دینی و عصری تعلیم کے سنگم کا نام ہے الہدایہ کیمپس

ابو سعدعبد الاول شیخ
ابو سعدعبد الاول شیخ

دراصل دین و دنیا کے امتزاج کے ساتھ الہدایہ اسکول میں بہترین تعلیم و تربیت کا نظم کیا جا رہاہے
ممبرا(دانش ریاض) ممبرا کا بمبئی کالونی کسی زمانے میں اپنی خاص شہرت رکھتا تھا، لوگ باگ سمجھ بوجھ کر اس علاقے کا رخ کیا کرتے تھے ۔خاص عناصر ہر بات میں زور بازو کا استعمال کرتے لہذا شہ زور ہی اس علاقے میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کرتے تھے ۔ابو سعدعبد الاول شیخ دراصل انہیں شاہ زوروں میں تھے جنہوں نے مذکورہ علاقے کی کایا پلٹنے کا بیڑہ اٹھایا اور ایک بلڈنگ کے بیسمنٹ میں تعلیمی سلسلے کا آغاز کر دیا۔۲۰۰۶؁ میںمحض ۴۵ بچوںاور ۵ اساتذہ کے ساتھ ۵۰۰اسکوئر فٹ پر الہدایہ پبلک اسکول شروع کیا گیا تو مقامی مکینوں کو یقین نہیں تھا کہ یہ اپنا سفر جاری بھی رکھ پائے گا یا نہیں لیکن اسی بیسمنٹ میں چلنے والے ڈانس کلاسیز کو تو اب کوئی یاد نہیں کرتا لیکن الہدایہ پبلک اسکول اب الہدایہ کیمپس میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں پورے مہاراشٹر سے تعلیمی پیاس بجھانے والےطلبہ جوق در جوق آرہے ہیں۔دراصل ادارے کے روح رواں ابو سعد عبد الاول شیخ جنہوں نے ۱۹۶۷؁ میں اعظم گڈھ کے جموڑی گائوںمیں آنکھیں کھولی تھیں ،علم کی اہمیت سے اسی قدر آشنا تھے جس قدر ایک ماں اپنے بچے سے آشنا ہوتی ہے۔چونکہ انہوں نےابتدائی تعلیم مدرسہ سراج العلوم میں حاصل کی تھی جبکہ ۱۹۸۳؁ میں ایس ایس سی کرنے کے بعد شبلی کالج چلے گئےتھےجہاں سے ۱۹۸۵؁ میں ایچ ایس سی پاس کیا اور پھرگریجویشن کے لئے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا لہذا وہ مدرسے کا دینی ماحول اور کالج کی عصری تعلیم سے بہ خوبی واقف تھے ۔چونکہ ان کے اندر بھی حصول علم کا شوق تھا اور کچھ نیا کرنے کا جذبہ موجزن رہتا تھالہذا سول سروسیز کی تیاری بھی جاری کر رکھی تھی لیکن ۱۹۸۸؁ میں جب ایم بی اے میں سلیکشن ہوا تو دوسالہ ایم بی اے کے بعد الہ آباد چلے گئے تاکہ یکسوئی کے ساتھ سول سروسیز کی تیاری کرسکیں لیکن حالات نے ایسا رخ بدلا کہ انہیں گھر کی طرف لوٹ جانا پڑا۔ ابو سعد شیخ معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’علی گڈھ میں قیام کے دوران ہی مجھے یہ بات کھائے جاتی تھی کہ میں اپنے لوگوں کی رہنمائی کے لئے کن راستوں کا انتخاب کروں چونکہ سول سرونٹ کی ملازمت با عزت کے ساتھ بااختیار بھی بناتی ہے لہذا میں یو پی ایس سی کے لئے یکسو ہوگیا لیکن گھریلو حالات نے ایسا کچوکا لگایا کہ مجھے ۱۹۹۱؁ میں ممبئی آنا پڑا اور کاروبار زیست چلانے کے لئے میں نے ۱۹۹۳؁ میںٹائمز آف انڈیا میں شمولیت اختیار کرلی اور۲۰۰۵؁ تک ایریا منیجر کے بطور مارکیٹنگ کا کام کرتارہا پھر مستعفی ہوکر ۲۰۰۶؁ میں روزنامہ انگریزی اخبار ڈی این اے جوائن کیا جو اس وقت نیا نیا مارکیٹ میں لانچ ہوا تھا لیکن مجھے کچھ الگ کرنا تھا لہذا وہاں کی نوکری بھی راس نہیں آئی اور میں نے ۲۰۰۶؁ میں ہی الہدایہ پبلک اسکول کی بنیاد ممبرا میںاپنے کرم فرما ڈاکٹر کمال انظر سید کی معیت میں ڈال دی۔ الحمد للہ آج ۲۰۱۹؁ میں جہاں پانچ ہزار بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہیں ۳۵۰اسٹاف کی ٹیم ہمہ وقت بچوں کی تعلیم و تربیت پر آمادہ ہے‘‘۔ابو سعدشیخ کہتے ہیں ’’دراصل جس وقت ہم نے ممبرا میں اسلامک اسکول کا آغاز کیا تھا اس وقت کوئی اس پیٹرن کے ایجوکیشن کو جانتا نہیں تھا لہذاڈاکٹر کمال انظر سید کی مشاورت کے ساتھ ہم نے دینی و عصری تعلیم کے امتزاج سے ایک نصاب تیار کیا،جس کا فیض یہ ہے کہ اب تک دسویں کے پانچ بیچ ہمارے یہاں سے فارغ ہوچکے ہیں‘‘۔تعلیم کو معیاری بنانے اور تربیت پر خاص توجہ دینے کی کوشش کر رہے الہدایہ کیمپس کے فائونڈر چیرمین ابو سعد شیخ کہتے ہیں ’’ہم ان بچوں کو پسند نہیں کرتے جو یہاں پڑھتے ہوئے کہیں اور ٹیوشن حاصل کررہے ہوں بلکہ ہماری تعلیم اس قدر ٹھوس ہوتی ہے کہ اسے ٹیوشن لینے کی ضرورت نہیں پڑتی،ایسے بچے جن کے بارے میں یہ علم ہوتا ہے کہ وہ ٹیوشن لے رہے ہیں ہم ان کے گارجین کو بلا کر اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ اگر آپ اپنے بچے کو مسلسل اسکول بھیج رہے ہیں تو پھر اس کی تعلیم کے تعلق سے بہت زیادہ پریشان نہ ہوں۔اسکول مسلسل بھیجنے اور گھر پر نظر رکھنے کی ذمہ داری ہم والدین کو دیتے ہیں جبکہ اسکول کی تعلیم سے مکمل استفادے کا فریضہ ہم از خود ادا کرتے ہیں‘‘۔الہدایہ اکیڈمی آف کمپٹیشن کے تحت JEE,NEETکی تیاری کروانے والے ابو سعد شیخ کہتے ہیں ’’اس وقت JEE,NEET میڈیکل میں تیاری کروانے والےاداروں کی ہوڑ لگی ہوئی ہے ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ان اداروں میں وہ قابل اساتذہ نہیں ہیں جو ان بچوں کی تیاری کرواسکیں یہی وجہ ہے کہ ہم ۱۱ویں سے بچوں کو کمپٹیشن کی تیاری ان اساتذہ کرام سے کرواتے ہیں جو IITیا ٹاپ اسکولس سے فارغ ہوں یہی وجہ ہے کہ ہم بہتر رزلٹ دینے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔‘‘دینی و عصری کےامتزاج پر گفتگو کرتے ہوئے ابو سعد شیخ کہتے ہیں ’’الہدایہ کیمپس میں تعلیم کا فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک طرف جہاں بچہ حفظ و عالمیت کی پڑھائی پڑھتا ہے وہیں وہ گریجویشن بھی مکمل کر لیتا ہے ۔دینی ماحول میں جہاں ایس ایس سی اور ایچ ایس سی کی تعلیم حاصل کرتا ہے وہیں مقابلہ جاتی امتحان میڈیکل،JEE,NEETکے لئے تیار ہوتا رہتا ہے چونکہ اسکول کے اندر شعبہ حفظ قائم ہے لہذا گذشتہ برس ۱۰۰بچوں میں ۱۳ بچوں نے حفظ قرآن کے ساتھ اسکولی نظام کو بھی بخیر و خوبی تکمیل تک پہنچایا ہے۔‘‘کلیان سے متصل بدلا پور میںالہدایہ کیمپس کی شکل میں اقامتی اسکول (Residential School)قائم کرنے کی وجوہات پر معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے ابو سعد شیخ کہتے ہیں ’’تعلیم کے ساتھ تربیت اہم ہے۔اس وقت بچوں کے اندر تربیت کی بڑی کمی پائی جار ہی ہے ۔جب بچے اسکول میں رہتے ہیں وہ ہماری نظروں کے سامنے رہتے ہیں لیکن گھر جاتے ہی وہ آس پڑوس کی صحبت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔مصروف ترین زندگی میں والدین چاہتے ہوئے بھی بہت زیادہ نظر نہیں رکھ پاتے نتیجتاً بچے غلط کاروں کی صحبت اختیار کر لیتے ہیں لہذا ایسی صورتحال میں ہم نے ایک ایسا کیمپس بنایا ہے جہاں بچوں کو تعلیم بھی دی جائے گی اور ان کی تربیت کا بھی خاص خیال رکھا جائے گا۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *