ہندوستان کو صلاحیتوں کو نکھارنے اور ملازمت کے مواقع پیداکرنے والے ایک جامع منصوبہ کی ضروررت ہے

فرینک ایف اسلام
فرینک ایف اسلام

فرینک اسلام
سال 2014میں جب وزیر اعظم نریندرمودی لوک سبھا الیکشن لڑ رہے تھے اس وقت انہوں نے ہر سال ایک کروڑ ملازمت کا وعدہ کیا تھا۔ گرچہ ہندوستانی معیشت فروغ پارہی ہے لیکن اس ترقی سے ملازمت میں اضافہ نہیں ہوا ہے اور مودی حکومت ملازمت کے حوالے سے اس اعداد وشمار کے قریب بھی نہیں ہے جس کا اس نے وعدہ کیا تھا۔
اس مسئلہپر شروع میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا رہا اور 2018ا ور اس کے بعد مئی2019میں لوک سبھا الیکشن کے پیش نظر یہ ملازمت کے مواقع کا نہ ہونا بحث کا ایک اہم موضوع بن گیا۔
مودی اور ان کے حامی، ان اعداد وشمار کا استعمال کرتے ہوئے جس میں ا ب معیشت کے رسمی اور غیر رسمی دونوں شعبوں یعنی ٹیکس کی ادائیگی، سرکاری قرض اور حفظان صحت بھی شامل ہے کو ملاکر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان سالوں میں ملازمت کے بہت سارے مواقع پیدا کیے گئے ہیں۔ لیکن ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ عوام کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ نئی ملازمت کے مواقع پیدا کیے گئے ہیں، اعداد وشمار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ زمین پر نئی ملازمت کے لیے بہت کم کوشش کی گئی ہے۔
نتیجہ کے طور پر ملازمت کا مسئلہ ایک ایسا ایشو بن گیا ہے جو کی سیاسی فٹ بال کی طرح ادھرسے ادھر ہورہا ہے اورنئی ملازمت کے مواقع پیدا کرنے جیسے سنجیدہ مسئلہ پر باہمی تعاون کے ذریعہ کوئی پیش رفت نہیں ہو پارہی ہے۔
ہندوستان کی معیشت کے مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر کچھ حقائق پیش خدمت ہیں۔
٭ہندوستان میں 47کروڑکی افرادی قوت ہے جس میں آدھے لوگ اپنا ذاتی کاروبار کرتے ہیں۔
٭ہندوستان کی کل افرادی قوت کا 80فیصد غیر رسمی شعبہ سے تعلق رکھتاہے۔
٭تقریباایک کروڑ بیس لاکھ نوجوان ہرسال افرادی قوت کا حصہ بنتے ہیں۔
٭اچھی ملازمت کی کمی کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ سال 2015میں اتر پردیش میں 23لاکھ لوگوں نے چپراسی کی 368اسامیوں کے لیے درخواست دی جس میں صرف پانچویں درجہ کی تعلیمی لیاقت درکار تھی۔ ان درخواست دینے والوں میں ایک لاکھ 50ہزار لوگ گریجوٹ تھے، 25ہزار لوگ پوسٹ گریجوٹ اور 250لوگ پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ تعلیمی لیاقت رکھتے تھے۔
یہ اعداد وشمار یقینا پریشان کن ہیںاورفی الحال افرادی قوت میں سب سے زیادہ پریشان کن فیصد غیر رسمی شعبہ (informal sector) میں ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)نے اپنی حالیہ رپورٹ ’’غیر رسمی شعبہ کی معیشت میں مرد اور عورت: اعداد وشمار پر مبنی ایک جائزہ ‘‘ میں پایا کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے افرادی قوت سب سے زیادہ رسمی شعبہ ( formal sector) میں ہونی چاہیے اور اسی کے ذریعہ بامعنی ملازمت کی توقع کی جاسکتی ہے اور اسی سے ملازمین کو فائدہ ہوسکتا ہے۔
آئی ایل او کے مطابق ہندوستان جہا ں 80فیصد سے زیادہ ملازمت غیر رسمی شعبہ میں ہے، اس میدان میں جنوبی ایشاء کے ممالک میں بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا سے بھی پیچھے ہے۔
دراصل یہ ایک ناکامی کا راستہ ہے۔ ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے جدید ملازمت، افرادی قوت اور معیشت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے حوالے سے مودی حکومت کاجو رخ ہے اس نتیجے کو حاصل نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہاں غیر رسمی شعبہ میں ملازمت کررہے لوگوں کی کچھ جزوی اور بنیادی مدد کرکے انہیں رسمی شعبہ کے ملازمین کی فہرست میں شمار کیا جارہاہے۔
اس کے علی الرغم وہ راستہ چننے کی ضرورت ہے جس سے اصلاح ممکن ہوسکے۔ اور اس کو کرنے کے لیے ایک عام آدمی پر مشتمل صلاحیتوں کو نکھارنے والے ملازمت کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔
اس منصوبہ کی تیاری میں جامعیت، بے لاگ اور حکیمانہ تجزیہ ضروری ہے اور یہ تجزیہ کرتے وقت ملک کے موجودہ اور مستقبل میں ملازمت کے تئیں وسائل ، مسائل مواقع اور چیلنجز کو سامنے رکھنا ضروری ہے جس کی عام باشندوں اور ملازمت پیشہ افراد کو ضرورت ہوگی۔
اس جائزے اور تجزیے میں جاپان اور جرمنی کے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی معیشت کی اصلاح کے تجربے کو بھی سامنے رکھنا ہوگا کیو ں کہ انہوں نے اس دوران تکنیکی اور پیشہ وارانہ تعلیم پر زیادہ توجہ دی۔ اس کا موازنہ چین سے بھی اس طور پر کرنا چاہیے کہ وہاں کس طرح غیررسمی شعبہ کی اصلاح وترقی ہوئی۔
اس منصوبہ میں وژن، مقصد ،حکمت عملی ، اس سے متعلق پروگرام کا خاکہ، اس کے نفاذ کے لیے ضروری چیزیں، معاون اشیاء ، اہم مسائل اور رکاوٹیں اور کامیابی کے امکانات کو بالکل واضح ہونا چاہیے۔ اس کا تفصیلی بجٹ بھی ہونا چاہیے اور اس میں اس بات کا بھی اندراج ضروری ہے کہ کتنی لاگت سے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اس منصوبہ کو کثیر الجہات ہونا چاہیے جس میں جدید ہندوستانی معیشت اور افرادی قوت کی تعمیر واصلاح کے سارے پہلو بشمول شہری اور دیہاتی کا فرق، شرح خواندگی میں اضافہ، ہنرمندی کا فروغ، تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم، سرپرستی اور دیکھ بھال، تجارت، چھوٹے اور درمیانی کاروبار میں مدد، بڑی کمپنیوں پر ارتکاز، قومی اور ریاستی سطح کی اسکیموں کو آگے بڑھانے کے لیے سرکاری نوکری اور ملازمت اور ملازمت کے مواقع کی جانچ کے لیے ایک نظم شامل ہو۔
موجودہ ہندوستان میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے کئی سطح پر کوششیں ہورہی ہیں۔ مثلا پرائیوٹ سیکٹر کی کامیابی کی وجہ سے ہندوستان بین الاقوامی مارکیٹ میں انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں پوری دنیا کا رہنما ہے، حکومت نے میک ان انڈیا پالیسی شروع کی ہے اور اس ضمن میں بہت ساری نئی نئی کمپنیاں اپنی قسمت آزمائی کررہی ہیں۔ اگر ان سب کو ملاکرایک جامع منصوبہ بنایا جائے تو اس سے نہ صرف ملازمت کے نئے مواقع فراہم کرنے کا مسئلہ حل ہو گا بلکہ 21ویں صدی میں ہندوستان دنیاکا معاشی امام بن کر ابھرے گا۔
٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نڑاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ffislam@verizon.net)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *