نوجوانوں کو نوکریاں فراہم نہیں کی گئیں تو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں:آدتیہ سری نواس

ڈاکٹر آدتیہ سری نواس خطاب کرتے ہوئےجبکہ دانش ریاض کو بھی دیکھا جا سکتا ہے (تصویر: معیشت)
ڈاکٹر آدتیہ سری نواس خطاب کرتے ہوئےجبکہ دانش ریاض کو بھی دیکھا جا سکتا ہے (تصویر: معیشت)

نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی (معیشت نیوز)ممبئی کے پریس کلب میں معیشت میڈیا کی جانب سے ’’عالمی معاشی اتھل پتھل کے ہندوستانی معیشت پر اثرات‘‘ پر اہم پروگرام،صحافیوں اور دانشوروں کی شرکت
ممبئی : ممبئی کے پریس کلب میں معیشت میڈیا کی جانب سے منعقدہ پروگرام ’’عالمی معاشی اتھل پتھل کے ہندوستانی معیشت پر اثرات‘‘کو خطاب کرتے ہوئے بامبے اسٹاک ایکسچینج بروکرس فورم کے سی او او وی آدتیہ سری نواس نے کہا کہ ’’ہندوستانی معیشت عالمی معاشی بحران کے درمیان بھی سبک روی کے ساتھ تیزی کی طرف گامزن ہے امریکی بمباری اور روس کے ذریعہ شام کی حمایت جبکہ دلائی لامہ کی ہندوستان تشریف آوری کے نام پر چین کا ہمارے ملک کو مورد الزام ٹھہرانا ،ان تمام صورتحال کے باوجود جہاں عالمی جی ڈی پی ۳فیصد ہے وہیں ہندوستان ۷ فیصد کے مقام پر کھڑا ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ چین کی جی ڈی پی ۶۔۵فیصد تک پہنچ چکی ہے لیکن اتر پردیش میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد اب ہندوستانی مارکیٹ میں بھی تیزی دیکھنے کو ملنے لگی ہے‘‘۔آدتیہ نے کہا کہ ’’دراصل عالمی اتھل پتھل کے درمیان ہندوستانی مارکیٹ سنہرا مقام رکھتا ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہاں بھی تمام چیزیں ٹھیک ٹھاک چل رہی ہیں بلکہ ریزرو بینک آف ابڈیا جس قرض کا سامنا کر رہا اس نے اسے ساٹھ سال پرانی یاد دلا دی ہے۔ ۱۹۵۴ میں بھی کریڈٹ گروتھ ۱۔۷ فیصد تھا جبکہ این پی اے حکومت کے ساتھ بینک کے لیے بھی سر درد بنا ہوا ہےاور حکومت اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا رہی ہے‘‘۔
انہوں نے ہندوستانی معیشت کے تین اہم قابل تذکرہ بنیادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’سب سے اول یہ کہ ہمارے ملک میں ۷۰ فیصد سے زائد آبادی ۳۵ سال سے کم عمر کی ہے۔جو اسے ترقی میں آگے لے جا سکتی ہے جبکہ چین ۳۷ سال امریکہ ۳۸ سال اور یوروپی یونین ۴۷ سال جبکہ جاپان کا ایوریج ۵۰ سال کا ہے۔جب ہمارے درمیان نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو اس سلسلے میں ہمیں خاص توجہ دینی چاہئے۔اسی طرح ہندوستانی پروڈکشن کے صارفین کی تعداد صرف ملک میں ۸۰ فیصد ہے جبکہ صرف ۲۰ فیصد ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ساتھ ہی ہندوستان میں سیونگ ریٹ ۳۱ فیصد ہے جبکہ عالمی طور پر ۲۴ فیصد قرار پایا ہے۔‘‘انہوںنے کہا کہ ’’لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ جابس فراہم کئے جائیں اور جی ڈی پی کو بہتر سے بہتر کی جائے کم از کم جو گروتھ ریٹ ہے وہ اپنے مقام پر بنا رہے اس کی کوشش کی جائے‘‘۔
معیشت کے منیجنگ ڈائرکٹر دانش ریاض نے اس موقع پر اقلیتوں کے معاشی مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری روایتی بزنس دھیرے دھیرے ختم ہوتی جارہی ہیں جبکہ حکومتی پالیسی بھی اثر انداز ہو رہی ہے اور اجتماعی طور پر ہم معاشی مسائل میں مبتلا ہو چکے ہیں لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بزنس کے نئے راستوں کو تلاشیں اور کیپیٹل مارکیٹ کے کاروبار کو سمجھیں‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *