اسلامی سائنس کا درخشاں نام :فواد سیزگن

فواد سیزگین
فواد سیزگین

عالم نقوی

پروفیسر فواد سیزگن نے بھی با لآخر ۹۴ سال کی عمر میں  اِس جہان ِفانی کو خیر باد کہہ دیا لیکن اسلامی سائنس کے فروغ  کے لیے اُن  کی گراں بہا   خدمات رہتی دنیا تک  اُن کانام روشن رکھیں گی ۔ترکی کے اس مایہ ناز سپوت نے ۳۰ جون ۲۰۱۸ کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ دنیا میں دانش و حکمت کا شاید ہی کوئی ایسا نام لیوا ہو جو اُن کی کمی محسوس نہ کر رہا ہو ۔ اسلامی سائنس اور متعلقہ موضوعات پر ان کا کام اور  ان کی کتا بیں آنے والی نسلوں کو  دانش و حکمت کی صراط مستقیم  پر  ہمیشہ  روشنی دکھاتی رہیں گی ۔

وہ صلاح الدین ایوبی کی کُرد نسل سے تعلق رکھنے والے تُرک مُستَشرِق تھے ۔وہ ۱۹۲۴ میں ضلع بتلیس میں پیدا ہوئے ۔ایک مقامی مفتی و عالم دین اُن کے اولین اُستاد تھے جن سے اُنہوں قرآن پڑھا، عربی زبان سیکھی اور حدیث و فقہ اور اَدَب ِِعربی کی بنیادی کتابیں پڑھیں ۔۱۹۴۳ میں وہ استنبول یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے ۔

۱۹۶۰ میں فوجی بغاوت کی مخالفت کے نتیجے میں انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ۔اپنے  ایک  جرمن  اُستاد ماہرِ علوم مشرقیہ پروفیسر  ہیلمٹ ریٹرکی ایما پر وہ جرمنی چلے گئے اور استنبول کی طرح وہاں بھی  اسلامی دانش و حکمت کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔

ان کی علمی شہرت یورپ کے دیگر ملکوں اور امریکہ تک پھیل چکی تھی ۔مختلف جامعات سے انہیں ملازمت کے آفر ملے لیکن انہوں نے ترکی سے قربت کے باعث جرمنی ہی میں قیام  کو ترجیح دی تاکہ اپنے وطن آنے جانے میں زیادہ دشواری نہ ہو ۔

 ترکی کے ایک عالم، اَنقرہ کی یلدرم با یزید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم ( پولیٹکل سائنس ) کے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل لکھتے ہیں کہ ’’جرمنی میں انہوں نے اسلامی سائنس کی تاریخ  اور جدید سائنس کے اطلاقی شعبوں میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں ۔وہ ساری زندگی دانش و حکمت کے وسیع علمی میدانوں  اور دنیا کے  مختلف  قدیم کتب خانوں کی خاک چھاننے میں مصروف رہے ۔‘‘

ڈاکٹر قدرت نے لکھا ہے کہ’’ وہ جدید سائنس کے نت نئے تجربات کرنے میں اتنے مشغول رہتے تھے کہ  بسا اوقات اُنہیں کھانے پینے اور اپنی نجی ضروریات کا  بھی  ہوش   نہیں رہتا تھا ۔انہیں اس بات کا بہت دکھ تھا کہ امت مسلمہ پچھلے پانچ چھے سو برسوں کے دوران جدید سائنس کی تعلیم میں کافی پچھڑ چکی ہے جبکہ علوم اسلامی متعدد مغربی سائنسدانوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے ہیں ۔

 فواد سیزگن اپنے جرمن مستشرق  استاد پروفیسر  ہلمٹ ریٹر کے کام اور ان کے نظم و ضبط سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا ہے  کہ وہ اپنے جرمن استاد   ہلمٹ ریٹر ہی کی بدولت بہت سے ایسے مسلم سائنسدانوں کے نام  اور کام سے واقف  ہوئے جن کے بارے میں وہ پہلے کچھ نہیں جانتے تھے۔

ڈاکٹر قدرت لکھتے ہیں کہ’’ وہ روزانہ سترہ سے اٹھارہ گھنٹے تحقیق و تصنیف میں مصروف رہتے تھے اور تھکن کے نام سے بھی واقف نہ تھے ۔فواد سیزگن جس کام کے لیے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مغربی سائنس اور اسلامی سائنس میں تضادات کے بجائے اُن کی مشترکہ خصوصیات کو اجاگر کرنے کا کام کیا ۔ انہوں نے فرینکفرٹ میں ایک ’عرب ۔اسلامک سائنس ہسٹری انسٹی ٹیوٹ‘ قائم کیا اوراپنی زندگی بھر کی کمائی اور  ساری جمع پونجی  فرینکفرٹ(جرمنی )  اور استنبول (ترکی)میں اسلامی سائنسی علوم کے تاریخی میوزیموں کے قیام میں صرف کردی ۔

ابن سینا اکیڈمی  علی گڑھ کا سہ ماہی نیوز لیٹر(نیسا۔NISA) کا تازہ شمارہ (جولائی ۔ستمبر ۲۰۱۸)  پروفیسر فواد سیزگن  کو معنون ہے  ۔نیسا  کے اسو سی ایٹ ایڈیٹر پروفیسر ضیاء الرحمن نے لکھا ہے کہ فواد سیزگن نے  استنبول یونیورسٹی میں جرمن مستشرق ہلمٹ ریٹر (Helmut Riter)ہی کی نگرانی میں  پی ایچ ڈی کے لیے اپنا تحقیقی   مقالہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’امام بخاری ؒ کے مآخذات ِ حدیث‘‘!

 ۱۹۶۱ ء میں وہ فرینکفرٹ منتقل ہوگئے جہاں  انہوں نے  ’’اسلام میں سائنس کی تاریخ ‘‘ کے موضوع پر مزید تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا   جس کے خاطر خواہ نتائج  بر آمد ہوئے یہاں تک کہ ۱۹۸۲ میں وہ فرینکفرٹ ہی میں Institute of the History of Arabic Islamic Sciences کے نام سے  اسلامی سائنس کی تاریخ کا وہ   غیر معمولی ادارہ  قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جو اپنی نوعیت کا دنیا میں پہلا  تحقیقی مرکز ہے ،جہاں ہجرت نبی ﷺ کے بعد سے اسلام کے اولین پانچ سو برسوں کے درمیان ہونے والے ہر چھوٹے بڑے علمی و سائنسی کام کا  مکمل تاریخی  ریکارڈ موجود ہے ۔دنیا میں اس نوعیت کا دوسرا معروف ادارہ علی گڑھ کا ابن سینا اکیڈمی ہے ۔

اگرچہ حکیم ظل الرحمن کی ملاقات فواد سیزگن سے ۲۰۰۳ میں اسوقت ہوئی جب وہ اپنے دورہ یورپ کے دوران ان سے ملاقات کرنے اور ان کا ادرہ دیکھنے کے لیے بطور خاص فرینکفرٹ تشریف لے گئےتھے لیکن ،ابن سینا اکیڈمی اور تاریخ طب و سائنس کے دو میوزیموں کے قیام کا کریڈٹ اُس’ علم‘ کو جانا چاہیے جو انہیں فواد سیزگن کے تحقیقی کام اور ادارہ سازی کے تعلق سے دوران تعلیم  حاصل  ہوا تھا ۔جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ فواد سیزگن کا ادارہ ءِتاریخ ِاسلامی سائنس ۱۹۸۲ میں قائم ہو چکا تھا حکیم سید ظل الرحمن نے ابن سینا اکیڈمی اور میوزیم اُس کے اٹھارہ برس بعد سن دو ہزار میں قائم کیے َ۔اِن دونوں بڑے لوگوں میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں نے تاریخ سائنس کے یہ ادارے کسی بھی بیرونی امداد کے بغیرمحض اپنے بل بوتے پر،  اپنےصرف خاص سے قائم کیے ۔

ابن سینا اکیڈمی نیوز لیٹر کے ایڈیٹر پروفیسر رضاء اللہ انصاری تو ایک سے زیادہ بار فواد سیزگن کے ادارے کو دیکھنے اور  اُن سے استفادہ کرنے کے لیے فرینکفرٹ تشریف لے جا چکے ہیں ۔

 آخر کلام میں مضمون کو تمام کرتے ہوئے بس اتنا اور کہنا ہے کہ فواد سیزگن کو  اپنے اس کارنامے میں وہ شاعر مشرق اقبال کے ساتھ شریک ہیں کہ ان دونوں عباقرہ ءِ وقت نے نہ صرف مسلم دنیا کو اِس   کا احساس دلایا کہ اُس  نے پچھلی پانچ چھے صدیوں میں کیا کچھ کھو دیا ہے  بلکہ  یہ بھی  بتایا کہ  حکمت کے اِس  گم شدہ خزانے کو   دوبارہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔پروفیسر فواد سیزگن نے البتہ  اپنی تصانیف  اور اپنے  سائنسی تجربات سے  ،نہ صرف مسلم دنیا، بلکہ پوری دنیا  کے سائنسدانوں کو دانش ،حکمت اور  تحقیق کی ایک نئی راہ سے روشناس کرانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *