مسجدوں کی حفاظت کے لئے پولس بند و بست کے ساتھ مسلح گارڈ ز تعینات کئے جائیں

 ممبئی امن کمیٹی کی آفس میں بامسیف کے ذمہ داربھالے رائو حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے جبکہ فرید شیخ،ڈاکٹر عظیم الدین،مولانا محمود دریابادی اور سلیم موٹر والا کو دیکھا جاسکتا ہے(تصویر:معیشت)

وقوع پذیر ہوئے واقعات کی روشنی میں مسلمان از خود مصلیوں کی حفاظت کا انتظام کریں،ممبئی کے علماء کرام کی اپیل
ممبئی: کرائسٹ چرچ اور برمنگھم میں ہونے والے واقعات سے ہندوستان کے انتہا پسندوں کو تقویت مل رہی ہے جبکہ ماضی قریب میں ہندوستان کے کئی شہروں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں مسجدوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ان واقعات و حادثات کو دیکھتے ہوئے عام مسلمانوں میں عجیب و غریب کیفیت پیدا ہورہی ہے ایک طرف عبادت کے لئے جہاں وہ مسجدوں کا رخ کر رہے ہیں وہیں وہ انتہائی چوکننا بھی رہنے لگے ہیں۔ان واقعات کی روشنی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا محمود احمد خان دریابادی کہتے ہیں ’’یقیناً ان واقعات کو دیکھنے کے بعد اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں بھی مساجد کی حفاظت کے لئے معقول انتظام کرنا چاہئے تاکہ کوئی سرپھرا نماز کے دوان نقصان نہ پہنچا سکے‘‘۔شیعہ عالم دین مشہور خطیب مولانا ظہیر عباس رضوی موجودہ صورتحال پر کہتے ہیں ’’نمازی سکون کے ساتھ اپنی عبادت مکمل کریں اس کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ اب مسجدوں میں مسلح گارڈز تعینات کئے جائیںاور وہ گارڈ اس وقت تک حفاظت کریں جب تک کہ لوگوں کی نمازیں مکمل نہ ہوجائیںکیونکہ دہشت گردوں نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ کسی ایک مذہب کی عباد ت گاہ تک محدود رہنے والا نہیں ہے بلکہ دوسری عبادت گاہوں تک پھیل سکتا ہے لہذا قبل اس کے کہ کوئی ناگہانی واقعہ پیش آئے ہمیں حفاظت کے معقول انتظام کر لینے چاہئیں‘‘۔امام و موذنین کے لئے سرگرم سیوا کے صدر ایڈوکیٹ یوسف ابراہانی کہتے ہیں ’’دہشت گردوں کے عزائم بہت بڑھ گئے ہیں اور ملک میں بھی متعدد واقعات دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اب حکومت کو چاہئے کی وہ مساجد میں نماز پڑھنے والوں کی سکیوریٹی کا خاطر خواہ انتظام کرے۔چونکہ مسلمان یہاں کے شہری ہیں اور ان کے بھی حقوق ہیں لہذا حکومت ان کی حفاظت کا بھرپور بند و بست کرے‘‘۔ارقم اسلامک اسکول کے چیرمین عبد المعید پھولپوری کا کہنا ہے کہ مسجد و مدرسہ کی نہ صرف حفاظت کی جائے بلکہ مساجد و مدارس کے ذمہ داران سے وہ رفاہی کام لئے جائیں جو ملک کی ترقی کا باعث بنیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’صفائی مہم،ہیلتھ مہم،پانی بچائو مہم،درخت لگائو مہم جیسی مہمات چلائی گئیں لیکن اس کا خاطر خواہ اثر مسلم علاقوں میں دیکھنے کو نہیں ملااگر اسی مہم میں علماء کرام کو بھی شامل کر لیاجاتا تو اس کے دور رس نتائج نکلتے۔‘‘جامعہ اسلامیہ نورباغ کے ناظم اعلیٰ مولانا عبد الحکیم مدنی کہتے ہیں ’’موجودہ صورتحال میں مساجد کے ذمہ داران احتیاطی قدم اٹھائیں یہ انتہائی ضروری ہے لیکن اسی کے ساتھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر فرد کی حفاظت کرے لیکن کیا موجودہ حکومت سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہر فرد کی حفاظت کرے گی ؟ کیونکہ جس طرح سے مختلف واقعات پیش آرہے ہیں یہ اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ یہ موجودہ حکومت میں ممکن نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *