سلطان احمد:چند یادیں ،چند باتیں

ترنمول کانگریس کے سینئر رہنما رکن پارلیمنٹ مغربی بنگال اقلیتی ترقیاتی مالیاتی کارپوریشن کے چیر مین سلطان احمد
ترنمول کانگریس کے سینئر رہنما رکن پارلیمنٹ مغربی بنگال اقلیتی ترقیاتی مالیاتی کارپوریشن کے چیر مین مرحوم سلطان احمد

ملنے کے نہیں نایا ب ہیں ہم!
نور اللہ جاوید
ریاست کی وزیراعلیٰ اور ،ان کی پارٹی نے سلطان احمد کی موت پر سیاسی بیان بازی کرتے ہو ئے ان کی موت کیلئے بی جے پی اور جانچ ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایامگر۔مگر حقیقت اس سے برعکس ہے۔وزیراعلیٰ نے مسلم مسائل پر سلطان احمد سمیت ترنمول کانگریس سمیت دیگر مسلم لیڈروں کو بیان بازی کرنے سے روک دیا تھا ۔سلطان احمد جن کی سیاست کی بنیاد ہی اقلیت اور مسلم ہوںاگر انہیں مسلمانوں کے مسائل پر بات چیت کرنے سے روک دیا جائے اس سے بڑھ کر جان لیوا کیا ہوسکتا ہے ۔
صحافت سے وابستگی کی وجہ سے سیاسی لیڈروں کی قربت سے میں ہمیشہ گریزاں رہا ہوں ۔خبر کے حصول ، کسی خبر پررد عمل جاننے کی حدتک سیاسی لیڈروں س بالخصوص مسلم لیڈروں سے تعلق اورشناسائی رہی ۔کئی مسلم لیڈروں سے مختلف موضوعات بالخصوص اقلیتوں کے مسائل کے حوالے کئی مرتبہ بات چیت ہوتی رہی ۔مگر ایسے بہت ہی کم مسلم لیڈروں کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا جنہیں مغربی بنگال کے مسلمانوں کے مسائل کا ادارک ہو اور اس کے حل کیلئے وہ فکر مند بھی ہوں ۔سلطان احمد مرحوم بھی ان مسلم لیڈروں میںسے تھے جنہیں مغربی بنگال کے مسلمانوں کے مسائل کا نہ صرف ادارک تھا بلکہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل سے باخبر اوران کے ملک کی تما م ملی تنظیمیں کے ذمہ داروں سے تعلقات تھے۔نظریاتی ،فکری اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ان کے ملی تنظیموں سے یکساں تعلقات تھے۔جہاں وہ مسلم پرسنل لا بورڈ سے وابستہ تھے وہیں جمعیۃ علماء ہند، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت،ملی کونسل اور دیگر ملی تنظیموں کے ذمہ داران سے ان کے تعلقات تھے اور ان کی دعوت پر وہ پروگراموں میں شریک بھی ہوتے تھے۔کلکتہ شہر کی حدتک یہ کہا جاسکتا ہے وہ ایک ایسے شجر سایہ دار تھے جن کے سایے میں تمام افراد چاہے وہ کسی بھی نظریہ ،فکر اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں وہ جمع ہوجاتے تھے۔
آزاد ہند وستان میں ایسے مسلم لیڈروں کی گنتی انگلی پر کی جاسکتی ہے جن کی سیاست کے ساتھ ملت سے وابستگی یکساں طور پر رہی ہواور وہ سیاسی جماعت کی وفاداری کے ساتھ ملی کاز اور مسلم مسائل کیلئے آواز بلندکرتے رہے ہوں ۔حال کے دہائیوں میں ممبر پارلیمنٹ و سابق مرکزی وزیر سلطان احمد بھی انہی سیاست دانوں میں سے ایک تھے جو سیاست کے ساتھ ملت اسلامیہ سے نہ صرف ان کا تعلق تھا بلکہ وہ آگے بڑھ کر ملی تنظیموں کی قیادت بھی کرتے تھے۔وہ بہترین منتظم کار، مدبر اور زیرک سیاست داںتھے۔ان کے اچانک انتقال سے مغربی بنگال کی سیاسی ، سماجی اور ملی سطح پر ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس کاپر ہونا مشکل نظر آرہا ہے ۔دوردور تک ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آرہی ہے جو سیاست کے ساتھ ملی مسائل کے حل اور ملی اداروں کی ترقی کیلئے یکساں وقت دے سکے۔
گزشتہ دس سالوں سے میں کلکتہ کی صحافت سے وابستہ ہوں۔میرے سلطان احمد سے تعلق شروعاتی دور میں ہی ہوگئے تھے۔اس درمیان ان سے متعدد مرتبہ سیاسی ، سماجی مسائل پر بات چیت کرنے کا موقع ملا ،کئی مرتبہ میں نے کسی معاملے میں ان کا رد عمل جاننے کیلئے فون کیا اور وہ بلا جھجھک اپنی بات کہدیتے تو کبھی سیاسی مجبوریوں کی خاطر کوئی موقف پیش کرنے سے خوش اسلوبی سے منع کردیتے ۔تو کبھی فون کرکے خود خبردیتے مگر ساتھ ہی یہ کہتے کہ یہ باتیں ان کے حوالے سے نہیں آنی چاہیے۔ایک سال قبل ہی شمالی 24پرگنہ کے حاجی نگر، ماڑواری کل اور آس پاس کے علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔حکومت کی لاپروائیوں کی وجہ سے دنگائیوں نے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کومالی نقصان پہنچایا ۔چوں کہ سلطان احمد کا تعلق حکمراں جماعت ترنمول کانگریس سے تھا ۔چناں چہ وہ اس حوالے سے براہ راست گفتگو کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔مگر وہ چاہتے تھے فسادات کی تفصیلی خبر اخباروں میں آئے تاکہ صحیح صورت حال سے واقفیت ہو اور حکومت پر دبائو بھی بنے۔جب کہ حکمراں جماعت کے کئی مسلم لیڈران نے تو یہ بیان بھی جاری کردیا تھا کہ حالات معمول پر ہیں اور غلطی مسلمانوں کی ہیں مگر سلطان احمد حکومت کی غلطیوں کی پردہ پوشی کے بجائے صحیح اور حقیقی صورت حال عوام کے سامنے لانے کی ذمہ داری مجھ جیسے صحافیوں پر ڈال دی۔انہوں نے اس علاقے کے سرکردہ لوگوں کے نمبرات بھی دیے۔میں یواین آئی ایک خبر بنائی جس کی سرخی تھی’’فرقہ وارانہ فسادات پر ترنمول کانگریس کے مسلم لیڈران آن ریکارڈ تبصرہ کرنے سے گریزاں‘‘ اس خبر میں وہ تمام باتیں جو میری اور سلطان احمد کے ساتھ ہوئی تھی کوایک ’’مسلم ممبر پارلیمنٹ ‘‘کے حوالے لکھ دی ۔اس پر وہ ناراض نہیں ہوئے۔بلکہ انہوں نے ملاقات پر کہا کہ تم نے ’’چالاکی‘‘ کا مظاہرہ کیا۔جولائی میں بشیر ہاٹ میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات پر میری رپورٹنگ پر انہوں نے فون کیا اور کہا کہ خبر میں پوری سچائی کو سامنے لایا گیا ہے۔
مغربی بنگال میں 28فیصدسے زاید مسلمانوں کی آبادی ہے، مگر مسلمان قیادت سے محروم ہیں ، مسلم لیڈران پارٹی قیادت کے چشم آبرو کے غلام ہیں ،کوئی بھی لیڈرپارٹی اعلیٰ کمان کی مرضی کے بغیر لب کشائی کی جرأت تک نہیں کرسکتا ہے۔سیاسی جماعتوں نے ایسانظام بنارکھا ہے جس میں کوئی بھی مسلم لیڈر ابھر نہیں سکتا ہے ۔ بنگالی مسلمان سیاسی چکرویومیں کس طرح پھنسے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کسی بھی سیاسی جماعت چاہے وہ بایاں محاذ ہو،کانگریس ہو یا پھر ترنمول کانگریس کسی بھی پارٹی میں پالیسی ساز کمیٹی میں مسلم لیڈران شامل نہیں ہے۔بیشتر مسلم لیڈران حاشیائی کردار ادا کررہے ہیں ۔سلطان احمد بھی اسی چکرویو کے شکار ہوئے ۔انہیں ترنمول کانگریس میں ابھرنے نہیں دیا گیا۔ جب کہ وہ پارٹی بنیاد گزاروں میں سے ایک تھے ۔مگر اس کے باوجود وہ پارٹی کے پالیسی ساز کمیٹی کا حصہ نہیں تھے۔ گزشتہ سال مسلم پرسنل لا بورڈ کے کلکتہ اجلاس کے کامیاب انعقاد جس کی کامیابی میں سلطان احمد کی جدوجہد اور جانفشانی اور قیادت کا اہم رول تھا کے بعد وہ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کی نگاہوں میں کھٹکنے لگے تھے۔بلکہ اجلاس سے عین قبل پارک سرکس میدان جہاں اجلاس عام ہونا تھا اورحج ہائوس جہاں مجلس عاملہ اور عام ممبران کی میٹنگ ہونی تھی کی بکنگ کو رد کردیا گیا ۔اس کی وجہ سے انہیں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔حکومت کے رویہ سے وہ پریشان بھی ہوئے مگر پوری استقامت کے ساتھ اجلاس کو کامیاب بنایا۔ حالیہ مہینوں میں ممتا بنرجی کا رویہ ان کے ساتھ توہین آمیز بھی ہوگیا تھااور سیاسی گلیاروں میں یہ چرچا تیز ہوگئی تھی سلطان احمد ترنمول کانگریس چھوڑسکتے ہیں ۔گرچہ وزیراعلیٰ ممتابنرجی سلطان احمد کی مو ت پرسیاسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سلطان احمد کو جانچ ایجنسیاں سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ پریشان کررہی تھی اور دل کا دورہ اسی وجہ سے پڑا ۔مگر حقیقت اس سے برعکس ہے۔وزیراعلیٰ نے مسلم مسائل پر سلطان احمد سمیت ترنمول کانگریس سمیت دیگر مسلم لیڈروں کو بیان بازی کرنے سے روک دیا تھا ۔سلطان احمد جن کی سیاست کی بنیاد ہی اقلیت اور مسلم ہوںگر انہیں مسلمانوں کے مسائل پر بات چیت کرنے سے روک دیا جائے اس سے بڑھ کر جان لیوا کیا ہوسکتا ہے ۔وہ اندر سے گھل رہے تھے۔گرچہ وہ زیرک سیاست داں کی طرح اپنے درد کو اپنے چہرے پر عیاں نہیں ہونے دیتے تھے۔مگر آنکھوں کے اشارے وکنایے بہت ساری کہانیاں بیان کردیتی تھی کہ وہ پارٹی قیادت کے رویے سے مایوس ہیں ۔سلطان احمد کی کوششوں کے باوجود ملی الامین کالج جس کے وہ صدر تھے کے اقلیتی کردار کا معاملہ حکومت نے روک دیا تھا۔ترنمول کانگریس کی آرایس ایس نواز لابی ملی الامین کالج کے اقلیتی کردار کی سخت مخالفت تھی ۔جب کہ بایاں محاذ حکومت نے ملی الامین کالج کے اقلیتی کردار کو تسلیم کرلیا تھا۔ایک ایسے لیڈر کا درد کیا ہوسکتا ہے اس کی پارٹی کی حکومت ہومگر وہ اس کے زیر انتظام چلنے والے ادارے کو اس کا جائز حق نہ ملے۔
سلطان احمدکا سیاسی عروج کوئی راتوں و رات نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ان کا تعلق کسی امیرگھرانے یا پھر سیاسی خاندان سے بھی نہیں تھا۔بلکہ وہ غریب خاندان کے چشم و چراغ تھے۔بلکہ ایک محفل میں انہوں نے خود کہا تھاکہ کسی یتیم و غریب کا درد کیا ہوتا ہے اس کا علم ان سے زیادہ کسی کو نہیں ہے ۔انہوں نے یہ مقام جد و جہد اور تحریک کے ذریعہ حاصل کیا تھا مگران کو اس احساس تھا کہ یہ سب عارضی ہے اور ایک نہ ایک دن زوال کا شکار ہونا تھا۔اپنی موت سے چند دن قبل ہی آئی ڈی بی کے اسکالر شپ تقسیم کے پروگرا م میں طلباء سے کہاتھا کہ’’آپ ہی ملک کے مستقبل ہیں،میں جہاں پر آج ہوں،ضروری نہیں ہے کہ کل بھی یہیں پر رہوں گا، بلکہ میں نے بڑے سے بڑے لوگو ں کا عروج دیکھا ہے اور انہیں تنہائی کا شکار ہوتے دیکھا ہے ،اس لیے عہدوں اورترقی پر کبھی بھی ناز نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ایک طرح سے وہ حقیقت پسند ، مردم شناش لیڈر تھے ۔ایک موقع پر انہوں نے مجھے کہا تھا کہ ایک کامیاب انسان کیلئے ضروری ہے وہ یہ طے کرے کہ’’اسے کس سے ملناہے، کیا بات کرنی ہے اور کتنی دیر بات کرنی ہے‘‘۔ ان کی یہ ہمہ جہتی کی سب سے بڑی دلیل تھی کہ کلکتہ کے تمام بڑے مسلم ادارے محمڈن اسپورٹنگ کلب،یتیم خانہ اسلامیہ، اسلامیہ اسپتال، انجمن مفید الاسلام ،ملی الامین کالج اور مسلم انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں کے سربراہ تھے۔ان اداروں کی ترقی کیلئے ان کے پاس مستقل لائحہ عمل اور منصوبہ و پروگرام تھا۔ان کے ہی قیادت میں اسلامیہ اسپتال کی 6منزلہ عمارت کی تعمیر ہورہی ہے جس پر کئی کروڑ روپیہ کا صرفہ ہے۔
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے ، ان کی خواہش تھی کہ گزشتہ چالیس سالہ بنگال کے مسلمانوں کے عروج کی تاریخ مرتب ہونی چاہیے۔ایک طویل نشست میں انہوں نے بہت سی تاریخی اور قابل ذکر باتیں بنگال کی سیاست کے حوالے سے بتائیں تھیں۔بابری مسجد قضیہ سے متعلق انہوں نے ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ سنایا تھا کہ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ذریعہ بابری مسجد میں شیلا نیاس کے بعد مسلمانوں میں شدید ناراضگی تھی۔چوں کہ وہ اس وقت وہ کانگریس میں تھے وزیراعظم کے دفتر نے ان سے رابطہ کیا کہ اور کہا کہ وزیراعظم راجیو گاندھی ملک بھر کے سرکردہ مسلم لیڈروں ، دانشوروں اور صحافیوںسے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔اس لیے آپ کلکتہ و بنگال کے اہم مسلم لیڈروں کے ایک وفد کے ساتھ دہلی آئیں حکومت ہند سارا انتظامات کرے گی۔سلطان احمد نے بتایا کہ انہوں نے کلکتہ کے دو مشہور اور بڑے اخبارات کے ایڈیٹر سے ملاقات کرکے پوراقضیہ بیان کیا ۔کلکتہ کے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹرنے فوری طور پر وزیر اعظم سے ملاقات کیلئے حامی بھردی مگر آزادہند کے سابق ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی نے نہ صرف وزیراعظم سے یہ کہتے ہوئے ملاقات کرنے سے انکار کردیا کہ وہ مسلمانوں کے غیظ و غصب کا شکار نہیں ہونا چاہتے ہیں بلکہ سلطان احمد کو بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی اس کا حصہ نہ بنیں ،سلطان احمد اس و قت کانگریس میں تھے ، چاہتے تو وہ اس کے ذریعہ پارٹی قیادت کی نگاہوں میں محترم بن سکتے تھے مگر انہوں نے ملیح آبادی کے مشورے پر عمل کیا اور وزیراعظم کے دفتر تک یہ پیغام پہنچادیا کہ مسلم دانشور وں میں شدید ناراضگی ہے۔
ان کے نظریہ اور طریقہ کار سے اختلافات ہوسکتے ہیں اور میں بھی کئی اہم معاملات میںا ن کا شدید ناقد رہا ہوں ، کئی مرتبہ میں نے ان کی منشاء کے برخلاف رپورٹنگ کی ہے اور صحافتی ذمہ داری کو اولیت دی جس پر وہ کبھی ناراضگی بھی ظاہر کی مگر معاًاس کے تدارک کیلئے مزاحیہ جملے کہہ کر بات ختم کرنے کی بھی کوشش کی۔چالیس سالہ سیاسی زندگی میں ان سے کئی اہم غلطیاں ہوئیں جس کا انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔مگر یہ ان کی خوبی تھی کہ اپنی غلطیوں کا جلد ہی احساس کرلیتے تھے۔ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ جب انہیں لگاتار انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑرہا تھا تو اس و قت وہ مایوس ہونے کے بجائے اپنا محاسبہ کیا کہ غلطی کہاں ہورہی ہے اور پھر میںنے اپنی غلطیوں کی اصلاح کی۔ سیاست میں عروج وزوال قدرت کا ایک نظام ہے، بڑے سے بڑے سیاسی لیڈروں کو ایک نہ ایک دن تنہائی کا شکارہونا پڑتا ہے۔مگر اس معاملے میں سلطان احمد خو ش نصیب ثابت ہوئے ۔انہوں نے زوال کے ایام یا پھر تنہائی کا دورہ دیکھے بغیر رب حقیقی سے جاملے ۔اللہ ان کی مغفرت کرے اور وہاں بھی انہیں سرخروئی حاصل ہو۔
مضمون نگار یواین آئی اردو سروس کلکتہ سے وابستہ ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *