ممتا بنرجی کی ’’مسلم نواز ی‘‘: حقیقت یا پروپیگنڈ ہ؟

ممتا بنرجی
نور اللہ جاوید
بشیر ہاٹ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کے بعد ایک بار پھر ممتا بنرجی کی’’مسلم نوازپالیسی ‘‘ موضوع بحث ہے،بنگال میںلا اینڈ آرڈر اور دیگر تمام مسائل کے کیلئے ’’مسلم نوازپالیسی‘‘ کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتاہے ۔ممتا بنرجی کے تئیں یہ پروپیگنڈہ ہے کہ ’ انہیں صرف 29فیصد مسلم آبادی کی فکر ہے اور انہوں نے ووٹ بینک کی خاطر ہندئوں کے تمام مفادات کو نظر انداز کردیا ہے‘ ۔گزشتہ تین سالوں میں آر ایس ایس، بی جے پی اور دیگر ہندو شدت پسند تنظیموں کے لیڈروں کے بیانات میں اس پروپیگنڈے کا عکس ضرور نظر آئے گا۔کسی بھی حدتک آر ایس ایس ممتا بنرجی اور بنگال کے تئیں یہ تصور قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوگئی ہے کہ بنگال میں صرف مسلمانوں کی منھ بھرائی کی جارہی ہے اور ہندئوں کے مفادات کو نہ صرف نظر انداز کیا جارہا ہے بلکہ ہندئوں کے جان و مال محفوظ نہیں ہیں ۔مودی نواز جسے اب ’’گودی میڈیا‘‘ بھی کہا جانے لگا ہے ہندی اور انگریزی نیوز چینلوں نے بھی اس مورچہ پر محاذ سنبھال رکھا ہے۔چناں چہ بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کے معمولی واقعات کی بڑے تناظر میں رپورٹنگ کی جاتی ہے اور اخلاقی حدود کی پرواہ کیے بغیر تشدد کے واقعات کا پورا ٹھکرا مسلمانوں کے سر پھوڑ ا جارہا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ممتا بنرجی کی مسلم نواز پالیسی کو بھی کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے ۔مالدہ تشدد،ڈھولا گڑھ فرقہ وارانہ فسادات اور اب بشیر ہاٹ فرقہ وارانہ فسادات کی رپورٹنگ بھی پروپیگنڈامہم کے تحت تھا۔جس ملک میں لاکھوں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہوں اور اس میں ہزاروں افراد کا قتل اور اربوں کی جائدادکا نقصان ہوا ہے وہاںتشدد کے معمولی واقعات جس میں نہ جان کا نقصان ہو اور نہ مال اس پر واویلا کرنا تعجب خیز تو ضرور ہے۔
افسوس نا ک بات یہ ہے کہ اس پروپیگنڈہ مہم میںملک کے وہ اخبارات جن سے متعلق اب بھی یہ تصور ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگوں میں عموماً غیرجانبداری اور معروضیت کا ثبوت پیش کرتے ہیںبھی شامل ہوتے جارہے ہیں۔چناں چہ مشہور انگریزی اخبار’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے 7جولائی کے اپنے اداریہ میں بشیرہاٹ کے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ممتا بنرجی کو اقلیت نوازپالیسی کو ترک کرنی ہوگی۔اخبار نے اپنے اداریہ کے بین السطور کے ذریعہ یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ’’ ممتا بنرجی نے مسلمانوں کو بنگال میں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور اس کی وجہ سے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور یہ فرقہ وارانہ فسادات بھی اسی ’مسلم نواز پالیسی‘ کا حصہ ہے ‘‘۔ ان پروپیگنڈوںکی وجہ سے بنگال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے ۔ہندو نوجوانوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے ۔ان کے ذہن و دماغ میں یہ بات راسخ ہوتی جارہی ہے کہ ممتا بنرجی اب ’’ممتازبیگم‘‘ بن چکی ہیں اور حکومت صرف مسلمانوں کیلئے کام کررہی ہے۔اس لیے اس پروپیگنڈہ کا معروضی انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ممتا بنرجی کے دور اقتدار میں مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی آئی ہے۔اور ممتا بنرجی کی ’’مسلم نواز‘‘ پالیسی کیا ہے ؟ اور اس کا سماج پر کیا اثر پڑرہا ہے۔
ایک دہائی قبل یوپی اے کے پہلی دور حکومت میں جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں قائم سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بنگالی مسلمانوں کو حیرت زدہ کردیا ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 27فیصد مسلم آبادی والے اس صوبے میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے دلتوں سے بھی بدتر حالات ہیں ۔سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح 3.4فیصد ہے جس میں گروپ اے اور بی میں 4.7فیصد اور گروپ سی اور ڈی میں 2.1فیصد ہے ۔یعنی اوسطاً 3.4فیصد ہے ۔شرح خواندگی 50فیصد سے کم ہے اور معاشی اعتبار سے مسلمانوں کی 85فیصدآبادی گائوں میں رہتی ہے اور اس میں 85فیصد آبادی کا ماہانہ آمدنی 5ہزار سے بھی کم ہے۔سچر کمیٹی اس رپورٹ نے مسلمانوں کو بایاں محاذ کے تئیں بد ظن کردیا ۔مسلمانوں کی اکثریت ریاست میں امن و امان اور دوستانہ ماحول کی بنیادپر بایاں محاذ کا 34سالوں سے ووٹ بینک بن چکی تھی۔سینگور اور نندی گرام میں جبراً حصول اراضی کے خلاف جد و جہد کررہی ممتا بنرجی کی طرف مسلمانوں کا رجحان ہوا اور بایاں محاذ کا ووٹ بینک ترنمول کانگریس کے پالے میں چلا گیا ۔گرچہ بایاں محاذ نے اس ووٹ بینک کو خوش کرنے کیلئے عالیہ مدرسہ کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر اقلیتی یونیورسٹی قائم اور ساتھ ہی جسٹس رنگا ناتھ مشرا کمیشن جس میں مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کی سفارش کی گئی تھی کے نفاذ کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت آبادی کو اوبی سی کوٹے کے تحت لانے کیلئے اسمبلی سے بل پاس کیا ۔مگر یہ اقدامات بھی بایاں محاذ کی کشتی کو ڈوبنے سے بھی نہیں بچاپائی ۔
2011میں ممتا بنرجی اقتدار میں آنے کے بعد یہ تاثر دینے میں کامیاب رہیں کہ ان کی حکومت بنگال کے مسلمانوں کے ساتھ گزشتہ 6دہائیوں سے جاری نا انصافی کے ازالہ کیلئے اقدمات کرنے کے تئیں سنجیدہ ہیں ۔انہوں نے اپنے اقتدار کے شروعاتی مہینے میں ہی کئی اہم فیصلے کیے جس میں 10فیصد اردو بولنے والے علاقے میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔اس کیلئے اسمبلی سے لنگویج ایکٹ میں ترمیمی ایکٹ بل پاس بھی کرکے قانونی درجہ دیا گیا ہے ۔اس کے بعد جولائی 2012میں مسلمانوں کی 90فیصد آبادی کو اوبی سی کے تحت لانے کیلئے اسمبلی سے ایک ترمیمی ایکٹ پاس کیا گیا ۔ان اقدامات کی وجہ سے مسلمانوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا اور تعلیم کی طرف رجحان میں بھی ۔بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعدہی بنگالی مسلمانوں کے اعلیٰ طبقہ نے اس تعلیمی پسماندگی کے ازالہ کیلئے اقدامات شروع کیے اور بڑے تعلیمی اداروں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ مگر سوال یہ ہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر آئے د س سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ممتا بنرجی سچر کمیٹی کی 90فیصدسفارشات کے نفاذ کا دعویٰ کررہی ہیں اور ان کی مسلم نواز پالیسی کا پروپیگنڈا ریاست میں پولرائزیشن کی سیاست کی راہ ہموار کررہی تو ضرورت اس بات کی ہے اس کا جائزہ لیا جائے تنائج کے اعتبار سے بنگالی مسلمانوں کی حالت میں کیا تبدیلی آئی ہے ۔
گزشتہ سال نوبل انعام یافتہ ، مشہور ماہر اقتصادیات امرتیہ سین کی این جی او ’’پراتیچی انسی ٹیوٹ اور ایک اور غیر سرکاری این جی او ’’اسنیپ‘‘نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کو دس سال مکمل ہونے پر بنگالی مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیا تھا اور ’’Living Reality of Muslims in West Bengal‘‘ کے نام سے ایک مبسوط رپورٹ شائع کیا ۔اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ ممتا بنرجی کے دور اقتدار میں بھی مسلمانوں کی تعلیمی ، معاشی اور سماجی صورت حال میں بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔اور حکومت کے کام کرنے کا جو انداز ہے کہ اس میں تبدیلی کا امکان بھی نظر آرہا ہے ۔اس رپورٹ میں بھی مسلم اکثریتی علاقے کو نظر انداز کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 27فیصد مسلم اکثریتی گائوں میں پختہ سڑکیں نہیں ہیں ۔94فیصد مسلم اکثریتی گائوں سرکاری ٹیوب ویل پرمنحصر ہے ۔صرف 36فیصد مسلم اکثریتی آبادی میں حکومت صاف پانی مہیا کراتی ہے ۔صرف 15.2فیصد مسلمانوں کو صاف پانی ملتے ہیں جب کہ جنرل آبادی میں یہ شرح 24.4فیصد کے قریب ہے۔34فیصد مسلم آبادی کو پرائمری ہیلتھ سنٹر تک پہنچنے کیلئے 4کلو میٹر کی مسافت طے کرنے پڑتی ہے ۔8فیصد مسلم آبادی کے پاس سڑکیں نہیں ہیں ۔حکومت کا دعویٰ کرتی ہے کہ 2011سے 2015کے درمیان 758پرائمری اسکول قائم کیا گیا ہے ۔مگر 1000والی مسلم آبادی والے 3فیصد گائوں میں کوئی اسکول نہیں ہے۔مسلمانوں کی 83فیصد آبادی گائوں میں رہتی ہے اور 52فیصد مسلم پرائمری (پانچویں سے ساتویں جماعت )سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرپاتی ہے۔
بنگال میں مسلمانوں کو ریزرویشن کا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔مگر سوال یہ ہے کہ حکومت نے جو ریزرویشن دیا ہے کیا اس کا مسلمانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے ؟ ۔کلکتہ کے ایک ریسرچ اسکالر اور سماجی کارکن شبیر احمد کے ذریعہ 2015میںدائر آرٹی آئی کے جواب میں کہا گیا ہے کہگزشتہ 8سالوں میں کلکتہ پولس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح میں صرف 0.3فیصد اضافہ ہوہا ہے ۔ان 8سالوں میں ممتا بنرجی کا پانچ سالہ دور اقتدار بھی شامل ہے۔کلکتہ میونسپل کارپوریشن جہاں گزشتہ 7سالوں سے ترنمول کانگریس کی قیادت والی بور ڈ ہے وہاں مسلمانوں کی شرح 0.32 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔30مارچ 2015تک کلکتہ پولس میں اہلکاروں کی کل تعداد27,388 تھی ۔ جس میں مسلم اہلکاروں کی تعداد محض 2,585ہے ۔یعنی کلکتہ پولس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح 9.43فیصد ہے ۔جب کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد 2007میں ہی شبیر احمد نے آرٹی آئی داخل کرکے کلکتہ پولس میں مسلمانوں کی نمائندگی پر جواب طلب کیا تھا تو اس وقت کہا گیا تھا کہ کلکتہ پولس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح 9.13فیصد ہے ۔اس وقت کلکتہ پولس میں کل 24,840افراد ملازمت پر تھے جس میں مسلمانوںکی تعداد 2,267تھی ۔یعنی ممتا بنرجی کے دور اقتدار میں کلکتہ پولس میں محض 318مسلم نوجوانوں کو ملازمت ملی۔یہی صورت کلکتہ میونسپل کارپوریشن کا بھی ہے-2007میں جب بایاں محاذ کی حکومت تھی اس وقت کارپوریشن میں مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح 4.47فیصد تھی اور 2015میں جب ترنمول کانگریس کا بورڈ قائم ہوا اس وقت اس شرح میں اضافہ ہوکر4.79میںتھی۔
ریزرویشن کے باوجودمسلمانوں کو کس طریقے سے افسر شاہی نظر انداز کرنے کی کوشش کررہی ہے اس کی سب سے بڑی مثال محکمہ خزانہ کے آئوڈٹ اینڈ اکائونٹ سروس کیلئے ہوئی تقرری ہے۔ 2016میںمغربی بنگال پبلک سروس کمیشن نے محکمہ خزانہ کے آئوڈٹ اینڈ اکائونٹ سروس میں بحالی کیلئے 120سیٹوں پر بحالی کیلئے اشتہار جاری کیا تھا جس میں 66سیٹیں جنرل تھیں، ایس سی 26ایس ٹی 7، او بی سی اے میں 11، اوبی سی بی میں 08اور جسمانی معذروں کیلئے 02سیٹیں مختص کیا گیا تھا۔6جولائی 2017میں جاری نتائج میں کل108امیدواروں کی کامیابی قرار دیا تھا۔جس میں 6مسلم امیدوار شامل ہیں۔ یعنی مسلم امیدواروں کی کامیابی کی شرح 5.90فیصد رہی ۔پبلک سروس کمیشن نے مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کی ہے ۔جو اشتہار جاری کیا گیا تھا اس میں اوبی سی اے کیلئے کل 11سیٹیں مختص کیا گیا تھا ۔مگر جو نتائج سامنے آئے ہیں اس میں اوبی سی اے کی 11سیٹیں پر نہیں کی گئی ہیں۔ چوں کہ اوبی سی اے میں 90فیصد مسلم برادری شامل ہیں ۔اس لیے اوبی سی اے کی کل 11سیٹوں نہیں بھرا گیا ۔جب کہ تحریری امتحان میں اوبی سی اے کوٹے میں کل 41امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور انہیں انٹرویو کیلئے طلب کیا گیا تھا مگر نتائج میں ان سب کو نظر انداز کردیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ جب ایس سی ، ایس ٹی اور اوبی سی ۔بی کے تمام کوٹے کو پر کیا گیا تو پھر اوبی سی اے اور معذور کیلئے مختص سیٹیوں کیوں نہیں پر کیا گیا۔ چوں کہ اگر اوبی سی اے کا کوٹہ پر کیا جاتو مسلم امیدواروں کی کامیابی کی شرح 15فیصد تک پہنچ سکتی تھی اس لیے جان بو جھ کر پبلک سروس کمیشن نے اس کوٹے کو خالی چھوڑدیا تاکہ مسلمانوں کو نوکری نہ ملیں۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ’’مسلم نواز پالیسی ‘‘ پروپیگنڈہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے ۔اس پروپیگنڈہ کو جہاں آر ایس ایس اور بی جے پی پولرائزیشن کیلئے استعمال کررہی ہے وہیں ترنمول کانگریس بھی اس پروپیگنڈے کے ذریعہ مسلم ووٹ بینک کو باقی رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔2016کے اسمبلی انتخابات میں ممتا بنرجی نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کی ترقی کیلئے جتنے بھی وعدے کیے تھے اس پر عمل در آمد کی ایک بھی کارروائی اب تک شروع نہیں ہوسکی ہے ۔یہ ایسا اس لیے ہورہاہے کہ بنگال میں پولرائزیشن کی سیاست کے خوف کی وجہ سے اب مسلمانوں کی ترقی کا ایجنڈہ ہی غائب ہوتا جارہا ہے اور موضوع بحث جہاد، بنگلہ دیشی دراندازی جیسے مسائل ہوگئے ہیں ۔ممتا بنرجی کے کابینہ میں شامل ایک مسلم وزیر جو ہندوستان کی ایک قدیم مسلم تنظیم کے ریاستی سربراہ بھی ہیں کا یہ آف دی ریکارڈ یہ تبصرہ بہت ہی معنی خیز ہے کہ بنگالی مسلمانوں کو حکومت کیا دے رہی ہے ۔24سوکروڑ کے سالانہ بجٹ کا نصف حصہ عالیہ یونیورسٹی کو دیدیا جاتا ہے ۔باقی 12سو کروڑ روپے میں مدرسوں کے ملازمین کی تنخواہ، اور دیگر اداروں و اسکالر شپ پر خرچ کردیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *