ہندوستانی مسلمانوں کی شباب،گلاب اور کتاب کے کاروبار میں شمولیت

عطر کشید کرنے کے لئے بھٹی پر پکایا جا رہا ہے
عطر کشید کرنے کے لئے بھٹی پر پکایا جا رہا ہے

انور اعظم  برائے معیشت

انور اعظم اصلاحی
انور اعظم

مدرسۃ الاصلاح سرائمیر سے فارغ التحصیل انور اعظم نے اپنے فیس بک پوسٹ پر مسلمانوں میں رائج کاروبار پر اظہار خیال کیا تھا۔جسے افادہ عام کی خاطر اب معیشت میں شائع کیا جا رہا ہے۔(مدیر)
پچھلے دس سال کے عرصہ میں کم سے کم چار بزنس کو قریب سے دیکھا اور اسکے ٹرینڈس کو محسوس کیا ہے۔ اتفاق سے ان میں سے تین بزنس ایسے ہیں جن کا خالص تعلق مسلمانوں سے ہے (1) دینی کتب (2) یونانی دوائیں (3) عطریات .. ایک تو دس سال کے عرصہ کا میرا مشاہدہ ہے کہ بھارت کا مسلمان عمومی طور پر بزنس کی معیاری کمیونٹی نہیں ہےسوائے ان میں ایک خاص گروپ جو میمن کہلاتا ہے اور جن کا تعلق گجرات سے ہے اور بھارت کے سینٹرل اور سینٹرل ساؤتھ کے ہر بڑے شہر میں ان کی موجودگی ہے اور ان کے علاوہ مسلمانوں کے ہر گروہ کے کچھ منفرد لوگ ہیں جو بزنس کے رموز سے واقف ہیں اور اچھے بزنس مین ہیں۔ میرے برادرِ محترم جناب نیّر اعظم صاحب کی ممبئی کے مشہور اور مصروف علاقے بھینڈی بازار میں ایک معروف دینی کتب کی شاپ “بُک سٹی” کے نام سے واقع ہے۔ اس شاپ پر مجھے تین چار سال کام کرنے کا موقع ملا۔ دینی کتب کا بزنس سو فیصد مسلمانوں سے متعلق ہے۔ پبلیشرز، فروخت کرنے والے اور خریدنے والے سب کے سب مسلمان۔ ویسے تو بھارت کے ہر بڑے شہر میں دینی کتب کا چھوٹا بڑا پبلشنگ ادارہ موجود ہے لیکن بیشتر بڑی پبلشنگ کمپنیاں دہلی میں واقع ہیں۔ خالص مسلمانوں کے بزنس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہاں بزنس کا کوئی سیکریٹ نہیں ہوتا یعنی خریدار کو پتہ ہوتا ہے کہ دکاندار کو کتنا منافع مل رہا ہے اور وہ(خریدار) چاہتا ہے کہ دکاندار اس پرافٹ سے خریدار کے حق میں فی سبیل اللہ دستبردار ہوجائے۔ اس بزنس پر ایک خاص “کرم” اہلِ دیوبند ( میری مراد دارالعلوم دیوبند سے نہیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ فارغین دیوبند کا ایک طبقہ اس میں شامل ہے) کا ہے۔ وہ “کرم” یہ ہے کہ دینی کتابوں کی پائریسی کا سب سے بڑا اڈّہ دیوبند ہی ہے۔ وہ مصنفین جن کو حلقہ دیوبند ضالّ اور مضلّ کہتے نہیں تھکتا ان کی تصانیف کی پائریسی یعنی بغیر اجازت اور کاپی رائیٹ کے انہیں چھاپنے اور فروخت کا کام یہاں دھڑلّے سے ہوتا ہے کیونکہ ان کتب کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ ہوتی ہے مثلاً اہلِ حدیث مکاتیب کی مشہور کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی کی چند چنندہ کتب یہاں تک کہ بیروت اور شام کی لغات اور کتب بھی۔ یہ پائریٹیڈ کتب دیوبند میں آسانی اور فراوانی سے 70 فیصد تک ڈسکاؤنٹ ریٹ پر دستیاب ہوتی ہیں۔ اگر کبھی کتب کی پائریسی کرنے والا پبلشر آپ سے ٹکرائے اور آپ اس پر احتجاج درج کرائیں تو بڑے “متقیانہ” لہجے میں آپ کو جواب عنایت ہوتاہے کہ “ایسا کرکے ہم دین کی خدمت ہی کر رہے ہیں”۔
ممبئی چونکہ میٹروپالیٹن شہر ہے اس لئے یہاں ہندوستان کی تمام ریاستوں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ہماری دکان پر ہر مسلک کی کتب دستیاب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے جتنے مسالک اور ان کے ذیلی مسالک ہیں تقریباً تمام سے سابقہ رہتا ہے۔اس سلسلے کے کچھ دلچسپ ذاتی مشاہدات ہیں۔
(1) نارتھ انڈیا(یوپی-بہار) کے مقابلے ساؤتھ کے لوگ زیادہ bargaining نہیں کرتے۔ یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں رہے گا کہ نارتھ انڈیا کے لوگوں کی اسی عادت کی وجہ سے ہم لوگ عرب میں بھی مشہور ہیں۔ آپ حج یا عمرہ پر جائیں تو مکہ اور مدینہ میں عربی شاپ کیپر سے آپ ہر جگہ “ہندی کنجوس” “ہندی کنجوس” سن سکتے ہیں۔
(2) بریلوی حضرات دیوبندیوں اور اہلحدیثوں کے مقابلے میں دینی کتب کی خریداری میں بہت کم bargaining کرتے ہیں،شائد اس کی وجہ بریلوی حضرات کے یہاں دین سے متعلق چیزوں کے سلسلے میں تقدس کا ایک خاص رجحان ہے۔
(3) ایک خاص مشاہدہ ” جوشِ تبلیغ ” کے بارے میں ہے۔ میں نے ہر مسلک سے وابسطہ خواتیں (جوکہ اپنے مسلک اور جماعت کے اجتماعات میں شرکت کرتی رہتی ہیں) کو “جوش تبلیغ” سے معمور پایا۔ یہ دکان پر کتاب خرید رہی ہوں اور کوئی دوسرے مسلک کا فرد کوئی کتاب خریدنے آجائے یہ اس شخص پر اپنے مسلک کی تبلیغ کرنا واجب سمجھتی ہیں۔ ہم ایسی سچویشن کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور “مبلغہ صاحبہ” کو فوراً خاموش کراکر ان کے جوش تبلیغ کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں۔
(4) کتابیں شائع کرنے کے جتنے ادارے ہیں ان میں سب سے زیادہ اداسین(ہندی)مرکزی مکتبہ اسلامی والے ہیں ۔ ان لوگوں کو نا دین سے مطلب ہے ( یعنی اس بات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے کہ جماعت کا لٹریچر زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچے) اور نا دنیا سے مطلب ہے( یعنی اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ انکا بزنس بڑھے) بالکل سرکاری مزاج واقع ہوئے ہیں اس ادارے سے منسلک لوگ۔
دینی کتب کے کاروبار کے رجحانات پر اپنا مشاہدہ پیش کیااب یونانی ادویہ کے کاروبار کے متعلق خامہ فرسائی کروں لوں۔
دینی کتب کی طرح یونانی دواؤں کا کاروبار بھی خالص ملی کاروبار ہے یعنی یونانی دواؤں کے مینوفیکچرر ، اس کو بیچنے والے، اس پیتھی کے ڈاکٹرس اور اسے استعمال کرنے والے سبھی مسلمان ہوتے ہیں۔ شمالی ہند اور جنوبی ہند میں ہول سیل کے کاروباریوں کے رجحان میں دو فرق میں نے پایا (1) شمالی ہند میں ہول سیلر کاروبار کی ایک بنیادی پالیسی (یعنی دکاندار اور عام خریدار کی قیمت میں فرق رکھنا ) کو بری طرح روند دیتے ہیں۔ یہاں شمال کا ہول سیلر چاہتا ہے کہ وہ دکاندار کو بھی مال بیچ کر منافع کمائے اور عام گراہک کو بھی مال بیچ کر منافع کمائے۔ یعنی اگر ہول سیلر کوئی چیز جس کی قیمت 100 روپئے ہے دکاندار کو بیچنے کے لئے 80 روپئے میں دیتا ہے تاکہ دکاندار اسے پوری قیمت پر بیچ کر 20 روپئے منافع کمائے تو وہی ہول سیلر اسی چیز کو عام گراہک کو بھی 80-85 روپئے میں بیچ دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ رٹیل کسٹمر بھی اسی کے پاس آئے۔ یہ بالکل ساہوکارانہ رجحان ہے۔ جبکہ جنوبی ہند میں ایسا نہیں ہے یعنی ہول سیلر اگر دکاندار کو کوئی چیز 80 روپئے میں دیتا ہے تو کسی رٹیل کسٹمر کو وہ یا تو انٹرٹین ہی نہیں کرے گا یا کبھی رٹیل کسٹمر کو وہ سامان بیچے گا بھی تو پوری قیمت لے گا تاکہ جن دکانداروں کو اس نے مال فروخت کیا ہے انکا بزنس خراب نا ہو۔
(2) شمالی ہند میں اگر آپ ایک سپلائر ہیں اور مختلف دکانوں پر اپنا مال سپلائی کرتے ہیں تو یہاں کا عام مزاج ہے کہ دکاندار مال ادھار پر لینا چاہتا ہے اور پھر اس پیسے کی ادائیگی تھوڑا تھوڑا کرکے کرتا ہے۔ مثلاً آپ نے کسی دکاندار کو 1000 روپئے مالیت کا مال دیا تو دکاندار آپ کو 100 ، 100 روپئے کرکے پیسہ لوٹائے گا۔ آپ ہفتہ میں ایک دفعہ جائیں تب بھی اور اگر آپ 4 مہینے بعد ایک ساتھ چاہیں تب بھی 100 روپئے ہی پکڑائے جائیں گے۔ یہاں کیش اور زیادہ ڈسکاؤنٹ پر مال خریدنے کا رجحان تقریباً نہیں ہے۔
ڈپارٹمنٹ آف آیوش کے ایک سروے کے مطابق بھارت میں یونانی دواؤں کی کم وبیش 400 کمپنیاں ہیں جن میں ریکس ریمیڈیز، نیوشمع، طبیہ کالج علیگڑھ، ہمدرد اور دہلوی ریمیڈیز وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
ویسے تو ہر پیتھی کے ڈاکٹرس کی طرح حکیموں کا بھی دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کے پاس ہر مرض کی دوا ہے۔ لیکن تجربات بتاتے ہیں کہ امراضِ شکم اورامراضِ جنس میں یونانی پیتھی اوروں کے مقابلے زیادہ کارگر ہے۔ جب میں حکماء کی امراض شکم اور امراضِ جنس میں خاص ماہر ہونے کی وجوہات پر غور کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یونانی کی زیادہ ریسرچ بادشاہوں اور نوابوں کے دور میں ہوئی اور تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ بادشاہوں اور نوابوں کا خاص شوق “کھانا” اور “جنسیات” تھا ۔ گویا ان دو فیلڈ میں ریسرچ کرنے پر حکیموں کو بادشاہوں اور نوابوں سے مالی منفعت کی امید زیادہ ہوتی ہوگی۔ یہ میرا خیال ہے بس اور مجھے اس پر اصرار بھی نہیں۔ یونانی دواساز کمپنیاں اپنی کچھ پیٹنٹ دواؤں سے دیگر زیادہ تر دوائیں بیاضِ کبیر یا نیشنل فارمولری آف یونانی میڈیسن کے مخصوص فارمولے پر بناتی ہیں- اس لئے مختلف کمپنیوں میں بننے کے باوجود ان دواؤں کے نام مشترک ہوتے ہیں۔ یونانی دوا ساز کمپنیاں اپنے پروڈکٹ کو زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کی بودی اسٹریٹیجی کے طور پر مختلف دوا کی پیکنگ پر ” دِل کی قوت کے لئے” ” دِماغ کی طاقت کے لئے” ” کمزوری کے لئے” “جگر کے جملہ امراض کے لئے” تلّی کے لئے” لکھ دیتی ہیں تاکہ لوگ پیکنگ پر درج ان جملوں کو پڑھ کر حکیم کے مشورے کے بغیر بھی زیادہ سے زیادہ ان ادویہ کو خریدیں۔ حالانکہ جس دوا کی پیکنگ پر “دماغ کی طاقت کے لئے” لکھ دیا جاتا ہے وہ دوا کافی سنگین امراض جیسے اختلاج قلب ،ڈپریشن ،مالیخولیا،کمزور یادداشت،تسلطِ خیال اوراضطرار وغیرہ کی کارگر دوا ہوتی ہے جس پر محض ماغ کی قوت کے لئے لکھ کر اس کی دوائی ساکھ کو مجروح کر دیا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص بذریعہ ٹرین یا سڑک پورے ملک کا دورہ کرے تو دیواروں پر موجود حکیموں اور نیم حکیموں کے اشتہارات کو دیکھ کر اس پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ پورے ملک کے سب سے بڑے مسائل محض تین ہیں “بواسیر، گنجاپن، سرعتِ انزال”

ہندوستانی بادشاہ محمد شاہ رنگیلا جسے یونانی دائوں سے خاص لگائو تھا
ہندوستانی بادشاہ محمد شاہ رنگیلا جسے یونانی دائوں سے خاص لگائو تھا

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ یہ نیم حکیم جو دوائیں مریضوں کو پروستے ہیں یہ عام طور پر بیاضِ کبیر کے فارمولے پر مختلف دوا ساز کمپنیوں کی تیار کردہ ادویہ ہوتی ہیں جنہیں یہ نیم حکیم کمپنیوں کی پیکنگ سے الگ کرکے دوسرے ڈبوں میں بھر کر مریضوں پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے بڑی تگ و دو کے بعد مختلف نایاب جڑی بوٹیوں کو حاصل کرکے انتہائی جانفشانی سے یہ معجون یا چٹنی تیار کی ہے۔ اس طرح وہ دوا جسکی مارکیٹ قیمت 200 روپئے ہوتی ہے نیم حکیم اسکا مریضوں سے 2000 روپئے تک وصول کرتے ہیں۔
قنّوج!!! مرکزِ عِطرہے۔ اتور کے روز جانا ہوا۔ کانپور سے تقریباً 80 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹا سا شہر۔ یہاں اب بھی حیرت انگیز طور پر تانگا ہی بطور عوامی سواری استعمال میں ہے۔ صدیوں سے عِطرِ خالص کے لئے مشہور۔ عِطرِگلاب، عِطرِ خس ، عِطرِ شمامہ ، عِطرِ مشک ، عِطرِ حنا ، عِطرِ صندل ، اور ایک بالکل ہی اپنی طرح کا عِطرِ مِٹّی پرانی روایتی تکنیک سے کشید کیا جاتا ہے۔
ان عطریات کا ذکر شعراء نے اپنے کلام میں بھی کیا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کہتے ہیں ” تر رکھیو سدا یارب تو اس مژہ تر کو- ہم عِطر لگاتے ہیں گرمی میں اسی خس کا”
مادھو رام جوہر کہتے ہیں ” اب عِطر بھی مَلو تو تکلّف کی بو کہاں— وہ دِن ہوا ہوئے جو پسینہ گلاب تھا”
عمران عامی فرماتے ہیں ” اسی لئے سب سے الگ ہے مری خوشبو عامی— مشک مزدور پسینے میں لئے پھرتا ہوں”
عِطر مٹی کے بارے میں گویا فقیر محمد کا دلچسپ شعر ” عطر مٹی کا لگایا چاہئے پوشاک پر- خاک سے رغبت رہے مِلنا ہے اک دن خاک میں ” ۔
جتنے بھی قدرتی عطر کشید کئے جاتے انہیں روغنِ صندل پر کشید کیا جاتا ہے۔ ایک بڑے سے پیتل کے دیگ جسکی گنجائش تقریباً دو کوئنٹل تک ہوتی ہے اس میں جس پھول یا چیز کا عطر کشید کرنا ہے اسے بھر دیا جاتا ہے۔ اس دیگ کو بھٹی پر رکھ کر اس کا منھ بند کر دیا جاتا ہے اور اس بند منھ سے بانس کا ایک پائپ جڑا ہوتا ہے جو دوسری طرف سے ایک برتن سے جوڑ دیا جاتا ہے جس میں روغن صندل بھرا ہوتا ہےجسکی گنجائش تقریباً 10 کلو ہوتی ہے۔ دیگ کو لگاتار آگ پر پکایا جاتا ہے جسکی وجہ سے دیگ سے لگاتار بھاپ چونگے میں جاتی رہتی ہے۔ دیگ کو پکانے کا دورانیہ لگاتار تین مہینہ تک ہو سکتا ہے۔ اسکے بعد چونگا الگ کر لیا جاتا ہےجو کہ روغن صندل اور بھاپ سے بھرا ہوتا ہے۔ اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے ایک روز چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ بھاپ ٹھنڈی ہوکر عرق میں تبدیل ہوکر نیچے بیٹھ جائے اب برتن کے نچلے حصے سے عرق نکال لیا جاتا ہے۔ جو بچ رہتا ہے یہی عطر خالص ہے۔
قنوج میں ایک لاکھ روپیہ فی کلو سے اٹھارہ لاکھ روپیہ فی کلو تک عطر دستیاب ہیں ۔کچھ ہی فرمس عطر خالص کا کام کر رہی ہیں جن میں اصغر علی، مول چند ، بالاجی ، محمد ایوب (ملک صاحب ) مشہور ہیں ۔ ملک صاحب کے عطریات کی سپلائی پوری دنیا میں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *