اہل اسلام امت واحدہ ہیں

ابو نصر فاروق
ابو نصر فاروق

ابونصر فاروق : 6287880551 – 8298104514

علم الابدان بتاتا ہے کہ مٹی کے تودے کے مقابلے میں پکی ہوئی اینٹ زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔پکی ہوئی اینٹ کے مقابلے میں پتھرزیادہ طاقتور ہوتاہے۔اورپتھر کے مقابلے میں لوہازیادہ طاقتور ہوتاہے۔ان عناصر کے ایک دوسرے سے زیادہ طاقت ور ہونے کی وجہ ان کے اجزا کا آپس میں میل اور گٹھا ہوا ہونا ہے۔جو چیز جتنی زیادہ گٹھی ہوئی ہوگی وہ اتنی زیادہ طاقت ور ہوگی۔یہی فارمولا خاندانوں، گروہوں ، قبیلوں اور قوموں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔اسلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل اسلام میں جس اعلیٰ درجہ کا اتحاد و یک جہتی اوراخلاص و محبت پایا جانا چاہئے ویسی صفت دنیا کی کسی قوم میں نہیں مل سکتی ہے،کیونکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جو تعلیم دی ہے وہ دنیا کے کسی نظریے اور فلسفے نے نہیں دی ہے۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری دنیا میں اہل اسلام اس وقت جس قدر منتشر، متفرق اور بکھرے ہوئے ہیں ویسی حالت کسی دوسرے نظریاتی گروہ میں نہیں پائی جاتی ہے۔ایسا ہونے کا سبب کیا ہے ؟ کیا اسلام بدل گیا یا اہل اسلام بدل گئے ؟ یہ مقابلہ آرائی اور مسابقت کا دور ہے۔ جو گروہ جتنا زیادہ متحد، مستحکم،لائق و فائق،دوراندیش اور حکمت سے بھرپورہوگا وہ دنیا میں سب سے آگے رہے گا۔اہل اسلام کے اندر نہ تو لیاقت و صلاحیت کی کمی ہے،نہ تعلیم کی کمی ہے، نہ ہی دولت کی کمی ہے، نہ کام کرنے اور معرکے سر کرنے کے عزم کی کمی ہے،پھر بھی یہ ملت پورے عالم میں اس قدر حیران و پریشان کیوں ہے۔انہیں امور پر میں اپنا مطالعہ اصحاب حل و عقد کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مر ی بات۔
(۱) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اُس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اُس سے بچا لیا۔اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے پیش کرتا ہے، شاید کہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے۔‘‘( آل عمران:۱۰۳)
اس حکم ربانی کا پس منظر یہ ہے کہ ایک موقع پر منافقین نے مہاجر اور انصار کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی۔دونوں آپس میں بھڑنے والے ہی تھے کہ رسول اللہﷺکو اس بات کا علم ہوا اور آپ نے فرمایا خدا کی پناہ یہ کیسی جہالت کی پکار ہے،اور پھر ہوش مند صحابہ نے معاملہ کو رفع دفع کرایا۔اسی تناظر میں اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی(دین) کو مضبوطی سے پکڑو اور اس معاملے میں کسی طرح کاتفرقہ پیدا نہ کرو۔اور وہ تاریخ یاد دلا رہا ہے جب مدینہ میں اوس اور خزرج کے قبیلے سینکڑوں سال سے آپس میں دشمنی کے سبب خون خرابہ کرتے چلے آ رہے تھے۔جب وہ ایمان لے آئے اور مسلمان بن گئے تو دشمنی کا خاتمہ ہو گیا اور وہ بھائی بھائی بن گئے۔کہا جارہا ہے کہ ایمان سے محروم ر ہ کر جو بھی ماراجاتا تھا وہ سیدھے جہنم میں چلا جاتا تھا۔یہ اللہ کا خاص فضل ہوا کہ اُس نے تمہیں بھائی بھائی بن جانے کی نعمت نصیب کی ۔اس واقعہ میں اہل ہوش کے لئے نشانی اور کامرانی کا سیدھا راستہ موجود ہے۔اس آیت سے یہ نکتہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کے درمیان اگر اتحاد ہو سکتا ہے تو خالص دین کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔دین اسلام کے سوا کسی بنیاد پر اتحاد ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ مسلمانوں کی بد نصیبی یہ ہے کہ و ہ دین کو پہچانتے ہی نہیں اورفرقہ بندی کو دین سمجھ بیٹھے ہیں یا اُنہیں ایسا سمجھا دیا گیا ہے۔
(۲) ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو اُن کے درمیان صلح کراؤ۔پھر اگر اُن میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والوں سے لڑو،یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ آئے تو اُن کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو۔اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(الحجرات:۹)
اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ شیطان مسلمانوں کے درمیان عداوت کی آگ بھڑکا دے اور اُن کا وجود جل کر بھسم ہو جائے۔ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو لوگ اس جھگڑے سے الگ ہوں اُن کا فرض ہے کہ جھگڑنے والے دونوں فریقوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دیں۔اور اگر کوئی زیادتی کرنا چاہے تو اُس سے اس کے ظلم کے خلاف لڑیں۔یہاں تین نکات سامنے آئے۔اول یہ کہ جھگڑا ہونے کی صورت میں دوسرے مسلمانوں کو خاموش تماشائی نہیں بنے رہنا ہے۔دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے جھگڑے کو ختم کرنے کی جد و جہد کرنی ہے۔اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اللہ کے نزدیک گنہگار بن جائیں گے۔تیسری بات یہ کہ جھگڑا طے کرانے میں دیکھا جائے گا کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے۔ظالم کو ظلم کرنے سے روکا جائے گا اس لئے کہ ظالم بن کر وہ خدا کی رحمت سے محروم ہو جائے گا اور مظلوم کو اُس کا حق دلایاجائے گا۔جو لوگ یہ عمل کریں گے وہ اللہ کے پسندیدہ بندے بن جائیں گے۔
(۳) ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں،لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو ، امید ہے تم پر رحم کیا جائے گا۔‘‘ (الحجرات:۱۰)یہاں تیسرا نکتہ یہ بتایا جارہا ہے ہر مسلمان کے دل میں یہ جذبہ رہنا چاہئے کہ کوئی بھی مسلمان اُس کا بھائی ہے اور بھائی کے ساتھ خیر خواہی اُس کا دینی فریضہ ہے۔ وہ اگر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی نہیں کرتا اور بھائی چارہ قائم نہیں کرتا ہے تو اللہ کے نزدیک اس آیت کی رو سے گنہگار بن جاتا ہے۔
(۴) ’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو،نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے وہ اُن سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے وہ اُن سے بہتر ہوں،آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو، اورنہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔اے لوگوجو ایمان لائے ہو،بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرواور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر ایسا کوئی ہے جواپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاناپسند کرے گا۔دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔اللہ سے ڈرو اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘(الحجرات:۱۱/۱۲)
ان آیتوں میں اُن اخلاقی خرابیوں کا ذکر کیا جارہا ہے جن کے ہوتے ہوئے اتحاد کسی بھی حال میں ہو ہی نہیں سکتا ہے۔جو لوگ دین کے علم بردار اور قائدانہ حیثیت رکھتے ہیں اُن کا فرض ہے کہ وہ خود بھی ان خرابیوں سے دور رہیں اور اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی اس سے پرہیز کنے کی تلقین و تاکید کریں۔یہاں پہلی بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ کسی کی کمزوری کی وجہ سے کسی کا مذاق نہ اڑایا جائے۔نہ مرد مردوں کی محفل میں ایسا کریں نہ عورتیں عورتوں کی محفل میں ایساکریں۔جس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اُس کے دل میں مذاق اڑانے والے کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے اور اس سے دلوں میں دراڑ پیدا ہو جاتی ہے۔
دوسری بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ کسی کو طعنہ مت دو۔جس کو طعنہ دیا جاتا ہے اُس کو بہت برا لگتا ہے اور اُس کے دل میں بھی نفرت پیدا ہوتی ہے۔تیسری بات یہ بتائی گئی کہ کسی کے نام کو بگاڑ کر مت پکارو،مثلاً کسی کو لنگڑا، بہرا یا کانا کہہ کر پکارنا اخلاقی گنا ہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ سب حرکتیں فاسق و فاجر لوگ کیا کرتے ہیں۔ یہ باتیں اہل ایمان کے شایان شان نہیں۔کوئی اگر ان عادتوں میں مبتلا ہوتو فوراً اس سے توبہ کرے اور باز آ جائے ورنہ ظالم بن کر اللہ کی رحمت سے محروم ہو جائے گا۔پھر کہا جارہا ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے حق میں بد گما نی مت کرو۔بعض بد گمانی گناہ ہوتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ گناہ جنت سے محروم کر دے۔اس کے بعد کہاجارہا ہے کہ غیبت نہ کرو۔غیبت گناہ کبیرہ ہے۔گناہ کبیرہ کا مرتکب جب تک سچی توبہ نہ کرے اور آئندہ یہ گناہ کرنے کا عہد نہ کرے اُس کا گناہ معاف نہیں ہوتا ہے۔
(۵) ’’حضرت واثلہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اپنے کسی بھائی کو مصیبت میں دیکھ کر خوشی کا اظہار نہ کرو ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے اور تم کو اس میں مبتلا کر دے ۔‘‘(ترمذی) انسان مشیت ایزدی کے تحت یا کبھی اپنے گناہوں کے سبب ایسی آزمائش میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ دوسروں کے لئے مذاق بن جاتا ہے۔دیکھنے والے اُس کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور اُس کو ملامت کرتے ہیں۔دوسرے کو مصیبت یا پریشانی میں دیکھ کر اُس سے ہمدردی ہونی چاہئے اور اُس کی مصیبت کو دور کرنے کی خواہش پیدا ہونی چاہئے۔ایسا نہ کر کے اُس پر ہنسنا ، اُ س کا مذاق اڑانا اور اُس کو ملامت کرنا کم ظرف لوگوں کا کام ہے۔انسان کو ایسی کم ظرفی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اور اپنی حالت پر غرور بھی نہیں کرنا چاہئے۔کہیں یہ روش اللہ تعالیٰ کو ناگوار گزری تو وہ مصیبت زدہ کی مصیبت کو دور کر دے گا اور اُس پر ہنسنے والے کو اُسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا کر دے گا۔آپس میںہمدردی کی نعمت سے محروم لوگ متحد نہیں ہو سکتے ہیں۔
(۶) ’’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ اُس پر ظلم کرے، نہ اُس کو ذلیل کرے، نہ اُس کی تحقیر کرے۔ تقویٰ یہاں ہے۔ آپ نے تین دفعہ اپنے سینہ کی طرف اشارہ فرمایا۔آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیرسمجھے ۔ہر مسلمان کا خون، مال اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔‘‘(مسلم)شریعت نے ہرمسلمان کا دوسرے مسلمان پر جو حق مقرر کیا ہے یہاں اُس کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔تقویٰ کی پہچان یہ بتائی جا رہی ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنے کسی بھی مسلمان بھائی پر نہ ظلم کرے نہ اُس کو ذلیل کرے اور نہ ہی اُس کو حقیر سمجھے۔ دوسروں کی بہ نسبت مسلمان کا خون ، مال اور آبرو مسلمانوں پر حرام کیاگیا ہے۔جو بھی کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہے یا اُس کی آبرو برباد کرنا چاہتا ہے ، یا اُس کی جان کا دشمن بنتا ہے وہ حرام کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔حرام کاری کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نہ تو پسند کرتا ہے اور نہ ہی ایسا آدمی اللہ کی رحمت کا حقدار بن سکتا ہے۔حرام سے پرہیز نہیں کرنے والے کبھی اتحاد میں معاون ہو ہی نہیں سکتے ہیں۔یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں مسلمان کی بات کی جا رہی ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ مسلمان کے لئے غیر مسلم کی جان مال اور آبرو لوٹنا جائز ہے۔
(۷) ’’حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے اور ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے جو ہلاکت کو اُس سے دفع کرتا ہے اور پس پشت اُس کی حفا ظت کرتا ہے ۔‘‘(ابوداؤد)آئینے کا کام یہ ہے کہ جب کوئی اُس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو آئینہ ُاس کے اندر جو خوبی ہے اُسے بھی اور جو خرابی ہے اُسے بھی صاف صاف بتا دیتاہے۔نہ اس میں کمی کرتا ہے اور نہ زیادتی۔مومن کو مومن کا آئینہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان دوسرے اہل ایمان کی خوبیوں کا اعتراف کریںاور اُن کی خامیوںکو حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ بتا کر اُن پر قابو پانے کی نصیحت کریں۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں کہ میرے بھائی پر رحم فرما اور اُس کی خامی کو دور کر دے۔حق گوئی اور صاف گوئی مومن کا امتیاز ہوتا ہے۔خیر خواہی کے جذبات کے بغیر اتحاد پیدا کرنا بالکل ناممکن ہے۔
(۸) ’’حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔جس نے تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھا اور مرگیا تو جہنم میں چلا گیا ۔(احمد، ابوداؤد) عداوت کے اس ماحول میں مسلمانوں کا ایک دوسرے سے قطع تعلق عام بات ہے۔ تین دن سے زیادہ قطع تعلق کی حالت میں مرنے والا مسلمان جہنم میں چلا جائے گا۔معاذاللہ!قطع تعلق کا رویہ اتحاد کی مخالفت ہے۔
(۹) ’’حضرت ابو ہریرہ ؓ نبیﷺسے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا :دو آدمیوں کے درمیان برائی ڈالنے سے بچو کیوں کہ یہ حرکت(نیکی کو)مونڈنے والی ہے ۔ ‘‘(ترمذی) دوآدمیوں کے تعلقات کو بگاڑنے والی اس برائی کے متعلق کہا جارہا ہے کہ یہ ایسا گناہ ہے جو انسان کی نیکیوں کو کھاجاتا ہے۔ایسی عادت والے انسان کی کوئی نیکی باقی نہیں رہتی ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے محروم زندگی گزارتا ہے جو آفتوں اور مصیبتوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ جب لوگ آپس میں برائی پیدا کر رہے ہوں تو اتحاد کیسے ہو سکتا ہے ؟
(۱۰) ’’ابوہریرہؓ کہتے ہیں،رسول اللہﷺ نے فرمایا:مسلمانوں کے مسلمانوںپر چھ حق ہیں۔ پوچھا گیا وہ چھ باتیںکون سی ہیں؟ نبیﷺنے فرمایا وہ چھ باتیں یہ ہیں: (۱)جب تو کسی مسلمان سے ملے تو اُسے سلام کر۔(۲)اگر وہ دعوت دے تو قبول کر۔(۳)اگر وہ تجھ سے خیر خواہی کاطالب ہو تو اُس کے ساتھ خیر خواہی کر۔ (۴) جب اُسے چھینک آئے اور وہ الحمدللہ کہے تو تو جواب دے۔(۵)جب وہ بیمار پڑے تو اُس کی عیادت کو جا۔(۶)جب وہ مرجائے تو اُس کے پیچھے قبرستان جا۔‘‘ (مسلم) اتحاد کا خواب دیکھنے والوں اور اس کی خواہش رکھنے والوں کو ہر مسلمان کا یہ چھ حق ادا کرنا ہوگا ورنہ وہ حق تلفی کے مجرم بن جائیں گے اور اللہ تعالیٰ قیامت میں حق تلفی کا گناہ معاف نہیں کرے گا۔
یہ ہیں اہل اسلام کو دوبارہ امت واحدہ بنانے کے وہ بنیادی نکات جن کا اہتمام کرنے کے بعد امت خود بخود متحد ہو جائے گی۔یہ کوششیں جس سطح پر کی جائیں گی اتحاد کی برکت اس سطح پر نمودار ہو گی۔جس خاندان میں اس فارمولے پر عمل کیا جائے گا وہ خاندان اتحاد و اتفاق کی برکت سے سرفراز ہوگا۔لوگ جس محلے، بستی، قصبہ اور گاؤں میں یہ اصول نافذ کریں گے وہاں اتحاد و اتفاق کی باد بہاری چلے گی اوراللہ کی رحمت بارش کے پانی کی طرح برسے گی۔مسلمانوں کا کوئی ملک اگر اپنے یہاں ان قوانین کو نافذ کرے گا تو وہ ملک دنیا کے نقشے پر ایک عظیم قوت بن کر ابھرے گا۔بنیادی بات یہ سمجھنی چاہئے کہ اتحاد کا یہ نسخہ کسی طبیب یا حکیم کا نسخہ نہیں ہے کہ فائدہ پہنچا بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔یہ اللہ قادر مطلق اور اس کے پیارے نبی رحمت عالمﷺکا بتایا ہوا نسخہ ہے۔اس نسخہ کے استعمال سے بیماری دور نہ ہو ایسا ہوہی نہیں سکتا ہے۔ اس نسخہ کیمیا کو چھوڑ کر مسلمان جس نسخہ کو بھی آزمائیں گے، مایوسی اور ناکامی کے سوا کچھ ان کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ایک ہوں مسلم حرم کی پابانی کے لئے-نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خا ک کاشغر…ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں-ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *