Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

مولانا آزاد ! مسلم قیادت کا درخشاں ستارہ

by | Nov 11, 2018

مولانا ابولکلام آزاد

نویدہاشم چوگلے،روہا ضلع رائے گڑھ

قوم کے دانشوران روز زور زرو سے چیختے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس لیڈر شپ کا فقدان ہے۔
ہماری کم سمجھی میں لیڈرشپ کہی آسمان سے نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ تو اسی سماج میں جنم لیتی ہے جس کی درخشاں مثال حضور اکرم ﷺہے مر ضی خداوندی نے وقت کی بھٹی میں آپ کی شخصیت کو تپایا اور جب آپ اس عمر کو پہنچے کہ جب قوم کا بارسنبھال پاتے آپؐ کو نبوت تفویض کی گئی۔
برآعظم ہندوپاک پر بھی ایسا موقع آیا تھا کہ ایک مضبوط قیادت انگڑائیاں لے رہی تھی لیکن برا ہو مسلک پرستوں کا کہ جنکی تعصب پسندی کی بنا پر یہ کلی پھول بننے سے پہلے ہی چمن سے ہٹا دی گئی۔ وہ شخصیت تھی مولانا ابولکلام آذادؒ کی۔جن کی آج ۱۳۱ ویں یوم پیدائش ہے۔
صوفیت اور تقلید شخصیت کے چنگل میں پھنسے اس خانوادے کے چشم وچراغ آزادؒ پر اس خاندانی روایت کا بوجھ آیا تو مولانا نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا اور غور، تدبر،کے دروازے کو کھولا جو کے ہندوستا ن میںمسلمانوں پر بند کر دئے گئے تھے اور وہی کٹ ملائیت گمراہی بنکر عام مسلمان پر مسلّد کر دی گئی تھی۔ ایسے گمراہی بھرے دور میں محی الدین نے اپنے زور قلم سے مسلمان کوجھنجھوڑا بقول ڈاکٹر اسرار احمد” ـ ـ اس صدی (۱۹۰۰)کے ا وائل میںمولانا ابولاکلام نے الہلال اور البلاغ کے ذریعے حکومت الٰہی کے قیام اور اس کیلئے حزب اللہ کی تعصیص کی پرزور دعوت پیش کی مولانا کے مخصوص طرض نگارش اور انداز خطابت نے خصوصاّ تحریک خلافت کے دوران انکی شہرت کو برصغیر بلکہ برعظیم کے طول و عرض میں پھیلایااور انکی دعوت نے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کومسخر کردیا؛ مولانا آزاد نے مسلمانان ہند کو دو نعرے دیے ۔قرآن اور جہاد ۔ جی ہاں! ہماری اس بات پر چوکنے کی ضرورت نہیںہوا اسطرح کہ آپؒ نے سن ۱۹۱۲ میں الہلال کے ذریعے آپ ؒ نے مسلمانان ہند کو جگایا اور سن ۱۳ میںحزب اللہ قائم کی آپ کی بانگ اسقدا پرزور تھی کہ شیخ الہند ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا” اس نوجوان نے ہمیں اپنا بھولا ہوا سبق یاد دلایا”۔ مولانا نے عوام کو قرآن کی طرف متوجہ کرایا ورنہ اس دور میں علماء کی توجہ قرآن کی طرف نہیں تھی وہ تو اپنی فقہی مسائل میںالجھے ہوے تھے ۔
آخر کیا ہوا کہ اس قدر نابغہ شخصیت کہ جن کے بارے میں گاندھی جی کہا کرتے تھے مولانا بہت ہی جینیس (Genius)پرسنالٹی(Personality) ہے یہاں تک کے ہمارے بڑے بڑے فیصلے آپ کے مشورہ سے سر انجام پاتے ہیں ۔

لیکن برا ہو مسلکی تعصب کا کہ جس کی بنا پر آج ہم اسلام کا ڈنکا عالمی سطح پر پیٹنے والے اس ذاکرڈاکٹر کو قبول نہیں کر پا رہیں کہ جس نے کی عیسائی پادریوں کو شکست فاش دی اور ہمارے وطن عزیز میں سناتھنیوں کا سب سے بڑا شری شری روی شنکر بھی اپنی ہار تسلیم کرتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف لکھی اپنی کتاب واپس لینے پر مجبور ہوا ۔ خیر۔یہی حال اس دور میں بھی تھا۔
مولانا آزاد بھی اسی تعصب کے شکار ہوے واقعہ یہ تھا کی ۱۹۱۲ سے ۱۹۲۰ تک مسلمانان اسلام کو چھنچھوڑنے کہ بعد ۱۹۲۰ کہ جمعیت علماء کے دوسرے سالانہ اجلاس میں شیخ الہند ؒ نے یہ تجویز پیش کی کہ ابولکلام کو اماالہند مان کران کی ہاتھ پر بعیت کی جائے کیونکہ یہی آدمی ہے جوکہ رہنمائی کی خدمت سر انجام دے سکتا ہے۔جلسہ عام میں پر جوش تقاریر ہوئی اور لوگ تھے کے پکار رہے تھے کہ لائیے ہاتھ ہم بعیت کرنے کے لیئے تیار ہیں کہ اسی دم مولانا اجمیری کھڑے ہوے اور انھوں نے اایک مسئلہ پیش کیا کہ اتنا بڑھا فیصلہ اجلاس عام میں نہی ہونا چاہیے ۔ شیخ الہندؒ اس جذبہ میں تھے کہ فرمایا میری چار پائی اسٹیج پر لے جائی جائے میں بعیت کیے بغیر مرنا نہی چاہتا اس کے با وجو د بات وہی کہ وہی رہ گئی اس اثناء میں شیخ الہندؒ کا انتقال ہوگیا ۔ اس واقعہ سے دل برداشتہ ہوکے مولانا آزاد اس عمل سے دستبردار ہوگئے اور انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی۔یہیں وقت مسلمانان ہند ممکنہ مذہبی قیادت سے محروم ہوگئی۔
مولانا آزاد یقینا بہت قابل شخصیت تھی یہی وجہ تھی کہ بہت ہی کم عرصے میں آپ کانگریس پر چھا گئے ۔ لیکن مسلمانان ہند کی بد نصیبی دیکھئے کہ ایک بہت بڑے گروہ نے ہمیشہ آپ کو کانگریس کا ایجنٹ گردانا اور جناح صاحب تو آپ کو کانگریس کا شو بوائے کہتے تھے۔ تقسیم ہند کا سب سے زیادہ درد مولانا کو تھا اور آپ نے حتی المکان کوشش کی کہ مسلمان ہندوستان چھوڑ کے نہ جائے اور آپ نے پیشینگوئی فرمائی کہ اسلام کے نام پر بنا ملک پاکستان ۲۵ برس بھی یک جٹ نہیں رہ پائے گا اور جو ہی لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑے گاوہ خون کے آنسوں رووے گے اور آگے چل کر دنیا نے دیکھا کہ مذہب کے نام پر ملک کا مطالبہ کرنے والوں نے محض ۲۵ سالوں کے اندر اپنے ہم مذہب،ہم وطنوں کے گلے کانٹے ۔مسلمانان ہند کی وہ بڑی سیاسی غلطی تھی۔جس کا خمیازہ آج تینوں ملکوں کے مسلمانان بھگت رہیں ہیں۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...