ہندوستانی مذاہب کے درمیان مشترکہ بنیادوں کی جستجو

فرینک ایف اسلام
فرینک ایف اسلام

فرینک اسلام
سابق خارجہ سکریٹری شیام سرن نے اپنے ایک مضمون کی شروعات کچھ یوں کی۔” ہندوستان میں ہونے والے کچھ حالیہ واقعات نے ملک کی ایک عظیم، کثیر ثقافتی اور کامیاب جمہوریت کی شبیہ کو مجروح کردیا ہے۔”سرن نے ملک میں “ہماری سیاسی اور سماجی گفتگوؤں میں بڑھتی فرقہ واریت اور گروہ بندی “پر گہری تشویش کا اظہار کیاہے۔ سرن نے کہا کہ “ہم سب سے زیادہ روادار اور متحمل ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے، ہم اس بات پر جشن مناتے تھے کہ ہمار ے ملک میں مختلف مذاہب، ثقافت، روایات ، طرز زندگی اور زبانیں پائی جاتی ہیں۔ یہ تنوع ایک دوسرے کی شراکت سے کامیاب ہوتا ہے لیکن یہ اس وقت زہر بن جاتا ہیجب ‘ہمارے’ اور ‘ان کے’ درمیان تفریق پیدا کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی ہندو اور مسلمان کے بیچ تفریق کرکے ایک بہتر ہندو کی شناخت نہیں پا سکتا۔
یقینا، ہم کسی طرح کی کوئی تفریق کیحق میں نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے بجائے ہم روحانی طور پر مشترک بنیادوں کو تلاش کرنے کی پر یقین رکھتیہیں۔ اور ہمیں یہ مشترک بنیاد یں محض کسی اتفاق سے نہیں مل سکتیں بلکہ یہ پختہ یقین کے ساتھ ایک متعین وقت تک مسلسل توجہ اور لگن کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ان کے حصول کے بعد مذہبی ،علاقائی اور نسلی حدیں ختم ہوجانی چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ ہم ایسی مثالی حالت کو کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ ہم جہاں اور جس حال میں ہیں ہمیں وہیں سے اپنی جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیئے۔ ہمیں ان مشترکہ اقدار جس سے ہمار ی طاقت بڑھ سکتی ہو، کا ادراک کرنا چاہیے اور پھرراستے کا انتخاب کرنا چاہیئے کہ ہمیں کہا ں جانا ہے۔
مشترکہ اقدار کے ادراک کی مثال کے لیے ہم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی پنڈت مدن موہن مالویہ کی تعلیمات پر نظر ڈالتے ہیں۔
یہ وہ صاحب بصیر ت لوگ تھے جنہوں نے دنیا کو مذہب کے چشمے سے نہیں دیکھا بلکہ وسیع النظری اور مضبوط یقین ان کا اصول تھا جس سے لوگ منتشر ہونے کے بجائے متحد ہوسکیں۔
پنڈت مالویہ کا کہنا تھا: ” ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے بلکہ یہ مسلم، عیسائی اور پارسیوں کا بھی ملک ہے۔ یہ ملک اسی وقت طاقت ور ہوسکتا ہے اور ترقی کی منزلیں طے کرسکتا ہے جب کہ پورے ملک کے تما م باشندے آپسی بھائی چارے اور محبت کے ساتھ رہیں۔
سرسید نے بھی علی گڑھ کے فارغ التحصیل لوگوں کے بارے میں کہا کہ” یہ لوگ زمین کے طول وعرض میں پھیل جائیں اور اخلاق، مروت ، رواداری اور آپسی افہام و تفہیم کا درس دیں۔
گرچہ سرسید اور مالویہ میں کوئی مذہبی رشہ نہیں تھا لیکن یہ بات بغیر کسی شبہہ کے کہی جاسکتی ہے کہ ان کے مابین ایک روحانی رشتہ ضرورتھا۔ یا یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ ا ن کی روحیں ایک دوسرے کی دوست ضرور تھیں۔
انہیں اس بات کا علم تھا کہ روحانیت ایک ماورائی چیز ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ روحانیت ایک غیر مرئی طاقت ہے جو ہمارے اندیشوں کے باوجود ہمیں متحد کرسکتی ہے۔ انہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ سب سے اچھا ہوتا کہ خدا کی زمین میں صرف ایک ہی ملک ہوتا۔
خدا کے زیر سایہ صرف اگر ایک ہی ملک رہتا تو وہ کیسا ہوتا؟ وہ خدا مسلمان ، ہندو یا عیسائی تو نہیں ہوتا ۔ وہ خدا سب کے لیے ہوتا نہ کہ صرف کسی ایک طبقے کے لیے۔ وہ خدا سب کو خوش آمدید کہتا، وہ خدا کسی کے کے ساتھ بھید بھاؤ کو پسند نہیں کرتا اور نہ کسی تعصب کی حوصلہ افزائی کرتا۔
ہم اپنے حصے کا کام جنت یا اس خدا کی طرف دیکھے بغیر جس ہم پرستش کرتے ہیں ، بھی کرسکتے ہیں۔ہمیں زمین اور اس پر موجود لوگوں اور اپنے اہل خانہ کی طرف توجہ کرنی ہے۔ ہم سب کو کامیابی کے حصول کے لیے ایک کردار ادا کرنا ہے اور کچھ لوگوں کو اس سلسلے میں خصوصی طور پر حصہ لیناہے۔
مذہبی رہنما بین المذاہب ڈائیلاگ کو فروغ دے سکتے ہیں۔ وہ مختلف مذاہب و مسالک کے لوگوں کو بامعنی گفت وشنید کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرسکتے ہیں۔ وہ دوسرے مذاہب کے ان لوگوں سے جو تھوڑی بہت سوچ سمجھ رکھتے ہیں ،کے ساتھ آپسی افہام و تفہیم کو فروغ دے سکتے ہیں۔ وہ اس بات کیلیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ ایک مذہب پر حملہ سارے مذاہب پر حملہ ہے۔
سیاسی لیڈران اتحاد اور اتفاق کے لئے ایک خاکہ بناکر اس کو فروغ دے سکتے ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ساریقانون سازی انصاف پر مبنی ہو اور اس کا یکساں طور پر نفاذ بھی ہو۔ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے مثبت کوششیں کرسکتے ہیں۔ انہیں امید کی جوت جگانی ہے نہ کہ ڈر پھیلاناہے۔
سماجی لیڈران آپسی شراکت داری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ انہیں آپس میں خیر اور بھلائی کے کاموں کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور اس کو دوسرے لوگوں میں پھیلانا بھی چاہیے۔انہیں اس طرح کا پروگرام منعقد کرنا چاہیے جس سے نسلی، مذہبی اور سماجی ومعاشی تقسیم کا خاتمہ ہوسکے۔ وہ ایک مضبوط ہندوستان کی تعمیر وتشکیل میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اب جب کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی صدار ت میں امریکہ کاجمہوریت کے لیے پوری دنیا میں قائدانہ کردار کم ہوتا جارہا ہے یہاں ایک خلا ہے جس کو پر کیا جانا ضروری ہے۔ ہندوستان اپنی مکمل صلاحیتوں کے بروئے کار لاسکتا ہے اور مشترک روحانی بنیادوں کو تلاش کرکیدنیا میں قائدانہ کردار اداکرکے اس خلا کو پر کرسکتا ہے۔

٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نڑاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ffislam@verizon.net(

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *