عام بجٹ 19-2018 میں دیہی ترقی کے شعبے کے لئے بڑے اقدامات اور اعلانات

نئی دہلی،یکم فروری2018؍دیہی ترقی کا محکمہ ، دیہی غریب گھرانوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے مستقل طورپر کوشاں ہے۔ 13-2012 میں 50162 کروڑ روپے کے مختص کردہ بجٹ کو بڑھا کر 18-2017 میں اسے 109042.45 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔علاوہ ازیں پی ایم جی ایس وائی اور پی ایم اے وائی (جی) میں اعلیٰ فائننس کمیشن کی گرانٹ اور ریاستوں کی بڑی حصے داری بھی 18-2017 میں ڈی او آر ڈی کے پروگراموں کے لئے دستیاب تھی۔ یہ سب ملا کر کے 13-2012 میں دستیاب کل فنڈ کے مقابلے تقریباً 3 گنا کا اضافہ ہوا ہے۔بجٹ میں اضافے کے علاوہ دیہی ترقی کے محکمہ نے سماجی ، معاشی ،ذات پات پر مبنی مردم شماری-2011(ایس ای سی سی -2011) ، آئی ٹی، ڈی بی ٹی ادائیگی کا نظام، لین دین پر مبنی پروگرام، ایم آئی ایس ایس کا استعمال کرکے شفافیت کو فروغ دینے کے لئے دور رس حکومتی اصلاحات کی ہیں۔
پی ایم جی ایس وائی کا مقصد میدانی علاقوں کی 500 آبادی اور پہاڑی علاقوں کی 250 آبادی کے 178184 باشندوں کو ہر ایک موسم میں سڑک رابطہ کاری فراہم کرنا ہے۔مارچ 2014 تک 97838 باشندوں (55 فیصد) کو جوڑا گیا ہے۔ان دنوں پی ایم جی ایس وائی کے تحت 130947 باشندے جڑے ہوئے ہیں اور دیگر 14620 باشندے ریاستی حکومتوں کے پروگراموں کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔17-2016 میں روزانہ 130 کلو میٹر کی رفتار سے کل 47447 کلو میٹر سڑکوں کی تعمیر کی گئی تھی۔18-2017 میں یومیہ 140 کلومیٹر کی رفتار سے 51000 کلو میٹر سڑکوں کی تعمیر کے لئے کوششیں کی جارہیں ہیں۔
زرعی مارکیٹ(منڈیوں) کے لئے اچھی چوڑی سڑکوں کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے ہم دیہی سڑک نیٹ ورک کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں موجودہ منتخب دیہی سڑکوں کو اپگریڈ کرنا ہوگا۔اس سے دوسرے مرحلے کو مزید مضبوطی ملے گی، جو کہ پہلے سے ہی زیر تکمیل ہے۔ پی ایم جی ایس وائی III-کے طورپر ایک لاکھ 10 ہزار کلومیٹر کو اپگریڈ کئے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ایسا کہنے کرنے کے لئے2022 تک مرکزی حکومت سے 19 ہزار کروڑ روپے سالانہ فنڈنگ تعاون لی جائے گی۔نیو انڈیا 2022 سے متعلق وزیر اعظم کا جو خواب ہے اس کی تکمیل کے لئے رابطہ کاری کی ضرورت ہے اور اسی طرح سے سڑکوں کو مضبوط بنانے کی بھی ضرورت ہے ، تاکہ بازاروں سے جڑا جا سکے اور جس سے کہ کسان بازاروں سے فائدہ اٹھا سکیں۔
سڑکوں کے بہتر رکھ رکھاؤ اور تمام سڑکوں کی جی آئی ایس میپنگ کا احساس کرتے ہوئے تیسرے مرحلے کیلئے ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام خطوں کی اہلیت کے واسطے ، تمام سڑکوں کی جی آئی ایس میپنگ مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک زبردست رکھ رکھاؤ پالیسی اور فنڈنگ کو یقینی بناناہوگا۔ انہیں پی ایم جی ایس وائی سڑکوں کے اعلیٰ معیار کے رکھ رکھاؤ کو یقینی بنانا تھا۔ تمام پی ایم جی ایس اوئی سڑکوں میں سے 15 فیصد سڑکوں پر اب اختراعی گرین ٹیکنالوجی مثلاً بیکار پلاسٹک ، جیوٹیکسٹائلز ، فلائی ایش ، آئرن اور کاپر سلیگ اور کولڈ مکس کا استعمال کیاجارہا ہے۔ اس سے نہ صرف تعمیر کی لاگت میں کمی آئے گی بلکہ مقامی اور ردی سامان کے استعمال کو بھی فروغ ملے گا ۔ جس سے کاربن کے اخراج میں کمی آئے گی۔
روزگار کو گوناگونیت دینے کیلئے دین دیال انتودے یوجنا نیشنل رورل روزگار مشن کے تحت کامیابی کےساتھ ایس ایچ جی ایس کے دائرہ کار میں4.5 کروڑ سے زیادہ خواتین کو لایا گیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں صلاحیت سازی اور ہنرمندی کی تربیت کے ذریعے اقتصادی کاموں کیلئےبینک رابطوں کو کافی توسیع دی گئی۔ 15-2014 میں بینک رابطوں کے ذریعے 23953 کروڑ روپئے کے قرض دیے گئے ۔ اس وقت بقایا قرضے کی رقم تقریباً 60000 کروڑ روپئے ہے۔ شمالی مشرقی اور شمال مشرقی ریاستوں میں خواتین کے اپنی مدد آپ گروپ مختلف قسم کے روزگار اختیار کررہے ہیں جیسا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں جنوبی ریاستوں میں دیکھا گیا ہے۔ اس سے غریب گھروں کو پیداواری اثاثوں اور آمدنی میں اضافہ کے ذریعے غریبی دائرے سے باہر نکلنے میں مدد ملی ہے۔
32لاکھ سے زائد خواتین کاشتکاروں پر کام جاری ہے تاکہ انہیں ہمہ گیر پیمانے پر زرعی امور میں ترقی کے ساتھ آگے بڑھایا جاسکے اور ایک ہزار نامیاتی کلسٹر قائم کئے جاسکیں۔ڈی اے وائی ۔ این آر ایل ایم اور ایم جی این آر ای جی ایس زراعت کی وزارت کے ساتھ مل کر ان خواتین سیلف ہیلپ گروپوں کو منڈی بنیادی ڈھانچہ فراہم کرسکیں اور پروڈیوسر گروپوں اور پروڈیوسر کمپنیوں کے لئے بھی ایسی ہی سہولت فراہم کرسکیں۔
ایم جی این آر ای جی ایس نے ضرورت کے وقت سماجی بیمہ فراہم کار کا رول ادا کیا ہے۔ اجرت پر مبنی روزگار کے لئے وسائل موثر طور پر گزشتہ تین برسوں کے دوران غریب کنبوں کے لیے روزی روٹی کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے بروئے کار لائے جاچکے ہیں اور ان کا استعمال موسمیاتی تقاضوں کے مطابق زراعت کو فروغ دینے اور موثر آبی انتظام، جنگل بانی اور اثاثہ ترقیات کے لئے بھی کیا گیا ہے۔ اس مدت کے دوران 10لاکھ سے زائد فارم تالاب اور 6.7 لاکھ سے زائد کمپوسٹ کے گڈّھے پہلے ہی مکمل کئے جاچکے ہیں اور 1.6 لاکھ رقیق وسائل انتظام سوختہ گڈّھے اور ٹھوس وسائل انتظام ریاستوں بھر میں فراہم کرائے جاچکے ہیں۔ ایم جی این آر ای جی ایس وسائل کا استعمال پی ایم اے وائی (جی) کے ساتھ 90/95 دنوں کا کام فراہم کرانے کے لئے کیا گیا ہے اور 12000 روپے سووچھ بھارت مشن یا ایم جی این آر ای جی ایس کے لئے ہر ایک کنبے کو بیت الخلا تعمیر کرنے کی غرض سے اور نادار افراد کے لئے نئے گھروں کے تعمیر کے لئے فراہم کرائے گئے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران 71.50 لاکھ مکانات پہلےہی مکمل کئے جاچکے ہیں جن میں 17.83 لاکھ پی ایم اے وائی (جی) مکانات شامل ہیں۔ دیگر 33 پی ایم اے وائی (جی) مکانات کے 31 مارچ 2018 تک مکمل ہوجانے کی توقع ہے کیونکہ یہ مکانات پہلے سے ہی تعمیر کے حتمی مراحل میں ہیں۔ ایم جی این آر ای جی ایس کا استعمال روزی روٹی کے وسائل کو فروغ دینے کے ایک ذریعے کے طور پر بھی کیا گیا ہے اور اس کے تحت بڑی تعداد میں انفرادی استفادہ کنندگان سے متعلق اسکیمیں مثلاً کھیتوں کے درمیان تالاب، آبپاشی کے کنویں، بکریوں کے شیڈ، ڈیری کے شیڈ، پولٹری یعنی مرغی بطخن پالنے کے شیڈ وغیرہ فراہم کرائے گئے ہیں تاکہ غریب کنبے ان وسائل کا استعمال کرسکیں۔دیہی ترقیات کے محکمے کو توقع ہے کہ وہ اپنے اس عمل کو جاری رکھے گا اور اسی کے توسط سے 2022 تک نئے انڈیا میں غربت کا خاتمہ ہوگا۔ اس کے لئے روزی روٹی میں گونا گونی اور بہتر بنیادی ڈھانچہ فراہم کرایا جائے گا۔ محکمے نے پہلے ہی 50 ہزار گرام پنچایتوں پر احاطہ کرنے والے پانچ ہزار کلسٹروں پر کام شروع کردیا ہے۔ یہ کام ریاستی حکومتوں کے تعاون و اشتراک سے شروع کیا گیا ہے تاکہ غریبی کے تمام زاویوں کے مسائل کو حل کیا جاسکے۔ دیہی ترقیات کے محکمے نے ڈی ڈی یو جی کے وائی اور دیہی خود روزگار تربیتی اداروں (آر ایس ای ٹی آئی) کے توسط سے خود روزگار کو بڑھاوا دینے کے لئے اجرت روزگار اور ہنرمندی کو فروغ دینے کا کام شروع کررکھا ہے اور ہر سال سات لاکھ نادار کنبوں کو اس کے فوائد حاصل ہورہے ہیں۔ نادار کنبوں کو ہنرمندی کے لحاظ سے آراستہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی اور ان کا استعمال اسکل انڈیا اقدامات کے توسط سے زیادہ موثر طریقے سے ڈی ڈی یو جی کے وائی اور آر ایس ای ٹی وائی کے پروگراموں کے بہتر نفاذ کے ذریعہ آگے بڑھایا جائے گا۔
گزشتہ بجٹ میں مشن انتودیہ سے متعلق اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت ایک کروڑ کنبوں کو 50 ہزار گرام پنچایتوں میں ناداری سے نجات دلانا تھا۔ دیہی ترقیات کے محکمے نے ان گرام پنچایتوں کی درجہ بندی کی ہے جن کو ریاستی حکومتوں نے بامقصد طور پر منتخب کیا ہے۔ بنیادی ڈھانچے سے متعلق فاصلے۔ انسانی ترقیات اور اقتصادی پیمانوں کی شناخت کی جاچکی ہے اور ہماری حکومت نے ان فاصلوں کو مٹانے کا عہد کررکھا ہے اور غریب ترین کنبوں کی زندگیوں میں ایک واضح فرق لانا چاہتی ہے۔
300نیم شہری کلسٹروں کو ترقی دینے کی کوشش اور تقریباً 1200 سانسد آدرش گرام پنچایتوں کا قیام بھی مشن انتودیہ کے تحت شامل ہے۔ 8000 سے زائد مشن انتودیہ گرام پنچایتیں 115 توقعاتی اضلاع کے تحت آتی ہیں۔ ان گرام پنچایتوں میں روزی روٹی کے ذرائع میں گونا گونی پیدا کرکے انہیں تیزی سے ترقی دینے کی تمام تر کوششیں کی جائیں گی۔ مہیلا کسان سشکتی کرن پری یوجنا (ایم کے ایس پی) کے تحت 32 لاکھ سے زائد خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ اراکین ہمہ گیر زراعت کا راستہ اپنا رہی ہیں۔ بھارتی زراعت کی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے ایسے جغرافیائی علاقوں کی ترقی جنہیں نامیات کی سند حاصل ہے، بہت اہم ہے اور اپنے خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ کے ذریعہ مشن انتودیہ کے تحت قائم کئے جانے والے کلسٹر کم از کم ایک ہزار کلسٹر قائم کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ آبی تحفظ کے سلسلے میں ہمہ گیر زراعت کا راستہ ہموار ہوسکے اور ٹھوس اور رقیق فضلہ انتظام جس کا تعلق نامیابی کمپوسٹ سے ہے اور جس کا استعمال نامیاتی کاشتکاری میں کیا جاتا ہے، ہنر مندی ترقیات، بینکنگ رابطے، روزی روٹی، بنیادی ڈھابچہ سہولتیں وغیرہ تمام امور اس کے تحت شامل ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *