خلاف ہونے والے خونریز تشدد اور جنسی زیادتیوں کی انتہا پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور نئی دہلی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس کے خلاف سخت اور موثر اقدامات کرے۔حال ہی میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی لیکن کسی نے اس کے خلاف زبان تک نہیں کھولی کیونکہ زیادتی کرنے والوں کا تعلق ہندوئوں کی انتہا پسند جماعت سے تھا۔
البتہ برکھا دت کو سوشل میڈیا نیٹ ورک ٹوئٹر پر اُن کے مداحوں کی طرف سے اُن کی بےباکی پر بہت زیادہ تعریفوں سے نوازا جا رہا ہے۔ زیادہ تر کا کہنا ہے کہ دت کا یہ اقدام نہایت جراتمندانہ ہے۔ ایک ایسے قدامت پسند معاشرے میں اس موضوع پر بات کرنا ہی بہت سے افراد کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک ٹوئٹ میں برکھا دت کے اقدام کو یوں سراہا گیا ہے،’’ اپنے تجربات کے بارے میں قلم اُٹھانے کا شکریہ۔ یہ دیگر متاثرین کو ایسی زیادتیوں کے خلاف کچھ کرنے کی راہ میں مددگار ثابت ہوگا۔‘‘
برکھا دت حقوق نسواں کے لیے آواز بلند کرنے والی ایک شعلہ بیان سرگرم کارکن بھی ہیں۔ انہوں نے 1990 ء میں یونیورسٹی میں اپنے ایک ساتھی طالبعلم کےہاتھوں اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی تفصیلات بھی عام کی ہیں۔ اُس طالبعلم نے انہیں ریپ کرنے کی کوشش کی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *