نہایت باصلاحیت منیجر کیوں ضروری ہے؟

CEO، سی ای او

عبدا لمنعم فائز
اسٹار بکس کا شمار دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ 63 ملکوں میں اس کے 21 ہزار سے بھی زائد اسٹور ہیں۔ صرف امریکا میں اسٹار بکس کے 12 ہزار سے زائد اسٹور کام کر رہے ہیں۔ مگر اس ملٹی نیشنل کمپنی کو 1997 ء میں شدید دھچکا لگا۔ ہوا کچھ یوں کہ چند ڈاکو واشنگٹن ڈی سی میں موجود اسٹار بکس اسٹور میں داخل ہوئے۔جہاں انہوں نے لوٹ مار کی اور واپس جاتے ہوئے تین ملازمین کو گولیاں بھی مار دیں۔امریکا کے دل واشنگٹن ڈی سی میں ایسا واقعہ ہونا کسی قومی سانحے سے کم نہیں تھا۔ اسٹاربکس کے ملازمین یکے بعد دیگرے کمپنی چھوڑنے لگے۔ افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔ کمپنی کے سی ای او مسٹر ہارورڈ شوالز نے اخباری بیان اور تعزیتی الفاظ کہنے کے بجائے رخت سفر باندھا اور اسی ریسٹورنٹ میں ڈیرے ڈال دیے جہاں تین ملازمین کو قتل کیا گیا تھا۔ ملازمین سے ملاقاتیں کیں۔ سب کو حوصلہ دیا۔ کارکنوں کے اہل خانہ کو مطمئن کیا۔ ایک ہفتے میں ایسا محسوس ہونے لگا گویا یہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
منیجر اور لیڈر کا کمال
یہ ایک حقیقت ہے کہ قیادت اور لیڈر شپ بھی کامیابی کی ضمانت دیاکرتے ہیں۔ اپنے کارکنوں کو کام پر آمادہ کرنا بلاشبہ ایک مشکل کام ہے۔ دنیا بھر کی معیشت پر قابض ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کامیابی میں ان کے مالکان کے بجائے باصلاحیت چیف ایگزیکٹو آفیسرز کا کردار ہے۔ کوئی بھی ملٹی نیشنل کمپنی کسی ایسے شخص کو اپنا چیف ایگزیکٹو افسر بنانے پر آمادہ نہیں جو زبردست صلاحیتوں سے مالا مال نہ ہو۔ اسی لیے دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے افراد میں کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران کا نام آتا ہے۔
آئیے! دنیا بھر میں مشہور میگزین فوربس کی یہ رپورٹ دیکھتے ہیں۔ فوربس کے مطابق گزشتہ سال دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ امریکی کمپنی McKesson Corporation (میک سن کارپوریشن) نے اپنے سی ای او کو دی۔ کمپنی کے سی ای او مسٹر ہیمر گرین کو ایک سال میں 13کروڑ ڈالر یعنیہندوستانی روپے میں 13 ارب ڈالر سے بھی زیادہ تنخواہ دی گئی۔ آپ کمپنیوں کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ان افسران کے احوال پڑھیں تو انہیں ارب پتیوں کی فہرست میں پائیں گے۔ انہیں اس قدر دولت دینے کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ لوگ کمپنی کو تباہی سے کامیابی کے راستے پر گامزن کر دیتے ہیں۔
شکوۂ ظلمت شب
ہندوستان میں آپ بہت سی کمپنیوں کے مالکان سے ملے ہوں گے۔ ان کی کمپنیاں ایک خاص حد سے اوپر ہی بلند ہو سکی ہوں گی۔ آپ ان سے پوچھیں تو وہ شکوہ کریں گے کہ ’’قابل لوگ نہیں ملے‘‘۔ ’’ہم نے بہت سرمایہ خرچ کیا مگر قسمت میں یہی تھا‘‘۔ ’’ہم نے فلاں قابل آدمی کو رکھا مگر وہ تو ایسا ویسا، جیسا تیسا نکلا‘‘۔ یہ سب الفاظ دل بہلانے کے لیے تو اچھے ہیں مگر پورا سچ ہرگز نہیں ہیں۔ بے شمار باصلاحیت لوگ ہمارے پاس آتے ہیں، مگر ہم کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ شیکپئر نے کہا تھا: ’’خرابی ستاروں میں نہیں، ہم میں ہے۔‘‘ اس لیے یاد رکھیں! خرابی لوگوں میں نہیں، فرد کا انتخاب کرنے والے میں بھی ہو سکتی ہے۔
اچھا منیجر کس قدر ضروری ہے؟
ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں جب کوئی کارکن کام کرنا شروع کرتا ہے تو وہ اپنی صرف 60 فیصد توانائی، قابلیت اور صلاحیت استعمال کرتا ہے۔ اگر لیڈر، منیجر اور سربراہ اچھا ہو تو وہ اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں بقیہ 40 فیصد توانائیاں بھی کام پر خرچ کرنے پر آمادہ کر دیتا ہے۔ اس لیے باصلاحیت منیجر تلاش کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، ناممکن ہرگز نہیں۔ یاد رکھیں! اگر آپ نے ایک غلط منیجر منتخب کیا تو اس کا نقصان صرف یہ نہیں کہ آپ کی تنخواہ ضائع گئی، بلکہ اس منیجر کی وجہ سے آپ کے ملازمین پر کتنا برا اثر پڑا؟ کمپنی کا ماحول کس قدر تبدیل ہو گیا؟ آپ کے کتنے گاہک ہمیشہ کے لیے روٹھ گئے؟ آپ کا کتنا وقت ضائع گیا؟ سب سے بری صورت حال اس وقت پیش آتی ہے جب آپ ایک درمیانے درجے کی صلاحیت رکھنے والے شخص کو منیجر بنا دیتے ہیں۔ یہ شخص کمپنی کو ترقی بھی نہیںدلا پاتا، کیونکہ وہ درمیان درجے کا ہے تو صلاحیت بھی درمیانے درجے کی ہی خرچ کرے گا۔ آپ اسے نکال بھی نہیں سکتے اور رکھ بھی نہیں سکتے۔ ایسا شخص آپ کی کمپنی کو سالہا سال تک کمزور کرتا رہتا ہے۔ اپنے کاروبار کو چمکانا چاہتے ہیں تو بے رحمی سے (کسی نفسانی وجہ کو راستہ دیے بغیر) افراد کا انتخاب کریں، مگر اچھے افراد مل جائیں تو ان کی ضروریات کا اس قدر خیال رکھیں کہ وہ کہیں اور جانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔

بہ شکریہ شریعہ اینڈ بزنس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *