ہندوستانی مسلمان زکوۃ فائونڈیشن کے صدر ڈاکٹرسید ظفر محمود کےخواب کو شرمندہ تعبیر کریں

زکوۃ فائونڈیشن کے صدر ڈاکٹرسید ظفر محمود
زکوۃ فائونڈیشن کے صدر ڈاکٹرسید ظفر محمود

دانش ریاض برائے معیشت ڈاٹ اِن
گذشتہ ہفتے ہی سول سروس کے امتحانات میں کامیاب ہونے والوں کی فہرست منظر عام پر آئی ہے جس میں زکوۃ فائونڈیشن آف انڈیا سے مستفید ہونے والے طلبہ و طالبات کی بھی گراں قدر تعداد ہے۔گذشتہ دو دہائیوں سے زکوۃ فائونڈیشن آف انڈیا کے صدرڈاکٹر سید ظفر محمود ایک نکاتی فارمولہ ’’ملت کی تعلیمی ترقی‘‘پر نگاہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔پرائیویٹ اسکول کے ساتھ سول سروس گائیڈنس سینٹر کاقیام ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر رہا ہے لیکن ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ہندوستانی ملت اسلامیہ اپنا ویسا کردار ادا نہیں کر رہی ہے جس کا کہ وقت تقاضا کر رہا ہے۔
سچر کمیٹی رپورٹ کی تیاری کے دوران انہوں نے جس باریکی سے ملت کا جائزہ لیااس نے انہیں بہت کچھ کرنے پر آمادہ کیا ہے جبکہ بحیثیت سول سرونٹ انتظامیہ میں مسلمانوں کی کمی انہیں ہمیشہ کھلتی رہی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ملت کے اندر سول سروسیز میں شمولیت کے لئے جن لوگوں نے فکر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ان میںڈاکٹر سید ظفر محمود سر فہرست ہیں یہی وجہ ہے کہ امسال تقریباً پچاس مسلم طلبہ و طالبات نے کامیابی حاصل کی ہے۔
ایک سوال جو ہمیشہ مجھے پریشان کئے رکھتا تھا وہ یہ کہ آخر سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہونے والے طلبہ و طالبات کی تعداد ۲۹سے ۳۱کے بیچ ہی کیوں رہا کرتی ہے؟ میں نے کئی برس کے ریکارڈ کے حوالے سے جب یہ بات ڈاکٹرسید ظفر محمود سے کہی تو انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’ہم ریزلٹ پر تو نظر رکھتے ہیں لیکن کتنی تعداد میں ہمارے بچے مذکورہ امتحان میں شامل ہو رہے ہیں اس کا جائزہ نہیں لیتے۔جب امتحان میں شامل ہونے والے ہی کم رہیں گے تو ریزلٹ بھی ویسا ہی آئے گا۔‘‘ وہ یہ شعر کہنا نہیں بھولتے کہ
نہ تھا اگر تو شریک محفل،قصور تیرا ہے یا کہ میرا
میرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں،کسی کی خاطر مے شبانہ
اسمبلی و پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی بہتر نمائندگی کے لئے بھی موصوف کے پاس بہترین خاکہ ہے ۔پارلیمانی انتخابات کے بعد اترپردیش کے گذشتہ انتخابات سے قبل بھی انہوں نے لائن آف ایکشن کے طور پر مختلف پروگرام ترتیب دئے لیکن ہمارے یہاں عقلمندوں کی کون سنتا ہے۔ہم توبس ان سیاسی آقائوں کے یہاں سجدہ تعظیمی بجالانے والوں کو پسند کرتے ہیںجن کا دین و ملت سے واسطہ تک نہیں ہوتا جب کہ ملت کی ایک بڑی تعدادتملق پسندوںکے آگے سجدہ ریز رہتی ہے ۔
زکوۃ فائونڈیشن آف انڈیا کی جانب سے چلائے جا رہے سر سید کوچنگ اینڈ گائیڈنس سینٹر میں سول سروسیز کی تیاری کرنے والے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد رجوع ہوتی ہے۔مختلف ٹیسٹ کے بعد اہلیت والے امیدواروں کا انتخاب ہوتا ہے اور انہیں فیلو شپ دی جاتی ہے لیکن ہر برس فیلو شپ کی رقم کہاں سے اکٹھا ہوتی ہے کیا کبھی آپ نے غور کیاہے؟ ڈاکٹرسید ظفر محمود نجی ملاقات میں کہتے ہیں ’’میرے ادارے کا نام تو زکوۃ فائونڈیشن آف انڈیا ہے لیکن امت کی زکوۃ بہت کم یہاں جمع ہوتی ہے۔میں جس جگہ بیٹھا ہوں یہ بھی عیسائی اداروں نے دے رکھا ہے جبکہ زیادہ تر ڈونیشن بھی عیسائی اداروں سے ہی آتے ہیں۔‘‘تاسف کا اظہار کرتے ہوئے ظفر محمود کہتے ہیں’’ہمارے یہاں تو سوچنے سمجھنے کا معیار ہی بدلتا جارہا ہے۔ہم آئندہ نسلوں کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں اس کی کوئی فکر اصحاب حل و عقد کو نہیں‘‘۔
یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ ملت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ہر ایک کو پریشان کئے رکھتا ہے ،ہر شخص یہ ضرور چاہتا ہے کہ میں کچھ ایسا کروں جو ملت کی ترقی کا مژدہ سنا سکے لیکن عملی طور پربہت کم لوگ ہیں جو پوری دلجمعی کے ساتھ کسی مشن کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ نام نہاد لوگوںمیں ان خرقہ پوشوں کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے جو خالصتاً کسی جذبے سے کام کر رہے ہوں۔ڈاکٹرسید ظفر محمود انہیں درویشوں میں ہیں جنہیں اقبال کی فکر ہر صبح تازہ دم رکھتی ہے اور وہ یہ کہنا نہیں بھولتے کہ
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذر ا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
یقیناً جب جذبہ صادق ہو تو مدد خدا کی طرف سے آتی ہے ۔زکوۃ فائونڈیشن آف انڈیا نے جس وقت کام کا آغاز کیا تھا ،مجھے یاد ہے کہ بڑے مخدوش حالات تھے۔چونکہ تاسیسی پروگرام میں میں شامل تھا لہذا کچھ باتیں آج بھی ذہن کے کسی نہاں خانے میں موجود ہیں۔اوکھلا میں مقیم سوشل ورکرس کے ساتھ بڑی تعدادمیں پڑھے لکھے لوگوں نے شرکت کی تھی۔فاضل مقررین کی تقاریر کے بعد ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی۔اس وقت مثبت باتیں کیا ہوئیں وہ تو یاد نہیںلیکن منفی باتوں نے ذہن میں جگہ بنا لیا کہ صحافی کو اس میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔پروگرام ہال سے نکلتے ہی کسی نے جملہ سنایا ’’چلو میاں اب تو زکوۃ پر بھی تصرف ختم ہوا‘‘’’شکل و شباہت سے بھی مسلمان نہیں لگتے نہ داڑھی نہ ٹوپی چلے ہیں زکوۃ وصولنے‘‘۔حد تو یہ ہوئی کہ ایک صاحب نے کہا کہ ’’میرا نام بھی کمیٹی میں شامل ہونے والا تھا لیکن فلاں نے مخالفت کردی،وہ نہیں چاہتے کہ میں کسی مرتبے پر رہوں‘‘۔
آج جبکہ ایک عرصہ بیت چکا ہے میں ڈاکٹرسید ظفر محمود اور زکوۃ فائونڈیشن آف انڈیا کی خدمات کا جائزہ لیتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ کام تو مخدوش حالات میں ہی کئے جاتے ہیں۔تنگ دستی ،بے سروسامانی ،طعن و تشنیع سنتے ہوئے جب آپ خالصتاً لوجہ اللہ کام کرتے ہیں تو مدد کہاں سے آتی ہے اندازہ ہی نہیں ہوتا۔مخلصین کے دلوں میں آپ کب جگہ بنا لیتے ہیں اور معاندین کہاں فنا ہوجاتے ہیں محسوس ہی نہیں ہوتا۔لیکن ہاں !ایک کسک ضرور رہتی ہے کہ میرا جذبہ صادق تھا تو پھر مخالفت کیوں ؟
ڈاکٹر سیدظفر محمود کہتے ہیں ’’جس وقت میں نے کام کا آغاز کیا تو اپنی جان کے ساتھ اپنا مال بھی لگایا۔علی گڈھ میںایک شاندار گھر تھا جسے فروخت کرنے کے بعد جو رقم حاصل ہوئی اسے بھی مذکورہ کام پر ہی خرچ کردیا۔جبکہ بہرائچ کے آبائی مکان میں آج بھی زکوۃ فائونڈیشن آف انڈیا کی مقامی آفس ہے جہاں کوکراجھار آسام کے یتیم بچے ’’ہیپی ہوم ‘‘ میں خوش و خرم زندگی گذار رہے ہیں۔جب کہ اسی گھر میں اِسکل ڈولپمنٹ کورسیز بھی چلائے جا رہے ہیں جہاں سے ہنر مند بن کر بچے روزگار حاصل کر رہے ہیں‘‘۔ اب آپ اس جذبے کی روشنی میں جائزہ لیں کہ آخر کتنے لوگ ہیں جو ملت کی فکر لئے ادارہ قائم کرتے ہیں اور پھر اپنی جان کے ساتھ اپنا مال بھی لگاتے ہیں اور کوئی منفعت حاصل نہیں کرتے؟
ڈاکٹر سیدظفر محمود نے جو خواب دیکھا ہے وہ ہنوز تعبیر کا متلاشی ہے وہ کہتے ہیں ’’سول سروسیز میں ہمارے طلبہ کی تعداد بڑھے اس کے لئے جب تک بڑی تعداد میں ان کی ٹریننگ کا انتظام نہیں کیا جائے گا یہ ممکن نہیں۔فی الحال میرے پاس پچاس بچے آتے ہیں جن میں ۱۵،۱۷بچے کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں اگر یہی تعداد ۵۰۰ کے قریب پہنچ جائے اور ایک ہی چھت کے نیچے اگر ہم پانچ سو بچوں کی ٹریننگ دہلی میں کرنے لگیں تو یقین جانئے ریزلٹ اس سے کہیں زیادہ بہتر آئےگا‘‘۔
ملت سے بہت پُر امید رہنے والے پی ایم او کے سابق آفیسرڈاکٹر سید ظفر محمود کہتے ہیں’’اگر ہندوستانی مسلمان تہیہ کرلیں کہ ہم ۵۰۰ بچوں کی رہائش والا ایک ایسا سول سروس ٹریننگ سینٹر دہلی میں قائم کریں گے جہاں سے بڑی تعداد میں طلبہ کامیاب ہوں تو مجھے امید ہے کہ نیت میں برکت ضرور ہوگی اور بہت جلد یہ سلسلہ شروع ہوسکتا ہے‘‘۔ اسی طرح اس وقت جبکہ اتر پردیش میں پنچایتی انتخابات ہونے ہیںڈاکٹر سید ظفر محمود کے مشوروں پر عمل کیا جاسکتا ہے۔وہ کہتے ہیں’’اتر پردیش میں ۵۵۴لوکل باڈیز ہیں جن میں گرام پنچایت،ضلع پنچایت ،گرام سبھا ،کارپوریشن وغیرہ شامل ہیں ۔چونکہ ہر پانچ برس میں لوکل باڈیز انتخابات سے قبل سابقہ ووٹنگ کی بنیاد پرڈی لمیٹیشن کاکام کیا جاتا ہے لہذا یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آپ اپنے لوگوں کی ٹریننگ کے ذریعہ ووٹروں کی صورتحال کا بہتر طور پر جائزہ لے سکتے ہیں۔چونکہ اس کام کو کرنے کے لئے جہاں مرکزی ٹیم کی ضرورت ہے وہیں مقامی افرادا بھی درکار ہیں۔ لہذا ایک ایسا سینٹر جہاں الیکٹرورل پروسیس سے متعلق تمام طرح کی ٹریننگ ہو ،اس کی اب خاص ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔اگر یہ ادارہ دہلی میں قائم ہو تا ہے تو الیکشن کمیشن کے افسران و سابقہ عہدے داران کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں اور الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہو جا سکتا ہے‘‘۔
دراصل اس وقت ہمیں ان لوگوں پر خاص توجہ دینی چاہئے جو دور رس تبدیلی کے کام انجام دے رہے ہوں۔وقتی فلاح و نشو نما پر کام کرنے والوں کی کمی نہیں کہ ملت کی تعمیر و ترقی کا کام پتہ ماری کا کام کہلاتا ہے اور لوگ تھوڑے دنوں میں ہی ہمت ہار جاتے ہیں ۔ لہذا وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو ثابت کردکھایا ہے ۔جن کی قربانیاں طشت از بام ہیں جنہوں نے اوائل عمری میں ہی وہ تمام چیزیں حاصل کر لی ہیں جس کی خواہش لئے لوگ زندگیاں گذار دیتےہیں۔ لہذا اب جبکہ وہ عمر کے اس پڑائو پر ہیں جہاں انہیں معین و مددگار کی ضرورت ہے تو ہماری ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا بھر پورتعاون کریں ۔اگر مالی و جسمانی کوئی مدد نہ بھی کر سکیں تو اپنی دعائوں میں تو انہیں یاد رکھ ہی سکتے ہیں کہ دعائیں مستجاب الدعوات ہوتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *