امریکہ میں ضمنی الیکشن: کیا یہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے لیے ایک ریفرنڈم ہے؟
فرینک اسلام
امریکہ میں ضمنی الیکشن 6نومبر کو منعقد ہورہا ہے۔ بہت سارے اہل علم کا خیال ہے کہ یہ الیکشن انتہائی اہم اور دوررس اثرات کا حامل ہے۔ گرچہ یہ ایک ضمنی الیکشن ہے اور اس میں صدر کے عہدے کے لیے انتخاب نہیں ہونا ہے لیکن پھر بھی یہ اہم اس لییہے کیوں کہ اسے ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے ریفرنڈرم قراردیا جارہاہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جارحانہ انداز کی قیادت اور شخصیت پہلے سے ہی منقسم ملک کو ایک منتشر کیمپ میں بدل رہی ہے۔ وہ مسلسل اپنی ریپبلکن بنیاد کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں اور اسی انداز میں حکومت کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان لوگوں کو مستقل طور پر طور چھوڑ دیا ہے جنہوں نے ڈیموکریٹک کو ووٹ دیا تھا۔
ٹرمپ نے پورے ملک کی سطح پر ریپبلکن امیدواروں کی حمایت میں مہم کے دوران اپنے بیانات سے پولرائزیشن کے طریقہ کار پر سختی سے عمل کرنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے اپنے سرگرم حمایتیوں سے ہر الیکشن کو ان کے خود کے الیکشن کے طور پر برتنے کے لیے کہا ہے۔ اس سے ان کے حمایتیوں کے حوصلے کافی بلند ہوگئے ہیں اور ان کے مخالفین میں اشتعال پیدا ہواہے۔ معرکے کے خدوخال تیار کیے جاچکے ہیں اور اس کا نتیجہ الیکشن کے دن پر منحصر ہے۔
اس کا بنیادی نتیجہ امریکی کانگریس کے کنٹرول پر ظاہر ہوگا جس کے دوچیمبر ہیں۔ ہاوس (جس میں 50 ریاستوں کی آبادی کے تناسب سے 435 ممبر ہیں) اور سینیٹ (جس میں ہر ریاست سے دو ممبر ہیں)۔ اس وقت ریپبلکن کو ہاؤس اور سینیٹ دونوں جگہ اکثریت حاصل ہے۔
اس کا سب سے اہم نتیجہ اس صورت میں برآمد ہوگا کہ اس کا اثر امریکی حکومت کی پالیسیوں اور ان کے نفاذ میں کس طرح پڑتا ہے۔اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کانگریس کسی مسئلے پر کتنا ہی منقسم ہوجائے ، صدر کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات اسی طرح قومیت زدہ اور تفرد زدہ ہوں گے اور اس کا اثر امریکہ اور ہندوستان کے مابین تجارت، معاہدات اور امیگریشن پر زیادہ پڑے گا۔
امریکہ میں اس کا سب سے بڑا اثر کانگریس کے ذریعہ صدر ٹرمپ کے ایجنڈے کی زیادہ حمایت یا زیادہ مخالفت پر منتج ہوگا۔
اس ایجنڈے میں ٹیکس میں تخفیف کے ذریعہ عام شہریوں کو کچھ فائدہ پہنچانے ، امیر اور بڑے سرمایہ داروں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچانے اور سابق صدر اوباما کے ذریعہ تمام امریکی شہریوں کو ایک مناسب قیمت پر حفظان صحت کی سہولت فراہم کرنے والی اسکیم کو ختم کرنے پر بھی ہوگا۔
ٹرمپ کے ایجنڈے میں ملک کی ایجنسیوں کے رول کو کم کرنایا ان کو یکسر بدل دینا بھی شامل ہے۔ ان ایجنسیوں میں تعلیم، داخلہ، محنت، رہائش اور شہری ترقی اور ماحولیات کے تحفظ کے شعبے شامل ہیں۔
خالص قانون سازی کے نقطہ نظر سے یہ بہت اہم نہیں ہے کہ ریپبلکن کو دونوں ہاؤس پر کنٹرول ملتا ہے یا نہیں۔یا کنٹرول تقسیم ہوجاتا ہے یا پھر ڈیموکریٹ کو کنٹرول مل جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تقریبا پچھلی ایک دہائی سے کانگریس ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہے اور وہاں پارٹی لائن سے ہٹ کر بہت کم ہی سمجھوتے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے زیادہ قانون سازی نہیں ہوسکی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کنٹرول ٹرمپ کو اپنا ایجنڈہ نافذ کرنے کے لیے اہم ہے؟ الیکشن کے بعد بھی وہ انتظامی حکم کے تحت مسلسل حکومت کرتے رہیں گے۔ دونوں ہاؤس میں ریپبلکن کی اکثریت کا مطلب یہ ہوگا کہ اس طرح کے احکام اور قوانین کو پاس کرنے میں تقویت ملے گی۔ واضح اکثریت نہ ہونے کی صورت میں ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش کا آغاز ہوگا جس میں ایک ہاؤس دوسرے ہاؤس کے کام کو روکے گا یا اس کو بدل دے گا۔
معاملہ سب سے زیادہ دلچسپ اس وقت ہوگا جب ڈیموکریٹ کو دونوں ہاؤس پر کنٹرول حاصل ہوجائے۔ایسی صورت میں دوسری چیزوں کے علاوہ یقینی طور پرٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کو ختم کردیا جائے اور اوباما کے ذریعہ شروع کی گئی حفظان صحت اسکیم کو دوبارہ شروع کردیا جائیگا۔ اس کے علاوہ اسپشل کونسل روبرٹ مولر کی تحقیقات پر انحصار کرکے ٹرمپ کا مواخذہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
مجموعی طور پر امریکہ کا یہ ضمنی الیکشن اس لیے اہم نہیں ہے کہ اس سے قانون سازی میں کرشماتی تبدیلی واقع ہوگی بلکہ یہ اس لیے اہم ہے اس کے ذریعہ قانون ساز قومی بات چیت اور امریکی عوام کے برتاؤ اور سْر کو متاثر کرسکیں گے۔
امریکہ اس وقت ایک چوراہے پر کھڑا ہے۔ ریپبلکن کے کنٹرول کا تسلسل موجودہ تاریکی ، خوف اور عالمی مقام سے اس کی پسپائی کو اور بڑدھا دیگا۔منقسم یا ڈیموکریٹک کا کنٹرول نور تاباں ، امید اور اس کی بین الاقوامی قیادت کی امید لائے گا۔
آخر کیا ہونے والا ہے؟ اس موقع پر جب کچھ ہی دنوں میں الیکشن ہونے ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ کسی کوبھی کانگریس میں اکثریت نہیں ملے گی۔ ریپبلکن کو سینیٹ میں اکثریت ملے گی اور ڈیموکریٹ کو ہاؤس میں اکثریت حاصل ہوگی۔
فائیو تھرٹی ایٹ نامی ایک تحقیقی ادارہ جو کہ اعداد وشمار کی بنیاد پر الیکشن سے متعلق اپنا تجزیہ پیش کرتاہے کا ماننا ہے کہ ڈیموکریٹ کو ہاؤس میں 7 میں سے 6 نشستیں حاصل ہوں گی اور ریپبلکن سینیٹ کی 7میں سے 6 سیٹوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔
حالاں کہ اس کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ اس طرح کے پول ووٹ نہیں دیتے بلکہ ووٹ تو لوگ دیتے ہیں۔ اور یہ ووٹ 6نومبر کو پڑناہے۔ اس کے بعد ہی امریکہ ، ہندوستان اور پوری دنیا کے لوگوں کے اس کے نتائج کا علم ہوگا۔ اس کے بعد اندازے نہیں صرف نتائج ہوں گے۔
٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نڑاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ffislam@verizon.net(