موجودہ ہندوستان اور پوپ فرانسس کی اتحادی تگ و دو

پوپ فرانسس
پوپ فرانسس

ڈاکٹر سید ظفر محمود

رواں ہفتہ میں انٹر فیتھ کوئیلشن فار پیس کی جانب سے دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں امریکہ کی بوناونچر یونیورسٹی کے مرکز برائے عرب و اسلامی تدریس کے ڈائرکٹر پروفیسر فادر مائیکل کیلیبریا نے ’پوپ فرانسس اور اسلام‘ کے عنوان پر لکچر دیا۔ انھوں نے بتایا کہ موجودہ پوپ کا اصلی نام ہے جارج میریو برگوگلیو لیکن انھوں نے اپنا پاپائی نام(Papal name) رکھ لیا ہے فرانسس ‘وہ اس وجہ سے کہ پانچویں صلیبی جنگ کے دوران 1219 میں اس وقت اٹلی کے شہر اسیسی کے رہنے والے سینٹ فرانسس ضد کر کے یوروپی فوج کے ساتھ مصر کے دمیاط (Damietta in Egypt) گئے تھے ‘ انھوں نے یوروپی فوج کو مسلمانوں پر حملہ کرنے سے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے‘ بہر حال یوروپی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد سینٹ فرانسس جنگ کی لائن پار کر گئے جہاں انھیں قید کر کے سلطان ملک الکامل کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہاںان کے مابین اگلے بیس روز تک عبادات و صوفیانہ طرز زندگی پر گفت و شنید کے بعد انھیں احساس ہوا کہ مسلمان اور عیسائی دونوں ہی خدا پرست ہیں ۔ جاتے وقت سلطان نے فرانسس کو ہاتھی دانت کی بنی ہوی شہنائی پیش کی جو سین فرینسسکو‘اسیسی کی باسلیقی کے تہ خانہ(Crypt of Basilica at San Fransesco) میں اب بھی محفوظ ہے۔ سینٹ فرانسس کے نام پر اپنا پاپائی نام رکھ کر موجودہ پوپ نے دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے اور گفت و شنید کے ذریعہ تمام باہمی معاملات کا حل نکالا جائے۔ پو پ نے صاف کہا کہ جب آپ مسلمانوں سے رجوع کریں تو ان کے طور طریقہ کا لحاظ رکھیں اور ان کے ذہن میں اپنے لئے اعتماد پیدا کریں ‘ ان کو بیش قیمت انسان مانئے اور ان کی بات غور سے سنئے۔

اس کے بعد 2013 & 2016 میں ہولی ویک کے دوران پوپ فرانسس نے جن غریب ضرورتمند لوگوں کو واٹکن (Vatican)میں پیر دھونے کی سالانہ روایت کے لئے چنا ان میں پہلی دفعہ عورتوں اور مسلمانوں کو بھی شامل کیا۔ واٹکن سے جاری کردہ 2014 کے اعلان انجیل (Proclamation of Gospel)میں پوپ نے مسلمانوں کے ذریعہ کی جانے والی دعائوں کو بھی شامل کیا اور زور دیا کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان محبت و اخوت کو فروغ دینے کے لئے دنیا بھرمیں زمینی سطح پر اقدامات کئے جائیں۔ انھوں نے عیسائیوں کی برتری والے ممالک سے کہا کہ وہ شام سے بے گھر ہوے لوگوں کوگلے لگائیں اور اپنے یہاں پناہ دیں۔ 2014 میں ہی پوپ فرانسساسلامی امام اور یہودی پادری کو ساتھ لے کر دونوں کے کمر میں ایک ایک ہاتھ ڈالے ہوے یروشلم میں قبۃ الصخرہ (Dome on the Rock) اور مسجد الاقصیٰ گئے اور وہاں انھوں نے مسلمانوں کو بھائی کہتے ہوے خطاب کیا۔ اسی برس ترکی میں پوپ نے مسلمانوں کے ساتھ با جماعت نماز ادا کی۔ 2015 میں سری لنکا میں پوپ نے یاد دلایا کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین باہمی احترام‘ تعاون اور دوستی میں ہی انسانیت کی فلاح ہے۔ انھوں نے 2015 کو رحم کا سال (Year of Peace)کے طور پر منانے کی اپیل کرتے ہوے کہا کہ قرآن میں اﷲکی اولین صفات اس کی رحمانیت اور اس کی رحیمیت بتائی گئی ہے۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کو جنگ قرار دیتے ہوے پوپ فرانسس نے کہا کہ یہ یکطرفہ تشدد اور ہلاکت ہے صرف اس وجہ سے کہ مقتولین کا مذہب اسلام ہے۔ اسی برس وہ نیو یارک میں گرائونڈ زیرو بھی ایک امام اور ایک یہودی پادری کے ساتھ گئے ۔دہلی کے اسلامک سنٹر میں اپنی تقریر کے دوران پروفیسر مائیکیل کیلیبریا نے کہا کہ پوپ فرانسس کے پیغام کی اہمیت دور حاضر کے ہندوستان میں پہچاننے اور اس سے سبق لینے کی بڑی ضرورت ہے۔ مذہبی تنوع (Religious diversity)کو ہی ملکی اتحاد کی بنیاد بنایا جانا چاہئے اور اس کے لئے مذہب کی بنیاد پر نفرت اورنام نہاد انتقامی جذبہ کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا ہو گااور سیاسی تنازعہ کو مذہبی رنگ دینے سے گریذ کرنا ہو گا۔ 2016 میں پوپ فرانسس نے مصر جا کر الاظہر کے امام سے ملاقات کی ‘ میڈیا کے لوگوں نے ان سے کہا کہ اس موقع پر آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں جس پر پوپ نے کہا کہ یہ ملاقات ہی دنیا کے لئے میرا پیغام ہے ۔ مسلمانوں سے اچھے تعلقات بنا کے رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ بعد میں ہوائی سفر کے دوران جہاز میں نامہ نگاروں نے ان سے پوچھا کہ اسلامی تشدد کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے جس پر پوپ فرانسس نے جواب دیا کہ ان کے ملک اٹلی میں ہر روز تشدد ہوتا رہتا ہے جو سو فیصد عیسائیوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے لیکن کوئی اسے عیسائی تشدد نہیں کہتا ہے‘ تو کوئی تشدد اسلامی بھی نہیں کہا جانا چاہئے۔ پروفیسر مائکیل کیلیبریا نے یاد دلایا کہ اپنے پورے آٹھ برس کی مدت میںامریکی صدر اوبامہ نے کبھی بھی’ اسلامی تشد‘ کے الفاظ نہیں کہے اور یہ کہ ہم کبھی عیسائی تشدد یا یہودی تشدد نہیں کہتے ہیں حالانکہ ایسا کہنے کا مستقل جواز بنا رہتا ہے۔

پروفیسر مائکیل کیلیبریا نے مزید کہا کہ دنیا کے اقتصادی سسٹم کے استفادہ سے بڑی تعداد میں انسانوں کو خارج کر دیا گیا ہے اس لئے یہی اقتصادی سسٹم ہی تشدد کی اصل جڑ ہے۔ 2016 میں ہی ازر بائیجان میں پوپ نے کہا کہ دوسروں کے لئے اپنے دروازے کھول دینے سے ہی خودکی تزئین و افزودگی ہے۔ اسی برس روم میں پوپ نے کہا کہ عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں لفظ رحم کے بنیادی معنی ماں کی کوکھ ہے جہاں نشوو نما پانے کے بعد انسان دنیا میں آتا ہے لہٰذا دنیاوی امن کی شروعات وہیں سے ہوتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ خدا کی اولین صفت رحم کرنے کی ہے اور وہ انسانوں سے بھی یہی امید کرتا ہے۔ پروفیسر مائکیل کیلیبر نے کہا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مکسکو اور امریکہ کے درمیان دیوار بنانے کی بات کہی لیکن پوپ فرانسس دیواریں گرانے اور پل بنانے کی بات کرتے ہیں۔ دنیا بھر میںپوپ کے دوروں کے اشتہارات میں جو علامتی نشان بنائے جاتے ہیں اس میں عیسائی صلیب کے ساتھ اسلامی ہلال بھی ہوتا ہے۔ اس طرح پوپ فرانسس نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ بین المذاہب ڈائیلاگ کے ذریعہ آپسی مقابلہ کو باہمی تعاون و امداد میں تبدیل کر دیا جائے۔لہٰذا ہمیں پوپ فرانسس کی مثال کو اپنا نصب العین بناکر دنیا میں آگے بڑھنا ہوگا۔

لیکن ہمارے ملک ہنفوستان میں تو فی ال حال سڑکوں پر ایک مذہب والوں کی بھیڑ کے ذریعہ دوسرے مذہب کے بیچارے ایک معصوم شخص کو پکڑ کر مار کے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس سانحہ پر عموماً کسی کی گرفت بھی نہیں ہوتی ہے۔ اس سے دو مذاہب کے مابین نفرت کو فروغ ملتا ہے اور اس طرح بقول پوپ فرانسس سیاسی مطلب پرستی کو مذہبی اختلاف کا لباس پہنایا جا رہا ہے۔اس سے پورے ملک کی آب و ہوا اور انسانی نفسیات بھی خراب ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب انفرادی مفاد کے لئے ہندوستان میں لوگ دوسرے انسان کے خلاف بدترین جرم کرنے سے تجاوز نہیں کرتے۔ خبریں آ رہی ہیں کہ دہلی میں شری رام کالج کے استاد اشونی کمار نے طالب علم پردیپ پھوگٹ کو فیل کر دیا اس لئے پردیپ نے استاد کو تھپڑ اور گھونسے مارے ‘ پولیس نے پردیپ کو گرفتار کیا اور اسی روز اس کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔ سی بی ایس سی کے ذریعہ انجینیرنگ میں داخلہ کے لئے کئے گئے IIT-JEE امتحان کے پرچہ کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک طالب علم جیک فریزر نے آدھے ہی وقفہ میں سو فی صد صحیح حل کر دیا جس پر عوام کی ایک پسندیدہ یب سائٹ کورا(Quora)پر ہندوستانیوں کے ذریعہ جیک فریزر اور ان کی والدہ کو مغلضات سے نونزا گیا۔ لائن آف کنٹرول پر میجر شکھا تھاپڑ نے ڈیوٹی کے دوران سیل فون استعمال کرنے پرنائک کاٹھی ریسن کو ڈاٹ لگائی تو جوان نے اے کے 47 سے میجر صاحب کو گولی سے مار دیا۔اگر ہندوستان میں ہمیں سماجی فلاح کی فکر ہے تو عوام‘ سیاست دانوں اور سرکار تینوں کو پوپ فرانسس کے مشورہ پر عمل کرنا ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *