نظام زکٰوۃ اور ہندوستان میں سماجی ترقی

سید سعادت اللہ حسینی تقریر کرتے ہوئے جبکہ اسٹیج پر ایچ عبد الرقیب کو دیکھا جا سکتا ہے
سید سعادت اللہ حسینی تقریر کرتے ہوئے جبکہ اسٹیج پر ایچ عبد الرقیب کو دیکھا جا سکتا ہے

سید سعادت اللہ حسینی

(۲۸ اپریل کو کوچین میں بین الاقوامی زکوۃ کانفرنس میں پیش کیا گیا کلیدی خطبہ)

اس مقالہ میں ہندوستان کے سماجی و معاشی منظر نامہ کے حوالہ سے زکوۃ کے معاشیاتی پہلو کو زیر بحث لایا جائے گا۔ پہلے حصہ میں میری کوشش ہوگی کہ یہ ثابت کیا جائے کہ زکوۃ ایک طاقتور معاشی آلہ ہے اور زکوۃ یا زکوۃ کی طرح کا کوئی نظام پورے ملک میں نافذ ہو تو غربت و افلاس کا آسانی سے خاتمہ ممکن ہے۔ اسلامی نظام کی بنیاد اسلامی عقائد ہیں۔ لیکن اس نظام کا ہر پہلو بہت سی برکتوں کا حامل ہے۔ ان تٖفصیلات کو اہل ملک کے سامنے لانا اور اسلام کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

مقالہ کے دوسرے حصہ میں ہندوستانی مسلمانوں کے احوال کے حوالہ سے زکوۃ کی معنویت اور تیسرے حصہ میں نظام زکوۃ کے قیام کے سلسلہ میں کچھ عملی تجاویز پیش کی جائیں گی۔ ان شاء اللہ

زکوۃ کے مقاصد

زکوۃ کا اصل مقصد قرب خداوندی اور پاکی کا حصول ہے۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ[i](آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے)

زکوۃ  سے ادا کرنے والے کا دل ،دولت کی بیجا محبت اور حرص و طمع جیسی برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔ یہ پاکی تزکیہ نفس کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ زکوۃ سے مال بھی پاک ہوتا ہے۔ کسب معاش کے دوران نادانستہ طور پر ہمارے مال میں ناپاک اجزا شامل ہوسکتے ہیں۔اور ہمارا مال حرام اجزا کی آمیزش سے آلودہ ہوسکتا ہے۔زکوۃ سے ایسی نادانستہ آلائشوں سے ہمارا مال پاک ہوجاتا ہے۔

چونکہ میرے عنوان کا تعلق زکوۃ کے سماجی و معاشی پہلووں سے ہے اس لئے  اس کے اس بنیادی روحانی مقصد پر زیادہ تفصیل میں گئے بغیر میں زکوۃ کے اس مقصد کو زیر بحث لانا چاہوں گا کہ یہ سماج میں معاشی عدل کے قیام کا ایک اہم ذریعہ ہے۔اسلام کے تمام ہی ارکان روحانی مقاصد کے ساتھ ساتھ دنیوی حسنات اور فائدوں سے بھی مالامال ہیں اور اس حقیقت کے مظاہر ہیں کہ اسلام میں روحانی ارتقا اور دنیا میں کامیابی اور عدل  کے حصول کے تقاضے ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں بلکہ پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔اسلام کا ہر حکم فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنہ کے حصول کا ذریعہ ہے۔

چنانچہ قرآن مجید نے جہاں زکوۃ کو نفس کی پاکیزگی اور قرب خداوندی کا ذریعہ قرار دیا ہے وہیں یہ بھی کہا ہے کہ زکوۃ  بالآخر مال میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُون  .[ii]  (وہ سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں)

 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ زکوۃ کے ذریعہ آخرت میں ہمارے خزائن بڑھتے ہیں ۔ اور مومن کے لئے اصل متاع، آخرت کا توشہ ہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس میں یہ معنی بھی یقیناً شامل ہیں کہ زکوۃ دنیا میں بھی خیر و برکت کا ذریعہ ہے اور اس سے سماج کی مجموعی دولت بھی بڑھتی ہے۔

قرآن نے ایک جگہ اپنی مالیاتی پالیسیوں کا مقصد بتاتے ہوئے کہا ہے۔

كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ [iii](تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے) یہ مقصد زکوۃ کا بھی ہے، جیسا کہ ایک صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا۔

ِانَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ

بے شک اللہ تعالی نے ان کے مالوں پر صدقہ (یعنی زکوۃ) فرض کیا ہے  جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں کو لوٹائی جائے گی۔[iv].

یہ زکوۃ کے مقاصد میں شامل ہے کہ سماج کے غریب اور محروم طبقات کو معاشی لحاظ سے اوپر اٹھایا جائے اور انہیں مناسب معیار کی زندگی گذارنے کے لائق بنایا جائے۔زکوۃ کے نظام کا نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ غریبوں کی زندگیوں میں تبدیلی واقع ہو۔

علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں۔

’’زکوۃ اس کا نام نہیں ہے کہ  فقیروں کو چند روپیے تھمادیئے جائیں۔ زکوۃ کا مقصد یہ ہے کہ لینے والا اسےلے کر خود کفیل ہوجائے اور  معیاری زندگی بسر کرنے کے لائق ہوجائے‘‘۔ [v]

ہندوستان میں غربت و عدم مساوات کی صورت حال

غربت کی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غربت کی سطح کیا ہے۔یعنی آمدنی یا وسائل کی وہ کم سے کم مقدار کیا ہے جس سے کم کا مالک ہونے والا غریب کہلایا جاسکے؟ ملک میں اور دنیا میں سطح غربت کی کئی تعریفین موجود ہیں۔سطح غربت کے بارے میں اسلام کا اپنا تصور بھی ہے۔ اسلام کے نزدیک ہر وہ شخص غریب ہے جو صاحب نصاب نہیں ہے [vi]۔اور اس کی مدد زکوۃ کے ذریعہ کی جانی چاہیے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے نصاب کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ وہ ضروری اثاثہ ہے جس کے ذریعہ ایک چھوٹے خاندان کے سال بھر کے ضروری اخراجات کی تکمیل ہوسکتی ہے[vii]۔ اس  لئے اتنا مال موجود نہیں ہے تو وہ غریب ہے۔ اس طرح نصاب زکوۃ سے اسلام کی سطح غربت کا تعین ہوجاتا ہے۔ لیکن ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس بنیاد پر غریبوں کی تعداد کا اندازہ لگا سکیں۔ اس لئے غربت کے تجزیہ کے لئے ہم دیگر رائج پیمانوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔

اگر ہم رگھو راجن کمیٹی کے پیمانہ کو بنیاد بنائیں ، تو ہمارے ملک میں تقریبا 36.3کروڑ لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گذاررہے ہیں۔ سب سے بڑی تعدا د اتر پردیش میں (آٹھ کروڑ) ہے اس کے بعد بہار (ساڑھے چار کروڑ)، مدھیہ پردیش (ساڑھے تین کروڑ) اور مغربی بنگال ( تقریبا تین کروڑ) کا نمبر آتا ہے۔36.3کروڑ غریبوں میں 26.2کروڑ غریب ، دیہی آبادی سے متعلق ہیں جب کہ بقیہ باقی دس کروڑ شہری غریب ہیں۔.[viii]

غریبی کا خاتمہ کئی محاذوں پر طویل المیعاد کوششوں کا تقاضا کرتا ہے۔میکنسی گلوبل انسٹی ٹیوٹ McKinsey Global Institute (MGI) نے اپنی مشہور رپورٹ میں  امپاورمنٹ لائن کا تصور پیش کیا ہے۔ یہ، یعنی امپاورمنٹ لائن، سطح غربتPoverty Line سے مختلف اور اس سے کافی اوپر ہے۔ یہ اخراجات پر مبنی سطح ہے جس میں آٹھ بنیادی انسانی ضرورتوں کے حوالہ سے کم سے کم معیار کی زندگی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔[ix].میکنسی  نے ملک کے غریبوں کو امپاورمنٹ کی سطح تک بلند کرنے کے لئے چار نکاتی پروگرام تجویز کیا ہے۔

میکنسی کے مطابق  امپاورمنٹ گیپ تقریبا تین لاکھ بتیس ہزار کروڑ روپیوں کا  (۶۹ بلین امریکی ڈالر)ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے غریبوں کے موجودہ  مجموعی اخراجات میں اور امپاورمنٹ لائن کے مطابق ضروری اخراجات میں اتنی رقم کا فرق ہے۔یہ واضح رہے کہ غریبی کا گیپ (یعنی ملک کے تمام غریبوں کو سطح غربت سے اوپر اٹھانے کے لئے درکار رقم ) تقریبا دس بلین امریکی ڈالر ہے۔زکٰوۃ کے ممکنہ اثرات کا اندازہ کرنے کے لئے ہم آئندہ انہی دونوں تخمینوں کا استعمال کریں گے۔ یعنی  ۶۹بلین امریکی ڈالر کا امپاورمنٹ گیپ جس کے ذریعہ غریبوں کو کم سے کم معیار کی خوشحال زندگی تک لایا جاسکتا ہے اور دس بلین امریکی ڈالر کاغریبی گیپ جس کے ذریعہ ان کو کم سے کم غریبی کی سطح سے اوپر اٹھایا جاسکتا ہے۔[x]

ہمار ے ملک میں غریبی، قلت وسائل  کا نتیجہ نہیں ہے ۔ یہ اصلاً وسائل کی مناسب تقسیم کے نظام میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں معاشی ترقی کے نتیجہ میں غربت میں بھاری گراوٹ آئی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوسکا۔کئی سالوں سے ہمارا ملک بہت اچھی رفتار سے معاشی  ترقی  کررہا ہے۔لیکن اس کے باوجود معاشی عدم مساوات میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے۔ کریڈٹ سوئس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق  ملک کے ایک فیصد امیر ترین لوگ اس وقت تقریبا 58.7فیصد دولت پر قابض ہیں۔امیرترین ایک فیصد آبادی کا حصہ گذشتہ سال ترپن فیصد تھا ۔ یعنی ایک سال میں ان کے حصہ میں چھ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ امیر ترین دس فیصد آبادی ،ملک کی دولت کے اسی فیصد حصہ پر قابض ہے۔ اس کے بالمقابل ملک کی  پچاس فیصد غریب تر آبادی یعنی ساٹھ کروڑ لوگوں کے پاس ملک کی دولت کا صرف دو فیصد حصہ ہے۔ معاشی نابرابری کے اعتبار سے ہمار املک دنیا کو دوسرا بدترین ملک ہے۔.[xi]

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک میں غربت اصلاً نابرابری کی وجہ سے ہے۔اگر دولت امیروں سے غریبوں کو منتقل ہونے لگے تو غربت کا مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔ یہ کام کیسے ہو؟ ملک میں ہورہی معاشی ترقی کے ثمرات غریب آدمی تک کیسے پہنچیں ، یہ سوال پالیسی سازوں، ماہرین معاشیات، اور محققین کے سامنے اہم سوال ہے۔ حالیہ ورلڈ اکنامک فورم میں بھی یہ سوال چھایا رہا۔ .[xii] ہمارا معروضہ یہ ہے کہ زکوۃ کا نظام اس پیچیدہ سوال کا موثر جواب ہے اورہمیں اہل ملک کے سامنے اسلام کے معاشی نظام کے اس اہم ستون کی برکتوں کو مدلل طریقہ سےسامنے لانا چاہیے۔

نظام زکوٰۃ اور ازالہ غربت کے لئے درکار مالیہ

دنیا بھر میں عام طور پر، آمدنی پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔اسلام نے اس عام رجحان کے خلاف  زکوٰۃ اثاثوں پر عائد کی ہے۔کسی فرد یا کمپنی کے جملہ اثاثوں پر ڈھائی فیصد سالانہ کی شرح سے زکوٰۃ  عائد ہوتی ہے۔اس  کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ  ازالہ غربت اور دیگرمدات زکوٰۃ کے لئے بھاری رقومات حاصل ہوجاتی ہیں۔

زکوۃ کا نظام غریبوں (اور بعض دیگر مدات زکوۃ) کے لئے کتنی بھاری رقم جمع کرسکتا ہے اس کا اندازہ کرنے کے لئے  صرف ہمارے ملک کے گھروں میں موجود سونے کے ذخائر پر نظر ڈالنا کافی ہوگا۔ ورلڈ گولڈ کونسل، سونے سے متعلق معاملات پر نطر رکھنے والا ایک موقر عالمی ادارہ ہے۔ اس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق  ہمارے ملک میں گھروں میں تقریبا چوبیس ہزار ٹن سونا لوگوں نے جمع کرکے رکھا ہوا ہے۔[xiii].سونے کی موجودہ قیمت کے مطابق ان ذخائر کی مجموعی قیمت 1077بلین ڈالر (۷۲ لاکھ کروڑ روپیے) ہوتی ہے۔ اگر زکوٰۃ کا نظام ہوتا تو  صرف  سونے پر سالانہ ۲۷ بلین ڈالر زکٰوۃ جمع ہوتی ۔ یہ رقم غریبی کے گیپ کے متذکرہ تخمینہ سے کئی گنا بڑی رقم ہے اور امپاورمنٹ گیپ کے تخمینہ سے زیادہ دور نہیں ہے۔

ہمارے ملک میں لوگوں کی جمع شدہ رقموں کا اندازہ تقریبا  چار سو بلین ڈالر کا ہے[xiv] ۔اس  کی زکوٰۃ دس بلین ڈالر کی ہوتی ہے۔ یہ بھی  غریبی کے گیپ کے برابر ہے۔

اگر آپ کمپنیوں کے اثاثوں کا شمار کرنے لگیں  تو صرف ملک کی دس بڑی کمپنیوں کی زکٰوۃ  چودہ بلین ڈالر ہوگی[xv],۔ اس طرح یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ زکوٰۃ کا نظام راست طریقوں سے صرف ایک سال کے اندر ملک سے  غربت کے خاتمہ کی صلاحیت رکھتا ہے۔

زکوۃ سرمایہ کاری اور روزگار میں اضافہ کا موثر ذریعہ

اوپر کے پیراگراف میں ہم نے زکوۃ کے راست فائدہ کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زکوۃ کئی بالواسطہ طریقوںIndirect Methods سے بھی غریبوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ، زکوۃ اثاثوں پر عائد ہوتی ہے۔ متوسط درجہ کے لوگ تھوڑا بہت سونا اور دیگر اثاثے رکھتے ہیں اور اپنی تنخواہوں سے زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ انہیں اس دباو کا اندازہ نہیں ہوتا جو زکوۃ نہایت مالدار اور بڑے بڑے اثاثوں کے مالکین پر ڈالتی ہے۔  وہ انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کو کبھی بیکار نہ رکھیں اور ہمیشہ ان کا پیداروار ی Productiveاستعمال کریں۔

روزگار کی کمی اور غربت کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ  جو دولت اور اثاثے سماج میں معاشی سرگرمی اور پیداوار کا ذریعہ بن سکتے تھے وہ ذخیرہ اندوزی کی شکل میں بے کارپڑے رہتے ہیں۔اس کے نتیجہ میں ملک میں موجود دولت پوری طرح روزگار کی افزائش کے لئے اور معاشی سرگرمی کے لئے استعمال نہیں ہوپاتی۔ زکوۃ ، ایسا ہونے نہیں دیتی۔ چونکہ زکوۃ ، آمدنی پر عائد نہیں ہوتی بلکہ اثاثوں پر عائد ہوتی ہے اس لئے اثاثوں سے آپ دولت کمائیں یا نہ کمائیں، ہر حالت میں ڈھائی فیصد مالیت زکوۃ  میں ادا کرنئ ہوتی ہے۔ اگر کوئی اپنے مال کوبے کار رکھتا ہے تو سال بہ سال زکوۃ کی ادائیگی کی وجہ سے اس میں کمی ہونے لگتی ہے۔ اگر ایک کروڑ روپیے بے کارگھر میں رہیں تو سالانہ ڈھائی لاکھ  روپیےزکٰوۃ کی ادائیگی  کی وجہ سے ستائیس سال میں وہ آدھے ہوجائیں گے۔ اس لئے زکوۃ مجبور کرتی ہے کہ ان  اثاثوں کو معاشی سرگرمی میں مشغو ل کیا جائے اور کم از کم ڈھائی فیصد سالانہ سے زیادہ، ان سے نفع کمایا جائے تاکہ زکوۃ دینے کے بعد بھی وہ باقی رہ سکیں۔ یہ بے کار ذخیرے جب پیداواری کاموں کے لئے بازار میں آتے ہیں تو  بازار میں دولت کی ریل پیل بڑھتی ہے اور روزگار پیدا ہونے لگتا ہے۔ ایک کروڑ روپیے ،سونے کی صورت میں  یا نقدی کی صورت میں گھر میں پڑے رہیں تو سماج کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن اگر زکوۃ کی وجہ سے مجبور ہوکر انہیں بازار میں  پیداواری کاموں کے لئے استعمال کیا جائے، اور اس پیسہ سے کوئی کارخانہ شروع ہوجائے تو  اس سے کئی طریقوں سے راست و بالواسطہ روزگار پیدا ہونے لگتا ہے۔ کارخانہ میں کئی مزدورں کو راست ملازمت ملتی ہے۔ خام مال فراہم کرنے والوں ، ٹرانسپورٹ کرنے والوں، تیار مال کی مارکیٹنگ کرنے والوں وغیرہ کو روزگار مل جاتا ہے۔ پھر کارخانہ کے آس پاس چائے وغیرہ کی دکانیں کھل جاتی ہیں۔ کچھ لوگ باہر سے آنے والے مزدوروں کے لئے رہائش وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کے بچوں کے لئے اسکول کھل جاتے ہیں۔اس طرح دسیوں طریقہ سے بالواسطہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔اس طرح  چند کروڑ روپیے بھی جب بازار میں فعال ہوجاتے ہیں تو بہت سے لوگوں کو غریبی سے اوپر اٹھانے کا سبب بنتے ہیں۔

اثاثوں کی ذخیرہ اندوزی، ان کی قیمتوں میں مصنوعی اضافوں کا سبب بنتی ہے۔اس کے نتیجہ میں وہ صورت حال بھی پیدا ہوتی ہے جسے اثاثوں کا بلبلہ Assets Bubble کہا جاتا ہے یعنی  طلب میں اضافہ کی وجہ سے قیمتیں مصنوعی طور پر تیزی  سے بڑھنے لگتی ہیں اور پھر اسی تیزی سے گرنے لگتی ہیں۔مثلا زکوۃ لوگوں کو بے کار زمین کے بڑے بڑے پلاٹ خرید کر رکھنے سے روکتی ہے۔ کیوں کہ پلاٹ کی قیمت پر ہر سال زکوۃ ادا کرنا پڑتا ہے۔اس لئے پلاٹ ضرورت کے تحت اور زکوۃ ادا کرنے کی صلاحیت کے مطابق ہی خریدے جاسکتے ہیں۔اور باقی رقم پیداواری سرمایہ کاری میں استعمال ہوتئ ہے۔ پلاٹوں کی خریدی پر اس روک کی وجہ سے نہ  مصنوعی مانگ کی وجہ سے ،قیمتوں میں مصنوعی اضافہ ہوتا ہے، نہ  رہائش کی حقیقی ضرورت کے لئے زمین کی خریدی پہنچ سے باہر ہوپاتی ہے اور نہ وہ قیمتوں کا بلبلہ Price Bubbleپیدا ہوتا ہے جس کا مظاہر ہ ملک کے کئی شہروں میں گذشتہ سالوں میں ہوا۔

جب اثاثے پیداواری مقصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو اس سے جی ڈی پی بڑھتا ہے اور روزگار پیدا ہوتا ہے، نیز غربت ختم ہوتی ہے۔ اوپر  ہندوستانی گھرانوں میں سونے کے جن ذخائر کا ذکر کیا گیا، ان کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں روزگار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادارہ بھارتی ریلوے ہے جس میں تیرہ لاکھ لوگ کام کرتے ہیں۔ [xvi] سونے کی مجموعی قیمت بھارتی ریلوے کی  مجموعی قیمت net value کے پندرہ گنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صرف سونے کا پیداواری استعمال شروع ہوجائے تو اس دولت میں  دوکروڑ ملازمتیں پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ ورلڈ لیبر آرگنائزیشن نے  بے روزگاری، غیریقینی روزگار اور غربت کا مجموعی تخمینہ 1.86کروڑ کا لگایا ہے[xvii]۔ یعنی غیر پیداواری دولت کا ایک حصہ بھی پیداواری مقاصد کے لئے استعمال ہونے لگے تو ہندوستان سے بے روزگاری تقریبا ختم ہوسکتی ہے۔

زکوٰۃ اور معاشی عدم  مساوات

زکوٰۃ کا نظام اللہ تعالی نے اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اس کے اندر خود، عدم مساوات کو کم کرنے کی معجزانہ معاشیاتی صلاحیت موجود ہے۔چند سال پہلے (2013میں ) فرانسیسی ماہر معاشیات  تھومس پکیٹی  Thomas Piketty نے اپنی ایک کتاب کے ذریعہ معاشیات کی دنیا میں ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ ان کی کتاب ’سرمایہ اکیسویں صد ی میں‘Capital in the Twenty First Century’.[xviii]  بہت مشہور ہوئی اور کئی سالوں تک دنیا میں سب سےزیادہ فروخت ہونے والی کتاب بنی رہی۔ اس کتاب میں پکیٹی نے دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی نابرابری کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب سرمایہ پر منافع کی شرح rate of return on capital  ملک کی معاشی ترقی کی شرحGrowth Rate ofسے بڑھ جاتی ہے تو  دولت چند ہاتھوں میں، یعنی ایک فیصد اور دس فیصد امیر ترین لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہونے لگتی ہے۔  منافع کی شرح اور معاشی ترقی کی شرح میں یہ فرق جتنا زیادہ ہوگا، ارتکاز دولت کی رفتار اتنی ہی تیز ہوگی۔پکیٹی کا نظریہ ایک فارمولہ پر منحصر ہے جس میں اس نے سرمایہ پر حاصل ہونے والے اوسط منافع(r) اور معیشت کی شرح ترقی(g) کے درمیان تعلق  قائم کیا ہے۔اگر شرح ترقی کم ہو اور شرح  منافع  زیادہ ہو  تو محنت، تجارت وغیرہ کے مقابلہ میں دولت،  زیادہ سرمایہ کے ذریعہ جمع ہونے لگتی ہے اور اس سے سرمایہ دار کا سرمایہ تیزی سے بڑھنے لگتا ہے۔نا مساواتinequality  r>g ، اس کے نزدیک اصل  قوت انحراف  fundamental force of divergence’ ہےجو سماج میں عدم مساوات بڑھاتی ہے۔.[xix]  اس نامساوات میں rسرمایہ پر ملنے والے نفع کی شرح اور gمعیشت کی ترقی کی شرح ہے۔

زکوۃ، اس اصل قوت انحراف کو کنٹرول کرتی ہے۔ اثاثوں پر سالانہ ڈھائی فیصد کی شرح زکوۃ، ان اثاثوں پر ملنے والے شرح منافع کو کم کرکے عدم مساوات r>g کوکنٹرول کرتی ہے۔اگر ملک کی معیشت سات فیصد سالانہ کی رفتار سے ترقی کررہی ہے اور سرمایہ پر اوسط منافع  دس فیصد ہے تو چونکہ زکوۃ سرمایہ پر ڈھائی فیصد لگتی ہے اس لئے سرمایہ دار کو ملنے والا منافع ڈھائی فیصد کم ہوکر ساڑھے سات فیصد رہ جاتا ہے اس طرح دھیرے دھیرے ملک کی شرح ترقی بڑھ جاتی ہے اور دولت مرتکز ہونا بند ہوجاتی ہے۔

پکیٹی نے بھی اس مسئہ کا یہی حل تجویز کیا ہے۔ اس نے تجویز کیا ہے کہ آمدنی پر مروج ٹیکسوں کے علاوہ، جملہ اثاثوں پر ٹیکس لگایا جائے تاکہ منافع کا کچھ حصہ کم ہو اور  شرح منافع ، شرح ترقی سے قریب تر   اور پھر کم تر ہوجائے۔ [xx].۔ یہی کام زکوۃ کرتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پکیٹی نے اثاثوں پر ٹیکس کی جو شرح تجویز کی ہے وہ بھی زکوۃ کی شرح سے قریب تر ہے۔ پکیٹی کی تجویز کردہ شرح دو فیصد ہے جبکہ زکٰوۃ ڈھائی فیصد ہے۔

اس طرح کا ٹیکس نہ ہو (یعنی زکٰوۃ نہ ہو) تو پکیٹی  کی پیشن گوئی یہ ہے کہ دنیا تیزی سے ایسی معاشی صورت حال کی طرف بڑھے گی جس میں معیشت کی شرح ترقی بہت کم ہوجائے گی، دنیا کے وسائل چند ہاتھوں میں آجائیں گے ، عدم مساوات بڑھے گی اور دولت کی فراوانی کے باوجود ، آبادی کا بہت بڑا حصہ بے نظیر غربت کا شکار ہوجائے گا۔[xxi]اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ زکٰوۃ کے نظام رحمت سے محرومی، دنیا کو ایک بڑی تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

مسلمانوں کی صورت حال

تینڈولکر لائن کے مطابق، ملک کے غریبوں میں مسلمانوں کا تناسب تقریبا  پندرہ فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو غریبی کی لائن سے نکالنے کے لئے  تقریبا دیڑھ بلین امریکی ڈالر اور امپاورمنٹ لائن سے آگے بڑھانے کے لئے  دس بلین ڈالر کا گیپ ہے۔

ہمارے ملک میں جملہ کتنی زکوۃ نکالی  جاتی ہے، اس کا اندازہ کرنے کی کوئی سائنٹفک کوشش نہیں ہوئی ہے۔ اندازے دس ہزار کروڑ  روپیوں  (دیڑھ بلین ڈالر) سے چالیس ہزار کروڑ روپیوں (چھ بلین ڈالر) تک کے ہیں۔ [xxii]۔مسلمانوں پر عائد ہونے والی جملہ زکوۃ کے تخمینے تو ایک لاکھ کروڑ سے متجاوز بھی موجود ہیں۔ اگر ان تخمینوں کو مان لیا جائے تو یہ زکوۃ غربت کے خاتمہ کے لئے کافی ہے۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ زکوۃ کی مدوں میں خاتمہ  غربت کے علاوہ بھی مدیں شامل ہیں۔ خاص طور پر زکوۃ کا ایک بڑا حصہ دینی تعلیم کے اُس وسیع نیٹ ورک کے لئے بھی  استعمال ہوتا ہے جو  ہندوستانی مسلمانوں کی اہم دینی ضرورت ہے۔ لیکن  یہ مدرسے بہت سے غریب بچوں کی تعلیم کا انتطام کررہے ہیں۔ اور تعلیم خاتمہ غربت کے پروگرام کا حصہ اور اس کے تخمینوں میں شامل ہے۔ مدرسہ سے فارغ ہونے کے بعد ایک غریب بچہ، بہت زیادہ کمائی شروع نہیں کرتا لیکن بہر حال سطح غربت ہی نہیں بلکہ امپاورمنٹ کی سطح بھی ضرور پار کرلیتا ہے۔اس لئے مدرسوں پر ہونے والے خرچ کا ایک بڑا پہلو (دینی تعلیم کی اہم ضرورت کی تکمیل کے ساتھ ساتھ) خاتمہ غربت سے متعلق بھی ہے۔اس لئے یہ اعتراض درست نہیں کہ زکوۃ غربت اس لئے ختم نہیں کررہی ہے کہ اس کا ایک حصہ مدرسوں کو جارہا ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی زیادہ زکوۃ سالانہ نکلنے کے باوجود  غربت کی صورت حال کیوں نہیں بدل رہی ہے؟ اور زکوۃ کی مذکورہ معاشیاتی طاقت کیوں ظہور پذیر نہیں ہورہی ہے؟

زکٰوۃ کا اجتماعی نظام

اس سوال کےتین  جواب ہیں۔ پہلا جواب یہ ہے کہ زکوۃ پوری طرح نہیں نکالی جارہی ہے۔اس دعوی کی پشت پر کوئی باقاعدہ مطالعہ موجود نہیں ہے ۔لیکن عام مشاہدہ ہے کہ باقاعدہ حساب کرکے زکوۃ ادا کرنے والے عام طور پر متوسط طبقات سے متعلق دیندار لوگ ہوتے ہیں۔ اونچی مالیت کے اثاثوں  اور امیر لوگوں کی دولت پر زکوۃ  مکمل طور پر ادا نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ عام طور پر زکوۃ کے نام پر ایک رقم اپنی مرضی سے خود ہی متعین کرتے ہیں اور اسے خرچ کردیتے ہیں۔ یہ رقم ، اُن پر عائد ہونے والی حقیقی زکوۃ سے بہت کم ہوتی ہے۔

دوسرا اور زیادہ اہم سبب ، ادائیگی زکوۃ کے رائج طریقہ سے متعلق ہے۔ ہر ادا کرنے والا زکوۃ کی رقم کو کئی حصو ں میں تقسیم کرکے ادا کرتا ہے۔ بہت سے لوگ کپڑے تقسیم کردیتے ہیں۔ امیر لوگ بھی بھاری رقومات ہزاروں لوگوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ بڑے شہروں میں دوت مند لوگوں کے گھروں کے سامنے، ماہ رمضان میں، زکوۃ وصول کرنے والوں کی طویل قطاریں ، اس بے فیض تقسیم کے ثبوت کے لئے کافی ہیں۔ اس طرح سے حاصل ہونے والی رقمیں، غریب وصول کنندگان، عید کے کپڑوں اور عید کے نام پر ہونے والی فضول خرچیوں میں صرف کردیتے ہیں۔ایسی منتشر اور منقسم زکوۃ سے وہ فائدے حاصل نہیں ہوسکتے جو نظام زکٰوۃ سے مطلوب ہیں۔زکوۃ سے صرف غریب کا کوئی وقتی فائدہ یا اس کی وقتی ضرورت کی تکمیل مقصود نہیں ہے بلکہ غربت کا خاتمہ مطلوب  ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ سلف میں کئی بزرگوں نے یہ رائے دی ہے کہ زکوۃ اتنی مقدار میں دی جائے کہ لینے والا آئندہ زکوٰۃ کی ضرورت سے بے نیاز ہوجائے یا کم سے کم اس کی سال بھر کی کفالت کا انتظام ہوجائے۔امام نووی نے کئی بزرگوں کے حوالہ سے یہی رائے دی ہے۔[xxiii]

تیسرا اور اہم ترین سبب زکٰوۃ کے اجتماعی نظام کا نہ ہونا ہے۔اسلام میں زکٰوۃ باقاعدہ ایک انسٹی ٹیوشن ہے۔آج کے دور میں تو غربت کا خاتمہ جن ہمہ جہتی ، منصوبہ بند ، طویل المیعاد اور ماہرانہ کاوشوں کا متقاضی ہے وہ کسی ادارہ کے ذریعہ ہی ممکن ہیں۔انفرادی طور پر دی گئی منتشر و منقسم زکوۃ کچھ وقتی ضرورتوں کی تکمیل تو کرسکتی ہے، غربت کے مسئلہ کو مستقل حل نہیں کرسکتی اور نہ زکوۃ کی معاشیاتی طاقت کے مکمل ظہور کو یقینی بناسکتی ہے۔ملک میں بعض جگہوں پر اجتماعی نظام زکوۃ کے جو تجربات ہورہے ہیں وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ  زکوۃ کے جمع و تقسیم کا اجتماعی نظام، غربت کے خاتمہ اور طویل المیعاد معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتاہے۔

یہی وجہ ہے کہ کئی علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ زکٰوۃ کا اجتماعی نظام قائم کرنا امت کے لئے ضروری ہے۔ مولانا مودودی فرماتے ہیں۔

’’اسلام میں تمام کام نظام جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ انفرادیت کو اسلام پسند نہیں کرتا۔ آپ مسجد سے دور ہوں اور الگ نماز پڑھ لیں  تو ہوجائے لیکن شریعت تو یہی چاہتی ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ اسی طرح نظام جماعت نہ ہو تو الگ الگ زکوۃ نکالنا اور خرچ کرنا بھی صحیح ہے  لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ زکوۃ کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے تاکہ وہاں سے وہ ایک ضابطہ کے ساتھ خرچ ہو۔۔۔۔تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ زکوۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے لئے ایک اجتماعی نظام بنانے کی فکر کریں کیونکہ اس کے بغیر زکوۃ کی فرضیت کے فوائد ادھورے رہ جاتے ہین‘‘۔[xxiv]

علامہ یوسف القرضاوی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ اور اجتماعی نظام زکوۃ کو زکوۃ کا ایک اہم حصہ اور جز قرار دیا ہے اور اس نظام کے فائدوں پر  بھی روشنی ڈالی ہے۔[xxv]

مولانا ابوالکلام آزادؒ  نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ انفرادی طور پر زکوۃ کی ادائیگی اسلام کی تعلیمات اور زکوۃ کی روح کے خلاف ہے۔اسلامی حکومت کی عدم موجودگی ، اجتماعی نظام زکوۃ  سے گریز کے لئے حیلہ نہیں بن سکتی۔ حکومت کی غیر موجودگی میں مسلمانوں کو ویسے ہی اجتماعی نظام زکوۃ  ملت کی اجتماعی کاوشوں سے قائم کرنا چاہیے جیسے نظام جمعہ  اور نماز کا نظام قائم ہے۔[xxvi] ان کے خطبات میں ایسے سخت جملے بھی ملتے ہیں کہ

’’جو لوگ فرداً فرداً زکٰوۃ اپنے طور پر ادا کرتے ہیں ، میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ درست نہیں ہےاور آج میں ایک قدم اور آگے بڑھتا ہوں اور اس منبر سے پوری ذمہ داری کے ساتھ اعلان کرتا ہوں  کہ صرف یہی نہیں کہ یہ زکوۃ جو انفرادی طور پر ادا کی گئی  ہے ، درست نہیں ہے بلکہ صحیح ور اصحح یہ ہے کہ وہ زکوۃ ہی نہیں ہے۔ اسے کوئی دوسرا نام دیا جاسکتا ہے ، زکوۃ کا نام نہیں دیا جاسکتا‘‘۔ [xxvii]

ضرورت اس بات کی ہے اجتماعی نظام زکوۃ  کے قیام کوباقاعدہ ایک تحریک کی شکل میں  چلایا جائے۔ یہ نظام ابتدا ءمیں گاوں، قصبہ یا شہر کی سطح پر قائم کیا جاسکتا ہے یا شروعات میں کالونی یا مسجد کو بنیاد بناکر آغاز کیا جاسکتا ہے اور بتدریج ضلع، علاقہ اور ریاست کی سطح تک اسے ترقی دی جاسکتی ہے۔اجتماعی نظام زکوۃ کے یہ ادارے منصوبہ بند طریقے سے درج ذیل کام انجام دے سکتے ہیں۔

  1. غربت سے متعلق سروے ، اپنے علاقہ میں غریبوں کی حقیقی ضرورتوں کے بارے میں معلومات کا حصول اور ان کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل
  2. غریب طلبہ کو وظیفے تاکہ وہ اعلی معیاری تعلیم حاصل کرسکیں۔
  3. نوجوانوں کو فنی اور تجارتی ٹریننگ تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔
  4. آلات و مشینوں، سامان تجارت، اور تجارتی سرمایہ کے لئے مائکرو فینانس
  5. زراعت پر مبنی اور دیگر گھریلوں صنعتوں کا قیام اور انہیں چلانا، مثلا پولٹری فارم، شہد کی مکھی کے فارم ، ٹیلرنگ وغیرہ
  6. آمدنی کا ذریعہ بن سکنے واے اثاثوں کی خرید اور انہیں غریبوں کے حوالہ کرنا۔ مثلا کار یا آٹو یا مشینیں وغیرہ
  7. کم خرچ کے گھروں کی تعمیر اور حوالگی
  8. علاج، معالجہ اور صحت عامہ
  9. قرضوں کی ادائیگی اور بیل آوٹ
  10. جو لوگ عمر یا معذوری کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے معاشی سرگرمی کے اہل نہ ہوں، انہیں ماہانہ وظائف

یہ وہ کام ہیں جنہیں آج دنیا بھر میں ازالہ غربت کے لئے ضروری سرگرمیاں سمجھا جاتا ہے۔ان سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے زکٰوۃ کا اجتماعی نظام  موجود این جی اوز کے اشتراک کے ساتھ کام کرسکتا ہے اور حسب ضرورت نئی این جی اوز بھی قائم کرسکتا ہے۔

جہاں ممکن ہو، وہاں یہ اجتماعی نظم، مدارس اور دینی سرگرمیوں کے لئے  بھی زکوۃ  وصول کرنے اور تقسیم کرنے کا نظام تشکیل دے سکتا ہے۔تقسیم کے لئے علمائے اکرام کی نگرانی میں ضروری اصول بنائے جاسکتے ہیں۔ اس سے مدرسوں کو مالیہ کی فراہمی میں  زیادہ شفافیت بھی لائی جاسکتی ہے۔مدارس کے نام پر دھوکوں کے واقعات کا تدارک ہوسکتا ہے اور  بغیر ضرورت کے افراد کی ذاتی اغراض یا لڑائی جھگڑوں کے نتیجہ میں غیر ضروری مدارس کے قیام کے مسئلہ پر بھی  قابو پایا جاسکتا ہے۔مدرسہ کے نام پر غیر صحت مند رجحانات پر قابو پایا جائے تو  حقیقی خدمات انجام دینے والے مدارس کے مالیہ میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور ان کی ضرورتوں کی آسانی سے تکمیل ہوسکتی ہے۔ یہ کام، یعنی مدارس اور دینی سرگرمیوں کو زکوۃ کی اجتماعی ادائیگی کا کام،  یقینا ً مشکل ہے اور ایسے علماء کی نگرانی ہی میں ممکن ہے جن پر سب کو اعتماد ہو ۔

جہاں یہ کام ممکن نہ ہو وہاں، ابتدا میں زکوۃ کا یہ اجتماعی نظام، زکوۃ کا ایک حصہ مثلاً پچاس فیصد وصول کرسکتا ہے۔بقیہ پچاس فیصد ، زکوۃ ادا کرنے والے اپنی مرضی کے اداروں یا اپنے قریبی رشتہ داروں و غیرہ کی وقتی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے  دے سکتے ہیں۔اور جو پچاس فیصد اجتماعی طور پر وصول ہو، ان سے ازالہ غربت کے مذکورہ بالا پروگرام کو روبعمل لایا جاسکتا ہے۔

اس طرح کے اجتماعی نظام سے  زکوۃ کی وصولی بھی بہت زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ دولت مند لوگوں کو اس بات کے لئے آمادہ کرنے کا کام کہ وہ باقاعدہ حساب کرکے مکمل زکوۃ نکالیں، یہ ادارہ اپنے ذمہ لے سکتا ہے۔

بہت ضروری ہوگیا ہے کہ اس سمت میں اقدام کئے جائیں اور اسے ایک تحریک کی شکل دی جائے۔ اگر مجموعی زکٰوۃ کا ایک قابل لحاظ حصہ بھی اجتماعی نظام زکٰوۃ کے دائرہ میں لانے میں ہم کامیاب ہوگئے ، تو اس سے یقینی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی و معاشی صورت حال میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے اور یہی زکوۃ کا حقیقی مقصد ہے۔

حواشی و حوالہ جات

[i]  سورہ توبہ آیت ۱۰۳

[ii]  سورہ روم آیت ۱۳۹

[iii] سورۃ حشر آیت ۷

[iv] صحیح بخاری۔ کتاب الزکوۃ، باب وجوب الزکوٰۃ، رواہ عبداللہ بن عباس

[v] الشيخ يوسف القرضاوي؛ مثكلۃ الفقر و کیف عالجہا الاسلام؛ موسسہ الرسالہ، بیروت؛ ۱۹۸۵ص ۹۹

[vi]  زکوۃ کا نصاب پچہتر گرام سونے یا 525گرام چاندی پر مشتمل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مین ان دونوں نصابوں کی قیمت مساوی تھی۔ لیکن اب ان میں کافی فرق واقع ہوگیا ہے۔ یہ سوال علما میں زیر بحث رہتا ہے کہ نقدی اور دیگر اثاثوں کے لئے سونے کے نصاب کو بنیاد بنایا جائے یا چاندی کو۔ ایک رائے یہ ہے کہ چاندی کو نصاب بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ زکوۃ دے سکیں۔ ہمارے خیال میں سونے کا نصاب زیادہ قابل ترجیح ہے اس لئے کہ اونٹوں، بکریوں وغیرہ کا جو نصاب رسول اللہ ﷺ نے تجویز کیا ہے، اس کی قیمتیں آج سونے کے نصاب سے قریب تر ہیں اور چاندی کے نصاب سے بہت زیادہ ہیں۔ آج کی تاریخ میں چاندی کا نصاب بیس پچیس ہزار روپیے ہوتا ہے جو غریب سے غریب خاندان کی بھی ایک سال کی کفایت نہیں کرسکتا۔

 [vii]  الشیخ شاہ ولی اللہ الدھلوی؛ حجتہ اللہ البالغۃ، الجزء الثانی؛ دارالجیل، بیروت، ص ۶۶

[viii] Planning Commission, Government of India; Report of the Expert Group to Review the Methodology for Estimation of Poverty; New Delhi; June 2014

[ix] Rajat Gupta et al; From Poverty to Empowerment: India’s Imperative for Jobs, Growth and Effective Basic Services; McKinsey Global Institute; February 2014; page 34

[x] Ibid page 41

[xi]  Credit Suisse Report as reported in LiveMint, https://www.livemint.com/Money/MML9OZRwaACyEhLzUNImnO/The-richest-1-of-Indians-now-own-584-of-wealth.html retrieved on 26-04-2017

[xii] https://www.weforum.org/agenda/2018/03/inequality-isn’t-inevitable; retrieved on 26-4-2018

[xiii] See the Union Budget, Expenditure Document at https://www.indiabudget.gov.in/ub2018-19/bag/bag6.pdf; converted into US$. Retrieved on 27-04-2018

[xiv] https://tradingeconomics.com/india/personal-savings

[xv] The net worth of 10 biggest companies is $558 billion. See the table at http://www.moneycontrol.com/stocks/marketinfo/marketcap/bse/index.html; retrieved on 26-4-2018

[xvi] For the statistics related to Indian Railways, see the Indian Railways, Annual report and Accounts 2015-16, Ministry of Railways, GOI.

[xvii] ILO; World Employment Social Outlook, Trends 2018; Geneva; page 21

[xviii] Thomas Piketty (Tr. From French by Arthur Goldhammer; The Belknap Press of Harvard University Press; 2017

[xix] Ibid page 382-476

[xx] Ibid pages 663-680

[xxi] Ibid page 748

[xxii] This is a rough estimation without any sound basis, https://www.hindustantimes.com/mumbai/what-is-india-s-annual-zakat-collection-depends-on-who-you-ask/story-RDeEedvtOlwaAuBxo6mgaL.html

[xxiii] شرح النووی علی المسلم ؛ کتاب الزکوۃ؛ باب من تحل لہ المسالہ؛ رقم الحدیث ۲۴۰۲

[xxiv]  مولانا سید ابو الاعلی مودودی؛ خطبات؛  ادارہ ترجمان القرآن؛ لاہور؛ ۱۹۴۰؛ ص ۱۷۹، ۱۸۰

[xxv] الشيخ يوسف القرضاوي؛ مثكلۃ الفقر و کیف عالجہا الاسلام؛ موسسہ الرسالہ، بیروت؛ ۱۹۸۵ص ۹۹

[xxvi] مولانا ابوالکلام آزاد؛ حقیقیت زکوۃ؛ طارق اکیڈمی، فیصل آباد؛ ۲۰۰۳؛ ص ۳۸، ۵۸ اور ۵۹;

[xxvii] حوالہ سابق ص ۱۷

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *