اب آر ایس ایس کی ’’خوبصورت بچہ ‘‘ پیدا کرنے کی مہم

آر ایس ایس

کیا ہندوستان میںبھی نازی ازم کا تجربہ دہرایا جائے گا!
نوراللہ جاوید
ہندوستانی صحافت پر ان دنوں بہت کچھ لکھا اور بولا جارہا ہے اور خود صحافت کے اندر سے ہی صحافت کی تنقیدہورہی ہے۔جب انسانی زندگی کا تمام شعبہ صارفیت کا ہدف بن چکا ہے اورکارروباری شکل اختیار کرچکا ہے تو صحافت کا کاروبار بن جانا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، مگر کاروبار کے بھی اصول ہوتے ہیں۔لیکن صحافت نے تمام اصول واقدار کو بالائے طاق رکھ کرمسلسل گھٹیا مال فروخت کررہا ہے بلکہ صحافت نے گھٹیا مال کو ہی انسانوں کی ضرورت بنادی ہے ۔بلکہ یہ کہا جائے کہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ سیاست زدگی کا شکار ہوچکا ہے۔یعنی ذرائع ابلاغ کی صبح سیا ست سے شروع ہوتی ہے اور شام سیاست پر ختم ہوتی ہے۔ذرائع ابلاغ کا 90فیصد حصہ سیاست کیلئے مخصوص ہوچکا ہے۔بقیہ 10فیصد حصے میں تعلیم، سماجیات، سائنس ، کھیل اور معاشرتی خبریں ہوتی ہیں ۔چناںچہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ کو قوم کے اخلاقی زوا ل ، سماجی بے آہنگی، ناہمواری ، معاشرتی خرابی اورنوجوانوں کی بے راہ روی سے کوئی سرو کار نہیں ہے ۔جب کہ یہ مثل مشہور ہے کہ قوم اور صحافت کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے مگر ہندوستانی صحافت کو قوم کے عروج و زوال سے کوئی سروکار نہیںہے۔
آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم اروگیا بھارتی جو صحت کے شعبہ میں کام کرتی ہے۔نے کلکتہ میں ’’ گورے اور مناسب قدکے بچوں‘‘کی پیدائش کیلئے ٹریننگ کا پروگرام گزشتہ مہینے منعقد کیا تھا۔کلکتہ ہائی کور ٹ میں مغربی بنگال چائلڈ رائٹس پروٹیکشن کمیشن نے اس پروگرام کو حقوق انسانی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس پر روک لگانے کیلئے عدالت میں عرضی دائر کی تھی ۔ مگر عدالت یہ کہتے ہوئے کہ اس میں جسمانی کوئی مشقت نہیں ہے اس لیے اس پروگرام کے انعقاد میں کوئی حرج نہیں ہے۔عدالت کی اجازت کے بعدجنوبی کلکتہ کے ہریش مکھرجی روڈ پر واقع’’ایکال بھون‘‘میں دوروزہ پروگرام منعقد ہوا جس میں 62جوڑے نے شرکت کی ۔چائلڈ کمیشن کی چیئرپرسن اننیا چکرورتی اور خواتین کے مرض کی ڈاکٹر گوری کمارا اس پروگرام میں شرکت کرنا چاہتی تھیں لیکن انتظامیہ نے شرکت کی نہ صرف اجازت نہیں دی بلکہ اننیا چکرورتی کے ساتھ بدسلوکی بھی کی گئی ۔پولس اس معاملے کی جانچ کررہی ہے۔ظاہر میں اس خبر کا سیاست سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا ۔اس لیے اس خبر پر میڈیا کی توجہ نہیں گئی ۔ جب کہ یہ اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام تھا۔اس کا تعلق سماج و معاشرہ سے تھا مگرا س کے باوجود میڈیا میں اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔اروگیا بھارتی نے اپنے اس پروگرام کا نام گرپ وگیان (حمل سائنس)رکھا ہے ۔اس پروگرام کے قومی کنوینر ڈاکٹر موہن داس مروانی کے مطابق اس تربیتی کیمپ کا اصل مقصد’’ہندوستان کو خوبصورت بچوں کے ذریعہ اسمارٹ بنانا ہے اور 2020تک ہزاروں بچے اس اسکیم کے تحت پیدا کیے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس نے اس اسکیم کو بڑے پیمانے پر نافذ کرنے کیلئے بیلو پرنٹ بھی تیار کررکھا ہے ایسا نہیں ہے کہ یہ پروگرام پہلی مرتبہ کلکتہ میں منعقد کیا گیا ہے بلکہ گجرات اور مدھیہ پردیش جہاں ایک دہائی سے بی جے پی کی حکومت ہے میں گزشتہ دس سالوں سے اس طرح کے پروگرام منعقد ہورے ہیںچوں کہ کلکتہ میں مزاحمت و مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اس لیے عام آدمی میں یہ بات سامنے آئی۔
یہ سوال کہ کیا یہ ممکن ہے؟ انسان چندتدبیریں اختیار کرکے اپنے من پسند کے بچے پیدا کراسکتا ہے ؟ اور اگر ہے تو پھر کالے بچوں کی پیدائش کیو ں ہورہی ہے ۔؟ گزشتہ دس سالوں میںاب تک کتنے ایسے بچوں کی پیدائش ہوئی ہے؟سے اعراض کرتے ہوئے اصل سوال یہ ہے کہ آخر آر ایس ایس ملک میں گورے اور طویل قد و قامت کے بچو ں کی پیدائش کیلئے مہم کیوں چلارہی ہے ، اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں ؟اس کے ذریعہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ؟اگر آر ایس ایس کے اس پروگرام کا معروضی و تاریخی پس منظر میں جائزہ لیا جائے تو جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ بھیانک اورانسانی اقدار کے منافی ہیں۔اگر بروقت اس کا ادراک نہیں کیا گیا تو اس کے بھیانک نتائج ملک کو بھگتنے پڑیں گے اور یہ نقصان کسی فرقہ یا مذہب کا نہیں ہوگا بلکہ انسانیت کا ہوگا۔
در اصل یہ منصوبہ ’’براہ راست نازی پلے بْک یوجینکس‘‘ سے لیا گیا ہے۔نازی پلے پر یقین رکھنے والوں کا دعویٰ تھا کہ انسانی نسل کو مخصوص طریقہ تولید سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ یہ خیال بیسویں صدی کے آغاز میں کافی مقبول رہا ہے اور نازیوں نے تو اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کی ۔ہٹلر نے اپنی برتریت کے زعم میں 6ملین یہودیوں اور لاکھوں معذور، اپاہچ ، ہم جنس پرستوں اور کمیونسٹوں کا قتل عام کیا۔جرمنی شہریوں کو وہ انسانی نسل کی سب سے اشرف النسل ہے ۔دنیا میں اسے ہی جینے کا حق ہے ۔یورپ نے بھی 20ویں صدی میں خود کو برتر بتاتے ہوئے ظلم و تشددکی تاریخ رقم کی۔نصف سے زائد دنیا کو اپنی کالونی میں تبدیل کردیا۔مگر بیسویں صدیں کے اختتام تک نسلی برتری، عصبیت اور استعماریت اپنے انجام کو پہنچ گیا گرچہ اس کی باقیات اب بھی زندہ ہیں اور انسانوں کو غلا م بنانے کی کوشش جاری ہیں ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ نازی ازم اوراستعماریت کے مقابلہ انسانیت کی آواز کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے ۔ایک صدی بعد آر ایس ایس ایک بار پھر اسی تھیوری کے ذریعہ ہندوستان میں ہندو تو کے عزائم کو پورا کرنا چاہتی ہے۔دراصل آر ایس ایس کے بنیاد گزاروں کے نظریات اور فکر نازی ازم سے مستعار ہیں ۔گزشتہ 8دہائیوں سے آر ایس ایس ہندوستان میں نازی ازم کی تھیوری کے نفاذ کو اپنا ایجنڈا بنارکھا ہے ۔آر ایس ایس کے بانی ونظریہ ساز ویر سارورکر نے ہندو کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ہندوستان مقدس سرزمین ہے اور یہاں پیدا ہونے والے ہندو ہی اصل باشندے ہیں ۔مسلم اور عیسائی ہندوستان کے اصل باشندے نہیں ہے بلکہ وہ عرب، فلسطین اور یورپ سے یہاں آئے ہیں ‘‘۔آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ گروگوالکر نے اپنی کتاب ( We, Or Our Nationhood Defined,)میں لکھتے ہیں کہ’’ہندوز اس ملک میں کہیں سے نہیں آئے ہیں بلکہ اس ملک کے قدیم بچوں کایہ مذہب رہا ہے ۔گرو گوالکر براہ راست نازی ازم سے نظریہ برتریت کو اخذ کرتے ہوئے کہتے ہیں ہندوستان پر ہندئوں کا ہی اصل حق ہے ۔بی جے پی اور آر ایس ایس لیڈروں میںنسل پرستی لا شعور کا حصہ ہے ۔چناں چہ گزشتہ مہینے جب ہندوستان میں مقیم افریقی نوجوانوں کے ساتھ بدسلوکی کے معاملے پر بی جے پی کے ترجمان اور آر ایس ایس کے آرگنائزر کے ایڈیٹر رہ چکے ترون وجے کا یہ بیان کہ’’ ہندوستانی کبھی نسل پرست نہیں ہوسکتے ہیں کیوں کہ ہم ایک مدت سے ’’ڈراویڈن‘‘ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ بیان ان کے لاشعور میں چھپے نسل پرستی کو ظاہر کرتاہے ۔
’’لو جہاد‘‘ گھر واپسی‘‘گئو رکشا کے بعدآر ایس ایس اور ہندتو وادیوں کی ’’خوبصورت اور طویل قد وقامت ‘کے بچے پیداکرنے کا پروگرام نسل پرستی کی طرف ایک قدم ہے ۔اس کے ذریعہ نوجوان نسل میںاحساس برتریت کے شعور کو پیدا کرنا ہے ۔آر ایس ایس جو ہندو ازم سے زیادہ برہمن وادمیں یقین رکھتا ہے ۔منوسمرتی آج بھی اس کیلئے ایک رہنما کتاب ہے۔ایسے میں آر ایس ایس کا ’’گرب وگیان‘‘ پروگرام مسلمان ، عیسائی یا پھر دیگر اقلیتوں سے کہیں زیاددہ غیر برہمن ہندئوں بالخصوص دلت جنہیں وہ انسان کا درجہ دینے کے حق میں نہیں تھے کیلئے خطرناک ہے ۔گرچہ ابھی یہ بات ابھی سامنے نہیں آئی ہے کہ آر ایس ایس کا یہ پروگرام صرف خاص ذاتوں کیلئے مخصوص ہے یا پھر ملک کا کوئی بھی شہری اس پروگرام میں شریک ہوسکتا ہے؟ تاہم اب تک جو بات سامنے آئی ہے کہ اس کے مطابق اس پروگرام میں مخصوص افراد کو ہی مدعوکیا جاتا ہے ۔یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آر ایس ایس کا یہ پروگرام فطرت کے خلاف بغاوت ہے۔تاہم آر ایس ایس اپنے اس منصوبے میں 5فیصد بھی کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو یہ اندیشہ ہے کہ ہم لوگ نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں نازی ازم کے بھیانک تجربات کا تختہ مشق بن سکتا ہے اور ملک تاریکی میں ڈوب سکتا ہے ۔
٭مضمون نگار صحافت کے پیشہ سے وابستہ ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *