خطہ اعظم گڈھ شیدائے قرآن مولانا امانت اللہ اصلاحی ؒ سے محروم ہوگیا

مولانا امانت اللہ اصلاحی ؒ
مولانا امانت اللہ اصلاحی ؒ

مفسر قرآن مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی اور جامعۃ الفلاح کےسابق ناظم تعلیمات مولانا سلامت اللہ اصلاحی صاحبان کے بڑے بھائی کی رحلت سے علمی خانوادے میں خلاء پیدا ہوگیا ہے۔
محی الدین غازی سبحانی فلاحی
مسجد اشاعت الاسلام کی محراب میں قریب اٹھارہ برس سے ذکر وفکر اور مطالعہ میں منہمک بزرگ کو دیکھنے والے کیا یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ مرد عابد میدان دعوت کا ایک مرد مجاہد بھی رہا ہے، اور اس نے عمر کی کئی دہائیاں اور جسم کی ساری توانائیاں افریقہ کے لوگوں کو اسلام سے واقف کرانے میں لگادی ہیں۔بڑے اباکی زندگی کی کم وبیش تین دہائیاں نائیجیریا میں گزریں، مجھے ان کی وہاں کی سرگرمیوں کے بارے میں بہت کم معلوم ہوسکا، بس اتنا معلوم ہے کہ وہ بہت پسماندہ علاقہ تھا، اور اس میں وہ سالہا سال دعوت اور تعلیم کے میدان میں سرگرم رہے۔ میں بڑے ابا کے ساتھ کئی سال رہا، قرآنیات کے حوالے سے ہزاروں باتیں پوچھنے اورسننے کا موقع ملا، لیکن انہوں نے کبھی اپنے ماضی کے کسی کارنامے سے پردہ نہیں اٹھایا، اور نہ ہی مجھے کریدنے کی جرأت یا توفیق ملی۔ اب جستجو ہوئی تو نائیجیریا کی جدید تاریخ کے حوالوں میں تلاش کیا اور وہاں مسرت انگیز تذکرے ملے۔نائیجیریا کےایک مصنف عالم شیخ عباس زکریا ابادنی اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں: “شیخ کی فطرت میں دعوت رچی بسی ہے، وہ ایبو کے علاقے میں منتقل ہوگئے، اور وہاں تعلیم دعوت اور دینی رہنمائی کے لئے یکسو ہوگئے، انہیں وہ علاقہ اپنی دعوت کے لئے زرخیز، مشن کے لئے مناسب اور عزائم کے لئے سازگار ملا۔ شیخ امانۃ اللہ زہد اور سادگی میں ایک مثال ہیں، جب سے میں انہیں جانتا ہوں ان کے پاس دو جوڑے کپڑے اور ایک جوتے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، حالانکہ وہ نادار نہیں ہیں”۔
ایبو کے مدرسے کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: “اس کے موجودہ ناظم شیخ محمد امانۃ اللہ ہندی ہیں، جو نہ صرف اس مدرسہ میں بلکہ پورے علاقے میں اللہ کے نام کو بلند کرنے کے لئے تن من دھن سے لگے ہیں اور اپنا خون پسینہ بہارہے ہیں”۔وہ دو جوڑے کپڑے بھی کتنے بوسیدہ ہوجاتے تھے، اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے حرم نبوی میں خود دیکھا کہ نماز عشاء کے بعد جب کہ بڑے ابا ذکر میں مصروف تھے، ایک فقیر نے اپنی ریز گاری گنی اور پھر ایک ریال بڑے ابا کے پاس رکھ کر چلا گیا۔
بڑے ابا کے رخصت ہونے کا صدمہ تو سبھی کو ہوا، مگر میرے جیسے طالب علموں کو اس وجہ سے اور بہت زیادہ ہوا کہ ضعیفی اور پیرانہ سالی کے باوجود ابھی بھی وہ ہماری علمی پیاس بجھارہے تھے اور مسلسل ہماری علمی رہنمائی کررہے تھے، قرآن مجید پڑھتے ہوئے جہاں کوئی بات کھٹکتی، ہم ان سے رجوع کرتے اور وہ اپنی تشفی بخش وضاحت سے ہماری الجھن دور کردیتے۔ ان کے افادات کی روشنی میں “تراجم قرآن کا جائزہ” کی ہر قسط وہ اشاعت سے پہلے غور سے پڑھتے، جہاں غلطی دیکھتے درست کرتے اور نہایت قیمتی نکات کا اضافہ کرتے۔ ابھی ایک سال پہلے میں نے “نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل” کے عربی ایڈیشن کو سند حاصل کرنے کی نیت سے بڑے ابا کی خدمت میں پیش کیا، بڑے ابا نے اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا، اور بڑے خوب صورت نکات کا اضافہ کیا۔ بڑے ابا کے انتقال پر آج زندگی میں پہلی بار علمی یتیمی کا شدت سے احساس ہورہا ہے۔
بڑے ابا کے رخصت ہونے سے ایک خلا پیدا ہوگیا، وہ سلف صالحین کی بہترین یادگار تھے، وہ ہمیں یاد دلاتے رہتے تھے کہ قرآن مجید سے شغف کیسے رکھا جاتا ہے، اور نماز والی زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔ جب کبھی دور اول کے بزرگوں کی عبادتوں کے تذکرے نظر سے گزرتے، اور ہم تن آسان لوگوں کو یقین نہیں آتا، تو بڑے ابا کو دیکھ کر یقین آجاتا۔ برسوں تک ایسا ہوا کہ عصر کی اذان سے پہلے مسجد آجاتے اور عشاء کے بعد تک وہیں رہتے۔ آخر میں ضعیفی کے بہت زیادہ بڑھ جانے کے سبب یہ معمول مغرب سے عشاء تک ہوگیا۔
نائیجیریا میں بہت بھیانک کار ایکسیڈنٹ کے بعد وہ ہندوستان آگئے تھے، بہت سی چوٹوں کے علاوہ پوری یادداشت غائب ہوگئی تھی۔ پھر اللہ کی طرف سے خصوصی تکریم اس طرح ہوئی کہ مہینوں بعد جب یادداشت واپس آئی تو سب سے پہلے قرآن مجید پورے طور سے تازہ ہوا۔ قرآن مجید کا حافظہ ایسا عجیب تھا کہ کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بتادیتے کہ آیت نمبر غلط لکھا ہے، اس کے علاوہ احادیث کا بھی بڑا زخیرہ ازبر تھا۔ جب طبیعت کچھ سنبھلی تو کبھی کسی کے سہارے اور کبھی بنا سہارے کے مسجد جانے لگے۔ جھکے جھکے لڑکھڑاتے ہوئے مسجد تک آنے جانے کی یہ عزیمت سے بھرپور طویل داستان ہے۔ کئی سال تک معمول یہ رہا کہ فجر کی اذان سے پہلے اندھیرے میں اور ظہر کی نماز سے پہلے سخت دھوپ اور لو کے تھپییڑوں کے درمیان گھر سے نکل پڑتے اور دھیرے دھیرے مسجد کی طرف بڑھتے جاتے، کبھی موسلا دھار بارش ہوتی تو بھی ارادہ نہیں بدلتے اور بسا اوقات راستے میں پھسل کر گرجاتے اور پھر اٹھ کر مسجد کی طرف بڑھتے، بھیگنے کے سبب کبھی سخت بیمار ہوجاتے، مگر اپنی روش پر قائم رہتے۔
بڑے ابا دہلی میں مرکز جماعت سے متصل شارق بھائی جان کے گھر رہتے تھے، جو ان کے بھانجے بھی تھے اور داماد بھی۔ بھائی جان آپا جان اور ان کے بچے بڑے ابا کا بہت خیال رکھتے تھے، لیکن ان کا آپا جان سے ہمیشہ ایک تنازعہ رہتا۔ وہ چاہتے کہ مسجد میں زیادہ وقت گزاریں، لیکن زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے ان کی تکلیفیں بڑھ جاتیں، آپا جان چاہتیں کہ وہ گھر میں نماز پڑھ لیا کریں، یا صرف نماز کے وقت جایا کریں، آپا جان کی بے پناہ خدمت کے باوجود وہ صرف اس ایک وجہ سے ان سے ناراضگی کا اظہار کرتے۔ آپا جان کی ان سے محبت اور ان کا مسجد سے لگاؤ دونوں ہی حد کمال کو پہونچے ہوئے تھے۔کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ سخت بیمار ہوگئے، اسپتال میں ایڈمٹ کرنا پڑا، مسجد سے دور یہ وقت ان پر بہت شاق گزرتا۔ وہ سارا وقت بے چین رہتے جب تک کہ وہاں سے چھٹی نہ مل جاتی اور مسجد میں جانا بحال نہ ہوجاتا۔گذشتہ رمضان سے پہلے میں ابا جان کے ساتھ بڑے ابا سے ملنے گھر گیا، بڑے ابا طویل علالت کے بعد اسپتال سے گھر آئے تھے، ہم نے دیکھا بڑے ابا بہت غصے میں تھے، خیریت پوچھی تو کہنے لگے کہ خیریت کہاں ہے، میں ٹھیک ہوں مگر یہ لوگ مجھے مسجد میں تراویح پڑھنے سے روک رہے ہیں، آپا جان کا کہنا تھا کہ ابا مسجد میں کھڑے ہوکر تراویح پڑھنے پر مصر ہیں، اس طرح ان کی کمزوری بہت بڑھ جاتی ہے۔ بالآخر ان کے اصرار کے آگے سب کو ہار ماننی پڑی، مسجد میں تراویح کے لئے ان کی بے تابی قابل دید تھی۔گھر میں ان کا زیادہ وقت نماز میں قرآن پڑھتے ہوئے گزرتا، ہرتین دن میں نماز کی حالت میں قرآن ختم کرلیتے۔ جو وقت بچتا اس میں مختلف تفسیروں کا مطالعہ کرتے۔دینداری کا ان کا انداز بڑا نرالا تھا، وہ دین کی اصلی صورت کی جستجو میں رہتے۔ ضعیفی کے باوجود کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی کوشش کرتے۔
ان کے ساتھ ایک بار حج کرنے کا موقع ملا، وہاں تقریبا سبھی لوگ قربانی کی رقم بینک میں جمع کردیتے، مگر بڑے ابا کی شدید خواہش تھی کہ قرآنی تعلیم (لیذکروا اسم اللہ علی مارزقھم من بھیمۃ الأنعام) پرعمل کرنے کے لئے تکبیر پڑھتے ہوئے اپنے ہاتھ سے قربانی کریں۔ غرض حرم کے حدود میں ایک مذبح پہونچے، وہیں جانور خریدے گئے، میں انہیں زمین پر لٹاتا اور بڑے ابا ایمان افروز انداز میں تکبیر کے ساتھ چھری پھیرتے، بڑے ابا کے شوق کی تکمیل اللہ پاک نے اس طرح کی کہ اس دن انہیں اٹھائیس بکروں پر تکبیر پڑھنے اور چھری پھیرنے کا موقعہ ملا۔ بڑے ابا کے چہرے پر اطمینان تھا۔
عام طور سے بڑے لوگ اذان دیتے ہوئے نظر نہیں آتے، اسے علماء اور اکابر کا کام نہیں سمجھا جاتا ہے، بلکہ دوسرے خدمت کے کاموں کی طرح عام لوگوں کا کام سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بڑے ابا کئی برس تک بے مثال علمی جاہ وجلال کے باوجود پابندی سے اذان اور اقامت کی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ ایک دن میں نے پوچھا، بڑے ابا آپ خطبے اور امامت کے لئے تیار نہیں ہوتے، لیکن آپ نے خود طلب کرکے یہ اذان دینے کی ذمہ داری کیوں لے لی؟ بڑے ابا نے کہا: حدیث میں پہلی صف میں رہنے اور اذان دینے کا بڑا اجر بتایا گیا ہے۔
مدینہ منورہ قیام کے دوران ایک بار رمضان کے آخری عشرے میں ہم لوگوں نے خواہش کی کہ بڑے ابا اپنے ساتھ قیام لیل کا موقع دیں، بڑے ابا ہماری خواہش سے خوش ہوئے اور تراویح کے کچھ دیر بعد کمرے میں اندھیرا کرکے دھیمی آواز میں کہ سب صاف سنائی دے، قیام لیل شروع کردیا۔ اس شب معلوم ہوا کہ قیام لیل کیسے کیا جاتا ہے۔ یہ قیام بڑے ابا کی امامت میں سحری سے کچھ پہلے تک جاری رہا، گیارہ بجے سے چار بجے تک آٹھ رکعتیں ہوئیں۔ یقین ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ قیام لیل آٹھ رکعت کا ہی کیا کرتے تھے، ایسے قیام لیل کے لئے ایک رات میں آٹھ رکعت سے زیادہ کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے، مگر وہ آٹھ رکعتیں رات کے بڑے حصے پر محیط ہوا کرتی تھیں۔میں جب شعور کی عمر کو پہونچا تو گھر میں علمی محفل کو سجا ہوا پایا، یہ محفل تین بھائیوں پر مشتمل ہوا کرتی، چچا مولانا محمد سلامت اللہ اصلاحی، ابا مولانا محمد عنایت اللہ سبحانی اور بڑے ابا مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی۔ میں دیکھتا کہ جب کبھی یہ تینوں بھائی جمع ہوجاتے تو صبح سے شام تک قرآنی موضوعات پر محو گفتگو رہتے، کبھی گفتگو میں شدت آجاتی تو کبھی آہستگی سے چلتی رہتی، مختلف آیتوں کی تفسیر کو لے کر اختلاف ہوتا، اور بحث ہوتی، اور گھنٹوں بحث جاری رہتی۔ اس بحث ومباحثہ کے باوجود تینوں بھائیوں میں بلا کی محبت والفت رہتی۔ ایسی طویل علمی گفتگوئیں، ایسے محبت کے ماحول میں، مجھے کہیں دیکھنے کو نہیں ملیں۔ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے، اور ساتھ ہی گھر سے نکلتے۔ ایک بار دیکھا کہ تینوں بھائی فجر کے بعد تین سائیکلوں پر سوارکہیں جارہے ہیں، معلوم ہوا کہ چاند پٹی جارہے ہیں مولانا ابواللیث ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کرنے کے لئے۔ اپنے گھر میں بڑوں کے درمیان خوش گوار علمی بحث ومباحثے کا یہ سدا بہار ماحول دیکھ کر ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ علمی مباحثہ اپنوں کے درمیان ہوتا ہے، اور مباحثے سے قلبی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
بڑے ابا پر زندگی میں بہت سی نہایت سخت آزمائشیں آئیں، اتنی سخت آزمائشیں کہ پہاڑ بھی شاید ہل کر رہ جاتے، لیکن بڑے ابا ہمیشہ صبر اور شکر کی تصویر بنے رہے، کبھی شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہیں آیا۔ ان کی حق تلفیاں اور ان کے حق میں زیادتیاں بھی بہت ہوئیں لیکن انہوں نے کبھی انہیں موضوع گفتگو نہیں بنایا۔ استغنا کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ اپنے حقوق سے دست بردار ہوجانے کو بخوشی تیار رہتے۔
بے نفسی ایسی تھی کہ مولانا فاروق خاں صاحب نے اپنے عہد جوانی میں قرآن مجید کا ہندی ترجمہ کیا، بڑے ابا نے اس ترجمہ کے کام میں بھرپور تعاون کیا، ناشر کا خیال تھا کہ ترجمہ قرآن مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نام سے شائع ہو، تاکہ ترجمہ کو علمی اعتبار ملے، بڑے ابا کو معلوم ہوا تو انہوں نے سختی سے منع کیا، اور اس طرح ہندی ترجمہ قرآن مولانا فاروق خاں صاحب کی پہچان بن گیا۔ مولانا نے یہ واقعہ خود مجھے سنایا، اور کہا مولانا امانت اللہ صاحب کے بے لوث تعاون اور بے مثال بے نفسی کی بدولت مجھے یہ پہچان عطا ہوئی۔
زہد کی باطنی کیفیت سے اللہ واقف ہے، ظاہری کیفیت کا حال یہ تھا کہ کم وبیش تیس سال نائیجیریا میں رہے، رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے اسلامی مرکز کے ڈائیرکٹر کی حیثیت سے، دوسری طرف سعودی عرب کے مفتی عام شیخ بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے بہت گہرا تعلق تھا، شیخ مرحوم بڑے ابا کو بہت مانتے تھے۔ سعودی عرب کے اس وقت کے مشاہیر سے بڑے ابا کا تعلق خاطر تھا۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ اس پورے عرصے میں ان کی فیملی کفایت شعاری کے ساتھ زندگی گزارتی رہی، اور انہوں نے اپنے لئے بالشت بھر زمین نہیں خریدی، اور نبیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ترکے میں ایک بھی دینار یا درہم نہیں چھوڑا۔
بڑے ابا کا کردار بہت اعلی تھا، شخصیت میں غیر معمولی رعب تھا، دامن بالکل صاف اور بے داغ تھا، دور دور تک خاندان میں کسی کو ان سے کسی طرح کی شکایت نہیں تھی، ان کا کسی سے کسی طرح کا تنازعہ نہیں تھا، دور قریب کے سب رشتے دار ان کا بہت احترام کرتے تھے۔
بڑے ابا اپنے خاص استاذ مولانا اختر احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح خالص دعوت اور تعلیم وتربیت کے آدمی تھے، تصنیفی کاموں کی طرف رجحان نہیں تھا، گمنامی کو پسند کرنا تو امام فراہی رحمۃ اللہ علیہ سے وراثت میں ملنے کے بعد کئی گنا ہوگیا تھا، تاہم حادثے کے اثر سے نکلنے کے بعد میرے اصرار پر تفہیم القرآن اور تدبر قرآن کا جائزہ لینے کے لئے آمادہ ہوگئے، دونوں تفسیروں کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کیا، اور جگہ جگہ بے شمار افادات رقم کرائے، یہ افادات نہایت مختصر اشاروں کی صورت میں ہیں، لیکن نہایت قیمتی ہیں۔علمی رتبہ اتنا بلند تھا کہ عرب وعجم کے بڑے بڑے علماء ان کی بے انتہا قدر کرتے، لیکن گمنامی کا عالم یہ تھا جب چند سال قبل “تراجم قرآن پر ایک نظر” کی ماہنامہ الشریعہ (پاکستان) اور مجلہ حیات نو (ہندوستان) میں قسط وار اشاعت ہوئی، تو بہت سے قارئین نے پہلی مرتبہ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا نام جانا، اور سب حیران تھے کہ ایسی گہری نگاہ رکھنے والا عالم قرآن بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔بڑے ابا کے رخصت ہوجانے کے بعد اب شدت سے احساس ہورہا ہے کہ روزگار کی فکر کے پیچھے ان سے استفادہ کرنے کے کتنے برس ضائع کردئے۔ حق تو یہ تھا کہ یہ سارا عرصہ ان کے ساتھ سائے کی طرح لگ کر گزارا جاتا۔
بڑے ابا سے میرے تعلق کا ایک بہت لطیف پہلو بھی ہے، میرا پورا نانیہال بڑے ابا کا عقیدت مند تھا۔ مرحومہ امی جان تو بڑے ابا کی دینداری اور علمی عظمت سے بہت زیادہ متاثر تھیں۔ میری پیدائش پر امی جان نے سب سے پہلے مجھے بڑے ابا کا پرانا کرتا پہنایا۔ وہ دعا کرتی تھیں کہ مجھے بھی بڑے ابا کے راستے پر چلنے کی توفیق ملے۔ شاید یہ امی جان کی خواہش اور دعا کا اثر تھا کہ اللہ تعالی نے بڑے ابا سے خصوصی استفادے کا موقع عنایت کیا۔بڑے ابا اپنی بہت سی علمی امانتیں میرے اور میرے چھوٹے بھائی ابوالاعلی سبحانی کے ذمہ کرکے گئے ہیں، دعا ہے کہ حق رفاقت تو ادا نہیں ہوا مگر احسن طریقے سے حق امانت ادا ہوجائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *