جناح سے نفرت کیوں درست نہیں؟

محمد علی جناح
محمد علی جناح

آکارپٹیل

(آکارپٹیل بنگلورمیں مقیم ہندوستان کے معروف صحافی،کالم نویس،دانش وراور قلم کارہیں،بنیادی طورپرانگریزی میں لکھتے ہیں،ملٹی ٹیلنٹڈانسان ہیں، اردو زبان و ادب سے بھی وابستگی ہے اور2014ء میں سعادت حسن منٹوکے غیر افسانوی مضامین کا ترجمہWhy I Writeکے نام سے کیا، جوشائع ہوچکا ہے،موجودہ وزیر اعظم مسٹرنریندرمودی کی منتخب تحریروں کابھی گجراتی سے انگریزی ترجمہ کیاہے،انگریزی اخبار دکن کرانیکل کے ڈپٹی ایڈیٹراور مڈڈے ملٹی میڈیالمٹیڈکے ایڈیٹراِن چیف رہ چکے ہیں،اب بھی ہندوپاکستان وغیرہ کے مختلف نمایاں انگریزی اخبارات میں ان کے کالمزاور تجزیے شائع ہوتے رہتے ہیں،2015سے ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکیٹیوڈائریکٹرہیں،ہندوستانی سیاست، ثقافت ومعاشرت پر ان کی گہری نگاہ ہے،ان موضوعات سے متعلق ان کا نقطۂ نگاہ عموماً متوازن اور واقعیت پر مبنی ہوتاہے۔ان کا زیرنظرمضمون 6؍مئی کے ٹائمزآف انڈیامیں شائع ہواہے۔مضمون کے تمام مشمولات سے بھلے ہی کسی کواتفاق نہ ہو،مگر اس کا بنیادی تھیم اہم ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں برپاہونے والے حالیہ ہنگامے کے پس منظر میں جناح یاپاکستان دشمنی کی اٹھنے والی نئی لہرکے اثرات کوکم کرسکتاہے)
“17مارچ1947کوبمبئی ہائی کورٹ کے رجسٹرارنے محمد علی جناح کو کراچی یہ خط لکھا:
’’سر!میرے لیے آپ کویہ اطلاع دیناباعثِ اعزاز ہے کہ بمبئی بار ایسوسی ایشن نے ایک ممتازممبرکی حیثیت سے آپ کے پچاس سال پورا کرنے پرآپ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دینے کا فیصلہ کیاہے؛اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ18اپریل سے پہلے یا15جون کے بعد کی کوئی حتمی تاریخ دے دی جائے؛تاکہ اس تاریخ کو آپ کے اعزاز میں استقبالیہ پروگرام آرگنائزکیاجاسکے۔امیدہے کہ آپ اس مراسلے کاجلد ہی جواب دیں گے۔
آپ کامخلص
سی ایم تریویدی‘‘
جناح نے25؍مارچ کواس خط کا جواب دیا:
’’جنابِ عالی!آپ کا 17؍مارچ کا بھیجاہواخط مجھے مل گیا،اس کے لیے میں شکر گزار ہوں،بارایسوایشن کی جانب سے میرے اعزازمیں استقبالیہ پروگرام کے انعقاد کا فیصلہ اچھاہے،مگرمیری اطلاعات کے مطابق یہ تجویز37؍ووٹوں کی حمایت سے پاس کی گئی ہے،جبکہ 35؍لوگوں نے اس کی مخالفت کی ہے؛ لہذاپہلے تو میں اکثریت کا شکریہ اداکرتا ہوں،مگرساتھ ہی آپ کے ایسوسی ایشن کے ممبرزکی ایک بڑی تعدادپر اپنے آپ کو تھوپنے پرآمادہ نہیں ہوں۔بہترتھا کہ اس پروگرام کے سپانسرزاپنے جذبات کاپہلے ہی اظہار کرتے اور مجھ سے مشورہ کرتے کہ کیااکثریت کے ذریعے ایسی قراردادپاس کی جاسکتی ہے؟میں سمجھتاہوں کہ موجودہ حالات میں مجھے اس تجویزکوقبول نہیں کرنا چاہیے۔ان تمام لوگوں کا شکریہ ،جومیرے اعزازمیں استقبالیہ دینے کے حامی ہیں۔
آپ کامخلص
ایم اے جناح‘‘
دانش مندانہ تبادلۂ مراسلت سے قطعِ نظرجو چیزیہاں زیادہ قابلِ غورہے،وہ ہے ان خطوط کے لکھے جانے کی تاریخ۔یہ مارچ1947ء کازمانہ ہے،یہ وہی زمانہ ہے،جب نواکھالی کے اندوہناک فسادات ہوچکے تھے، جب ڈائریکٹ ایکشن کے نتیجے میں انسانوں کی قتل و غارت گری جاری تھی،جب جناح گزشتہ کئی سالوں سے دوقومی نظریہ کے مبلغ و داعیِ اعظم بنے ہوئے تھے اور بالآخراس کے نتیجے میں ہندوستان کومنقسم ہونا تھا،ان تمام سانحات کے درمیان بمبئی بارایسوسی ایشن کے وکلاکی اکثریت نے فیصلہ کیاکہ جناح کے اعزاز میں ایک خصوصی پروگرام کا انعقاد کرنا چاہیے۔ آج ،ستر سال بعد،تو ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے،آج تو اے ایم یومیں جناح کی ایک پرانی تصویر کاپایاجانابھی اتنابڑاجرم ہے کہ یہ قومی سطح کی خبر بن جاتی ہے،بحیثیت عوام ہم سب رجعت پسندی کا شکارہیں اوراس سے کوئی انکارنہیں کرسکتا!اصل بات یہ ہے کہ جناح کوہم غیر جانبدارانہ نظرسے دیکھ ہی نہیں سکتے اور اس کی وجہ ہماراقومی نظامِ تعلیم ہے،جس نے ہماری برین واشنگ کی ہوئی ہے،ہم نے فیصلہ کررکھاہے کہ جناح اور پاکستان برائی کی علامت ہیں۔
حالاں کہ ہندوستان کی تقسیم اس لیے نہیں ہوئی تھی کہ یہاں کے مسلمان اپنے مادرِوطن کے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے؛بلکہ اس لیے ہوئی تھی کہ ہندو(جس کی سربراہی اُس وقت کانگریس کررہی تھی )اُن مسلمانوں کواختیارات میں کوئی حصہ دینے کوآمادہ نہ تھے،جن کی سربراہی جناح کررہے تھے۔ مسلمانوں کا وہ کونساناقابلِ رد مطالبہ تھا،جس کی وجہ سے تقسیم کا سانحہ رونماہوا؟جداگانہ انتخابات،کیوں؟تاکہ مسلم نمایندگی کویقینی بنایاجاسکے،کیااس مطالبے کواس وقت Justify کیاگیا تھا؟آئیے اس کاہم موجودہ وقت میں جائزہ لیتے ہیں۔کچھ دنوں پہلے ایک رپورٹ آئی تھی کہ پورے ملک کے بیشترصوبوں میں برسرِ اقتدار پارٹی(بی جے پی)کے1386؍ممبرانِ اسمبلی میں سے محض چار ممبران مسلم ہیں،ایک کے بعد دوسری ریاست کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی موجودہ حکمراں پارٹی اسی نہج پر رواں دواں ہے،یہ سیاسی امتیازی رویہ ہے،جوجان بوجھ کر روارکھاجاتاہے،یہ رویہ تکلیف دہ بھی ہے،حقیقت بھی ہے اور مسلمانوں کوHurtبھی کرتا ہے۔میں یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ ہمارے عہدمیں اگر جناح نہیں ہے ،توکوئی دوسرا بندہ اس مسئلے کوضرور اٹھائے گا،آج اگر کوئی شخص(مثلاً اسدالدین اویسی)غیر جذباتی طورپرمکمل معروضیت اور توازن کے ساتھ بھی اس موضوع پر بات کرتا ہے،تواس کی گفتگوکو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب مسلمانوں کے حقوق کامعاملہ آتاہے،توعموماً ہم اپنامتوازن طرزِفکر کھوبیٹھتے ہیں۔
گاندھی دلتوں کے لیے جداگانہ انتخابات کے حق کے مطالبے سے امبیڈکرکوبازرکھنے پر قادر تھے،آج دلتوں کایہ مانناہے کہ یہ ایک بھیانک غلطی تھی،جس کی وجہ سے وہ ہمارے تنگ نظر ومتعصب معاشرے میں ہمیشہ کے لیے سیاسی حاشیہ نشینی کا شکار ہوگئے،جناح نے برصغیر میں قبائلی ووٹنگ کے طریقے کو قبول کرلیااوراس پر جم گئے،اگر ہندوواقعی ہندوستان کوغیر منقسم دیکھناچاہتے،تووہ مسلمانوں کوسیاسی حصے داری دیتے ،ہم نے اُس وقت بھی ایسا نہیں کیااوراب بھی ہم مسلمانوں کوسیاسی حصہ داری دینے کوتیارنہیں ہیں،جیساکہ اعدادوشمار سے ظاہر ہے۔
کچھ سالوں پہلے میں نے گجراتی زبان میں محمد علی جناح کاایک انٹرویوپڑھاتھا،جس کاترجمہ بھی کیااوراس کے بعد جناح کے تئیں میرے نفرت کے جذبات کم ہوگئے،وہ انٹرویوپیش ہے:
سوال:ایک مرد کا قابلِ تعریف وصف کیاہے؟
جواب:آزادی
سوال:ایک عورت کا قابلِ تعریف وصف کیاہے؟
جواب:وفاداری
سوال:آپ کے نزدیک زندگی کی اصل کامیابی کیاہے؟
جواب:یہ کہ لوگ آپ کی حوصلہ افزائی کریں اورآپ سے محبت کی جائے۔
سوال:آپ کی پسندیدہ تفریح؟
جواب:گھوڑسواری
سوال:آپ کا پسندیدہ پھول؟
جواب:لِلی
سوال:آپ کا پسندیدہ مصنف؟
جواب:شیکسپیئر
سوال:آپ کی پسندیدہ کتاب؟
جواب:Monte Cristo(The Count of Monte Cristo by Alexander Dumas)
سوال:آپ کاشعار؍نعرہ؍نصب العین؟
جواب:کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے
اس انٹرویوکے اخیر میں جناح نے گجراتی زبان میں دستخط کیاہے۔
اس میں شک نہیں کہ جناح ایک اچھے گفتگو طراز تھے،انھوں نے مسلمانوں کی ایک جماعت کے لیے ایک ملک حاصل کیا،جس کے بعد (غیرمنقسم) ہندوستان کے مسلمان ہمیشہ ہمیش کے لیے تین الگ الگ قوموں (ہندوستانی،پاکستانی اور بنگلہ دیشی)میں بٹ گئے”۔

ترجمانی:نایاب حسن

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *