جامعۃ الفلاح میں عائلی نظام پرمنعقدہ سیمینار میں قراردادیں منظور

جامعۃ الفلاح میں منعقدہ دو روزہ قومی سمینار کے افتتاحی اجلاس میں حاضرین کا منظر
جامعۃ الفلاح میں منعقدہ دو روزہ قومی سمینار کے افتتاحی اجلاس میں حاضرین کا منظر

دوروزہ سیمینار بہ عنوان ’’اسلام کا عائلی نظام -انسانیت کے لئے رحمت کا پیغام‘‘میں ملک بھر سے علماء کرام کی شرکت
بلریاگنج (اعظم گڈھ) اسلام کا عائلی نظام -انسانیت کے لئے رحمت کا پیغام کے موضوع پر دو روزہ سیمینار جامعۃ الفلاح میں ۵-۶؍نومبر ۲۰۱۶ء کو منعقد ہوا۔ جس میں پورے ملک سے تشریف لائے اہل علم نے موضوع کی مناسبت سے مقالے پیش کئے اور باہمی تبادلہ خیال کیا۔اسی دوران پروگرام کے آخری سیشن میں درج ذیل قراردادیں منظور کی گئیں:
۱- اسلام کا عائلی نظام مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ اس کی اساس توحید، آخرت اور رسالت کا عقیدہ ہے اور اس کا سرچشمہ قرا ٓن و سنت ہے۔ یہ قیامت تک انسانیت کے لئے رحمت کا پیغام ہے۔ وسیع پیمانے پر اس کا تعارف وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
۲- اسلام نے عورت کو بلند مقام عطا کیاہے اور ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے اسے عزت و تکریم بخشی ہے حقوق نسواں کے باب میں اسلام کا کارنامہ بہت نمایاں ہے اس پہلو کو لوگوں کے سامنے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
۳- ملت کے اندر اتباع شریعت کے حوالے سے بیداری پیدا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ مخلصانہ طور پر اسلام کے عائلی قوانین پر عمل پیرا ہو اور اپنے خاندان کو نمونے کا خاندان بنائے۔
۴- اسلام کے عائلی قوانین، شریعت اسلامی کا بہت اہم حصہ ہیں۔ ان میں مداخلت ناقابل برداشت ہے۔ یہ اللہ کی نازل کردہ شریعت ہے۔ جس میں ترمیم کی گنجائش نہیں۔
۵- تین طلاق اگر چہ ناپسندیدہ ہے تاہم اگر کوئی ایک ساتھ تین طلاق دیتا ہے تو اس کا وقوع ہوگا۔ البتہ تین طلاق واقع ہوں گی یا ایک، دونوں فقہی رائیں موجود ہیں۔لیکن اس کو سرے سے خلاف قانون قرار دینے کی جسارت اگر کوئی کرے گا تو مسلمان اسے ہرگز برداشت نہ کریں گے۔ اسی کے ساتھ یہ تعلیم عام کرنے کی ضرورت ہے اگر طلاق کی نوبت آہی جائے تو ایک ہی پر اکتفا کرنا چاہئے۔
۶- طے شدہ منصوبے کے تحت حلالے کا عمل کرنا، فعل حرام ہے اورہرسطح پر اس کی ہمت شکنی ہونی چاہئے۔
۷- ایک ساتھ تین طلاق دینے والوںیا حلالہ کرنے والوں کے لئے تعزیر کی کوئی مناسب شکل اختیار کی جانی چاہئے۔
۸- تعدد ازدواج کی اجازت نص قرآنی سے ثابت ہے۔ اس پر قدغن لگانا شریعت میں مداخلت ہے۔
۹- ہندوستان جیسے تکثیری معاشرے میں یکساں سول کوڈ ناقابل عمل ہے۔ اس لئے اس کے بارے میں سوچنا ہی غلط ہے۔
۱۰- مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کیا جائے کہ اپنے عائلی نزاعات عدالتوں میں نہ لے جائیں۔ بلکہ شرعی پنچایت اور دارالقضاء کے ذریعہ حل کریں۔
۱۱- مسلم سماج میں سادگی کے ساتھ شادیوں کو رواج دیا جائے اور عورتوںکے ساتھ حسن سلوک کی فضا بنائی جائے۔
۱۲- مدارس کے ذریعہ اسلام کے نظام خاندان کے بارے میں عوامی بیداری پیدا کرنے کا اور اصلاح معاشرہ کا کام لیا جائے۔ معلمین و معلمات اور طلبہ و طالبات کو باقاعدہ مکلف کیا جائے کہ دروس ، تقاریر، خطبات اور کتابچوں کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کا کام کریں۔
۱۳۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کی زیر قیادت تحفظ شریعت کی مہم کو کامیاب بنایا جائے اور سب لوگ اس میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *