کچھ تو ہوگا اگر میں بولوں گا!

urdu Media

٭ایک ’’خوف زدہ صحافی ‘‘کے قلم سے
نور اللہ جاوید قاسمی
عام طور پر صحافیوں سے پوچھا جاتا ہے کہ’’ آ پ کے لکھنے سے کیا ہوگا؟‘‘ بالخصوص اردو اخبار ات کے صحافی ،کالم نگاروں اور ایڈیٹرس کو اس طرح کے سوال کا سامنا کرناپڑتا ہے۔گزشتہ دنوں ایک صاحب جو شہر کے ایک تاریخی و قدیم ادارے کے سربراہ ہیں نے مجھ سے بھی طنزیہ لہجے میں یہ سوال پوچھا کہ’ آپ کے لکھنے سے کیا ہوگا‘؟میں نے ان سے پوچھا کہ انگریزی اور بنگلہ کے اخبارات میں لکھنے سے کیا ہوتا ہے ۔تو ان کا جواب تھا حکومت ایکشن لیتی ہے ؟گرچہ ان کے جواب میں صداقت سے کہیں زیادہ ان کی ذہنی پسماندگی اور مادری زبان کے تئیں احساس کمتری کی جھلک رہی تھی ۔تاہم انہوں نے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی تھی کہ’’ اردو اخبارات ‘‘کا دائرہ اثر چائے کی دوکان تک محدود ہے۔گرچہ اب ’چائے کی دوکان‘کوئی کمتر جگہ نہیں رہا کیوں کہ چائے فروخت کرنے کا دعویٰ کرنے والا ملک کا وزیر اعظم ہے ۔چوں کہ جنرل سیکریٹری موصوف نے یہ بات طنزیہ لہجہ میں کہی تھی اس لیے میرے سامنے گردش کرنے لگے ککہ ’جب اردو کا دائرہ کار ’’چائے کی دوکان‘‘ تک محدود ہے ‘تو پھر ہم اردو میں کیوں لکھتے ہیں ، کیوں پڑھتے ہیں اردو اور یہ اردو اخبارات شائع ہوتے ہے کیوں؟یہ سوالات میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑ ہی رہے تھے کہ اچانک ہندی کے ایک مشہور شاعر ساہتیہ اکاڈمی کے ایوارڈ یافتہ رگھو ویر سہائے(1929-1990) میر سامنے آگئے اور اپنی نظم کے یہ چند اشعار
کچھ تو ہوگا اگر میں بولوں گا
نہ ٹوٹے طلسم ستا کا
میرے اندر کا ایک کائر تو ٹوٹے گا
ٹوٹ میر ے من ٹوٹ اب اچھی طرح سے ٹوٹ
جھوٹ موٹ مت رئو
سناکر غائب ہوگئے ۔انہوں نے میری تمام الجھنیں دور کردیں کہ’’ میرے لکھنے اور بولنے سے ستا یعنی صاحب اقتدار کا طلسم نہ ٹوٹے، ان کے خلاف ماحول تیار نہ ہو، عوامی بیداری نہ آئے یہ میری بلا سے،مگرمیرا لکھنا اور بولنا صاحب اقتدار کے طلسم کو توڑنے سے کہیں زیادہ اہم اس لیے ہے کہ مجھے اپنے اندر کی بزدلی ، مصلحت کے نام پر اعلان حق کی ذمہ داری سے فرار اور مداہنت کی عادت کو ختم کرنا ہے ۔اس لیے میں لکھتا ہوں ، بولتا اور سوچتا ہو ں۔مگر ایک سوال آپ (قارئین) سے بھی ہے کہ اگر ہم نے لکھنا ، بولنا اور سوالات پوچھنا ختم کردیا تو آپ کا کیا ہوگا ؟کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟ اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے اور آپ کو سوچے ہوئے کتنی مدت گزرگئی ہے؟۔میرا مقصد آپ کی توہین نہیں ہے ، مگر آپ ذرا غور کیجئے کہ آپ نے آخری مرتبہ کب سوچا تھا ؟ یہ میں اس لیے پوچھ رہاہوں کہ کچھ لوگوں نے آپ کے نام پر سوچنا شروع کردیا ہے اور وہ اپنی سوچ و سمجھ کو آپ کی سمجھ اور سوچ سمجھ بتا کر سیاسی آقائوں کی حاشیہ برداری کے ذریعہ اقتدار کا مزہ خوب لوٹ رہے ہیں ۔اور آپ کے ہاتھ خالی ہیں؟آپ کے نام پر بجٹ میں ہر سال کئی سوکروڑ روپے مختص ہوتے ہیں لیکن آپ کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے ۔’’روشنی ‘‘ تو ہے مگر بے فیض ،یہ روشنی تیرگی کو ختم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔
کیا آپ نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ ہردل عزیز وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں کی فلاح و ترقی کیلئے بجٹ میں کئی سو کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔مگر رپورٹیں بتاتی ہیںکہ اس اضافے کا مسلمانوں کی حالت پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا ہے اور یہ فلاحی اسکیموں نیچے تک نہیں پہنچ سکی ہے ۔دور مت جائیے بنگال اردو اکیڈمی کو ہی دیکھ لیجئے اس کا سالانہ بجٹ پہلے 80لاکھ کے قریب ہوتا تھا جو ممتا دور میں اضافہ ہوکر 13کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے ۔مگر اس کے باوجود اردو بے فیض ہے۔اردو اسکولوں کے معیار میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے؟ اردو اسکولوں کو اساتذہ کی قلت اور کتابوں کی عدم دستیابی کا ایک بڑا مسئلہ در پیش ہے ۔اردو میڈیم اسکولوں کے طلباء سالوں سے مدھیامک اور بارہویں کے امتحانات میں ٹاپ ٹین میں اپنی جگہ نہیں بناپارہے ہیں۔اردو اخبارات، رسائل اور ادارے دم توڑ رہے ہیں؟۔اتنا بڑا بجٹ ہونے کے باوجودردو اکیڈمی کا سہ ماہی رسالہ’’روح ادب‘‘ 14مہینے کے وقفے کے بعد شایع ہوتا ہے اور بچوں کا رسالہ’’ستارہ‘‘ نکلنے سے قبل ہی بند ہوگیا ۔ ؟جب کہ ہمارے ہی شہر میں ’ مژگاں‘، ’ سہیل ‘، ’ انشاء‘ ،’رہروان ادب ‘’سہ ماہی فکر و تحریر‘ اور ’ماہنامہ کھلونا‘ جیسے رسالے ہیں جو مالی قلت کے باوجود شایع ہورہے ہیں اور ان رسالوں نے یادگار نمبر شایع کیے ہیں جس کیلئے پوری اردو برادری احسان مند ہے ۔مگر اکیڈمی کے پاس فنڈ کی بہتات کے باوجود رسائل اور مجلوں کی مدد کرنے کو روادار نہیں ہے۔جب کہ محفل مشاعرہ ، غزل ، موسیقی کے نام پرلاکھوں نہیں کروڑوں روپے پھونکے جارہے ہیں اور اس پر یہ فخر کیا جارہا ہے کہ ہم تو کچھ کررہے ہیں ۔
چوں کہ ہم نے لکھنا ، بولنا اور سوچنا بند کردیا ہے ؟اس لیے ہم اور آپ کے نام پر سوچنے والوں کا یہ گروہ اس زعم و گمان میں مبتلا ہوچکا ہے کہ کوئی ان کے خلاف نہ بول سکتا ہے اور نہ لکھ سکتا ہے ۔اور اگر کوئی لکھے گا بھی تو اسے ڈرا دیا جائے گا اور اگر وہ نہ ڈرے تو سماج میں اس کا ناطقہ بند کردیا جائے گا اور یہ ایسا اس لیے ہوگا کیوں کہ ہم سب نے خاموشی کی دبیز چادر اوڑھ لی ہے ۔اور ہمارے شکست خوردہ جذبات کی تسکین کیلئے ’’عمران پرتاپ گڑھی جیسے شاعر کم مقرر‘‘ ولولہ انگیز اشعار کی محفلیں سجادی جائیں گی اور آپ بھی آسودہ ہوجائیں گے کہ کوئی ہے جو مودی ، توگڑیا، نہ جانے کون کون کو برا بھلا کہہ رہا ہیے۔باقی رہے نام اللہ کا۔مگر آپ نے کبھی غور کیا کہ اکیڈمی کا مقصد ہمارے جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کرنا ہے یااردو زبان کا فروغ۔اب شنید ہے کہ شہر کے ایک مشہور تاریخی ادارہ مسلم انسٹی ٹیوٹ جس کا مقصد مسلمانوں میں تعلیمی ، سماجی اورمعاشی بیداری لانی ہے کو اردو اکیڈمی نے محفل غزل ، و مشاعرہ جیسے پروگرام کیلئے کئی لاکھ روپے اسپانسر کیے ہیں ۔اس پر کتنا خرچ ہوگا اور اکیڈمی سے بڑی رقم حاصل کرنے کیلئے کیا منصوبے بنائے گئے اور کیا پروجیکٹ سامنے آئے اور رد ہوئے اس کی طویل کہانی ہے۔اس کے ذکر کا یہ محل نہیں لیکن اب ذرا اس عالمی مشاعرے کے انعقاد کی وقت پر غور کیجئے کہ 6دسمبر جو ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور جس دن آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کرانتہا پسندوں نے بابری مسجد کو شہیدکرکے ہندوستان کے سیکولر وجمہوری امیج پر قیادت کیلئے بدنما داغ لگادیا کی رات یعنی 5دسمبر کا دن گزار کر اس عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔ بابری مسجد کے غم میں 15 سے 20لاکھ روپے پھونک دیے جائیں گے۔یقینا مستقبل کا مورخ ضرور اس لمحے کو فراموش نہیں کرے گا کہ جب ہندوستان کا سیکولر طبقہ سانحہ بابری مسجد پر ملک بھر میں سمینار ،ا حتجاج اور پروگراموں کا انعقاد میں مصرف تھا تو کلکتہ کے مسلمان مشاعرے کا لطف اٹھارہے تھے۔ جب آنے والی نسل اس تاریخ کو پڑھے گی تو ان کے دل و دماغ میں ہمارے تئیں کیا نقش ثبت ہوں گے؟۔ کہا جارہا ہے کہ جو لوگ کچھ نہیں کرتے ہیں وہ بولتے ہیں ، لکھتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں – سوال یہ ہے کہ اگریہی کرنا ہے تو اچھا ہے کہ کچھ نہ کیا جائے۔
ایک اور آخری سوال کیا آپ کو یہ سب پڑھ کر غصہ نہیں آیا ؟۔ذرا غور کیجئے ہمیں غصہ کب کب آتاہے ۔ہم اور آپ کو معمولی معمولی باتوں پر چراغ پا ہونے کی عادت ہے تو اس پر غصہ کیوں نہیں آرہا ہے ؟ اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ آپ کو غصہ آرہا ہے ؟ مجھے امید ہے کہ آپ غصے میں ہی ہیں تو آپ کو بولنا ہوگا ، انہیں بتانا ہوگا کہ یہ ہماری ترجیحات نہیں ہیں ہماری ترجیحات تعلیم و سماجی بیداری ہے ۔آپ کو بتانا ہوگا کہ یہ فنڈ کسی کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ ہمارے ٹیکس کے روپے ہیں جو ہمارے لیے آئے ہیں اور یہ ہمارے اوپر ہی خرچ ہونا چاہیے کہ نہ کہ بریانی اور قورمہ کھانے پر لٹا دیے جائیں۔آپ کو بتانا ہوگا کہ ہم سوال پوچھ کر کسی ادارے کی عظمت اور وقار کو مجروح نہیں کررہے ہیں بلکہ افراد کی غلطیوں اور ان کی ناسمجھی سے اداروں کو برباد ہونے سے بچارہے ہیں۔کیا آپ نے سوچا ہے کہ سماج و معاشرہ میں ہرتیسرا فرد مودی، ٹرمپ ، توگڑیا ، یوگی ، جوگی کو برا بھلا کہتے ہوئے مل جائے گا مگر ہے کوئی اپنوں کی غلط روش کے خلاف آواز بلند کرسکے ۔اصل جہاد تو گھر سے شروع ہوتا ہے مگر ہم اس معاملے میں بھی ناکام ہیں ۔
میں کیوں بول رہا ہوں اور کیوں لکھ رہا ہوں ؟ اس کا جوب مجھے مل گیا ہے؟ مگرآپ ذرا سوچئے اگر میری آواز خاموش کردی جائے، میں خوف زدہ ہوجائوں ، دوستوں اور ہمدردوں کے مشورے پر کنارہ کشی اختیار کرلوں تو کیا ہوگا ؟یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ جس سماج میں صحافی ، قلم کار اور ادیب حق کی آواز بلند کرنے سے خوف زدہ ہوجائیں تو وہ سماج کبھی بھی سیدھی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا ہے۔ سوچنا کوئی آوٹ سورسیس نہیں ہے اس لیے سوچئے قبل اس کہ آپ کیلئے کوئی بولنے والانہ بچے ۔مشہور شاعر مارٹن نیمولر‘‘ ایک نظم’’جب وہ آپ کیلئے آئیں گے تو آپ کیلئے بولنے والا کوئی نہیں ہوگا‘‘۔ کے عنوان سے آپ کیلئے لکھ کر گئے ہیں اسے ضرور پڑھیے کا!
First they came for the Socialists, and I did not speak out—
Because I was not a Socialist.
Then they came for the Trade Unionists, and I did not speak out—
Because I was not a Trade Unionist.
Then they came for the Jews, and I did not speak out—
Because I was not a Jew.
Then they came for me—and there was no one left to speak for me
این قاسمی
٭مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *