جلیکت شیوا ڑ مہم وقت کی اہم ضرورت

                                                                              water glass

محمد سراج

آج  مہاراشٹر کے کئی علاقے شدید خشک سالی کا شکار  ہیں – جس میں مراٹھواڑا کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر بتایا  جا رہا ہے-یہ مراٹھواڑا میں خشک سالی کا مسلسل  تیسرا  سال ہے- حالات انتہائی خراب ہیں-ندی،نہر، نالے و تالاب سب خشک  ہو  گئے ہیں- ریاست کےتمام بڑے ڈیموں میں اس وقت پانی کی سطح گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے کم ہے- مراٹھواڑا میں 11 بڑے ڈیموں میں سے  چھ تقریباً  زیرو  سطح کے قریب ہیں-  ریاست میں کل43000 گاؤں میں سے  آدھے سے زیادہ گاؤں  خشک سالی سے متاثرہ قرار دے دئیے گئے ہیں- ریاست میں پانی کو لے کر عجب صورتحال بنی ہوئی ہے- غور طلب ہے کہ، ریاست میں پانی کے ٹینکروں کو لوٹے    جانے کے واقعات رونما ہونے کے بعد ریاست میں پانی کو لے کر خونی  جدوجہد کے خدشہ کا بھی اندیشہ   ہے اور  اس صورتحال سےنپٹنے کے لئے  ریاست میں انتظامیہ کی طرف سے لاتور  ضلع میں دفعہ 144 نافذ  کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے- اس انتظامی اقدام کے بعد اب پانی کے ٹینکروں کے ساتھ ساتھ تمام پانی کے ذرائع کے قریب ایک ساتھ پانچ سے زیادہ لوگ جمع نہیں ہو سکتے ہیں- غور  طلب ہے کہ خشک سالی کے سبب متاثرہ علاقے کی زراعت اور وہاں کے ماحول پر نہایت منفی اثر پڑتا  صاف طور  پر نظر آ رہا  ہے-

اس خشک سالی نے سماج میں آپسی رشتوں کو بھی  متاثر کیا ہے –  لوگ ایک دوسرے کو  پانی پلانے میں بھی  آنا کانی کرتے نظر آتے ہیں-عوام  اخلاقی اقدار فراموش کر چکے ہیں، بس لوگوں میں پانی جمع کرنے کی ہوڑلگی ہوئی ہے-ہسپتالوں میں صاف صفائی برقرار رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے؛ پانی کی قلت کے سبب ڈاکٹر مریض کا آپریشن نہیں کرپا  رہے ہیں-

ریاست میں خشک سالی کی اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ریاستی حکومت جليكت شوار منصوبہ لے کر آئی ہے- مہاراشٹر حکومت نے سال 2019 تک مہاراشٹر خشکسالی سے  آزاد ریاست بنانے کے لئے “جليكت شوار مہم” کا آغاز کیا ہے- اس کے تحت دریا، نالوں جیسے پانی کے ذرائع کو گہرا اور چوڑا، سیمنٹ اور مٹی کے روک ڈیموں کی تعمیر کرنے اور زراعتی تالاب کی کھدائی وغیرہ جیسے کام کئے جانے ہیں- اس منصوبہ میں ان علاقوں کو ترجیح دی جا رہی ہے جہاں  پانی کی قلت زیادہ ہے- ان میں بالخصوص وہ علاقے ہیں جہاں کسان سب سے زیادہ خودکشی  کر رہے ہیں-

جلیکت شیوا ڑ مہم  دیہی کمیونٹی کو درپیش پانی کی کمی مسئلہ کے لئے طویل مدتی اور پائیدار حل فراہم کرنے کے لئے مہاراشٹر حکومت کی ایک پرچم بردار پروگرام ہے- اس پروگرام کےذریعہ پینے اور آب پاشی دونوں کے پانی کے مطالبات کو حل کرنے کے لئے ایک منصوبہ بندی کی بنیاد پر تیار  کیا گیا ایک اہم پروگرام  ہے، جس سے لوگوں کو پانی کی قلّت سے نجات دلانے کی بات کی جا رہی ہے- اس پروگرام کو  تعلقہ کی سطح پر نافذ  کیا جانا  ہے اور ضلع کلیکٹرکی حیثیت  نوڈل افسر کی ہے – اس پروگرام کے مجموعی طور پر عمل درآمد  کے لئے سب ڈویژنل  آفیسر- زراعت (SDO-Agriculture) ذمّہ دار ہے-

دراصل حکومت نے اس مہم کے تحت ہر سال پانچ ہزار گاؤں  کو سبز بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے- غور طلب  بات یہ ہے کہ اس مہم میں بڑے پیمانے پر عوامی تعاون سرکار کو مل رہی  ہے- پانی کے تحفظ کے اس نیک  کام میں تجارتی گھرانوں سے لے کر غیر سرکاری تنظیم، مذہبی ٹرسٹ اور بالی وڈ کے مشہور اداکار بھی کڑوڑوں روپے کی  مالی  مدد لے کر سامنے آئے ہیں- اتنا ہی نہیں، مراٹھواڑا علاقے میں تو  عام آدمی  لاکھوں  روپے کی مالی مدد دے رہے ہیں- آج جہاں ایک طرف ریاست کے تمام خشکسالی  متاثر اضلاع میں تالاب، باوڑيو، پانی کا کنواں اور نالوں کودوبارہ  بحال کرنے کا کام کیا جا رہا ہے، تو وہیں دوسری طرف کئی گاؤں  میں نئے تالاب، پانی کا کنواں اور نالوں کی تعمیر بھی کئے جانے  کی بات کہی جا رہی ہے- ان کھدائی کا مقصد بارش کے وقت ان نالوں اور ڈیموں میں بارش کا پانی جمع کرنا  ہے، جس سے گاؤں اور کھیتوں میں زمینی  پانی کی سطح میں اضافہ ہو سکے-

اس منصوبہ کی نگرانی کے لئے ضلع سطح پر پالک وزراء کی صدارت میں ایک نگرانی کمیٹی بنائی گئی ہے-یہ پروگرام کاغذ پر تو بہت متاثر کن معلوم ہوتا ہے، لیکن اس پروگرام کے نفاذ پر نظر ڈالنے سے مایوسی ہوتی ہے-دراصل جس پروگرام کو سال 2019 تک خشک سالی سے آزاد کرانے کے لئے اہم منصوبہ بند پروگرام بتایا جا رہا ہے،اسکا نفاذ کچھوے کی چا ل سے ہو رہا ہے- مراٹھواڑہ علاقے میں  کل تین فیصد گاؤں میں ہی اس کام پر عمل دار آمد ہونے کی بات میڈیا کی سرخی بنتی رہی ہے- ایک رپورٹ کے مطابق اس علاقے میں مہم  کے آغاز کے بعد سے، ریاستی حکومت نے  1682 گاؤں  کے کام پرکل 592.48  کروڑ روپئے خرچ کر چکی ہے- اس کے علاوہ پانی کےگاد ہٹانے کے  کام پر عوامی شراکت سے 113 کروڑ روپے کی لاگت کے کام کرنے کی بات کہی گئی ہے-حالانکہ مہاراشٹر سرکار کا یہ حوصلہ افزا پروگرام روز  اول سے ہی متنا زع رہا ہے – کسی نے اسےایسے   پرانے اسکیم کو ری پیکج  کر کے پیش کرنے کا الزام عائد کیا ، جو کبھی کامیاب ہوا ہی نہیں تو کسی نے اسے  محض ایک سلوگن بتایا ،جسکی   کوئی سائنسی بنیاد ہی نہیں ہے

آج حکومت کے سامنے  ریاست  میں پینے کا پانی لوگوں کو دستیاب کرانا ایک چیلنج بن گیا ہے-واٹر ٹینکر کے ساتھ پولیس ہوتی ہے، لیکن صرف مراٹھواڑہ میں تقریباً 35   ملین لیٹر یومیہ شراب بنانے کی فیکٹریز میں پانی خرچ ہوتا ہے – اسکے علاوہ اس علاقے میں فارماسیو ٹیکلس ،ٹیکسٹائلز  و ڈسٹیلیریز  جیسی کئی زیادہ پانی  کی کھپت والی انڈسٹریز ہیں- دیکھنا یہ ہوگا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں سرکار کی ان انڈسٹریل یونٹس کے لئے کیا پالیسی ہے- جہاں تک  جليكت شوار منصوبہ کا سوال ہے، تو متاثرہ علاقوں سے آنے  والی خبریں بہت حوصلہ افزا نہیں ہے- لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی ضلع انتظامیہ صرف میٹنگز ہی کر رہی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو کام بھی شروع نہیں ہوا ہے-

معاملہ چاہے جو بھی ہو ریاست اس وقت زبردست خشک سالی کا شکار ہے اور اس وقت اس پروگرام کے   بلا تاخیر نفاذ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے- اسکے علاوہ اس پروگرام کی کامیابی کا انحصار سوشل آڈٹ اور عوامی نگرانی پر بہت حد تک  ہے، جس طرح عوام مالی امداد لے کر سامنے آئ ہے  ، اسی طرح اس پروگرام کی مانیٹرنگ میں عوامی شمولیت کو یقینی  بنایا جانا چاہئے-ایک اور اہم بات یہ ہے کہ خشک سالی اچانک رونماہونے والا کوئی طوفان نہیں ہے، اسے وقت رہتے محسوس کیا جا سکتا ہے- ایسے میں صاف طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہماری سرکار خشک سالی کی  قبل از وقت نہ تو   پیشن گوئی کر پائی اورنہ ہی وقت رہتے اس سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے  کی کوشش  کر پائی- کیا ریاست میں سائن ٹیفک انٹیلی جنس سسٹم موجود نہیں ہے جو ایسے قدرتی آفات کی پہلے ہی خبر دے  سکے-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *