کیا آپ نےتجارت کےان اہم اسلامی اصولوں کا خیال رکھا ہے

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

از : ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق صدر، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
۶۔ جو چیز اپنی ملکیت اور قبضہ میں نہ ہو اس کی بیع سے پرہیز کرنا: جو اشیاء حلال ہیں ان کی تجارت میں بھی یہ اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو چیز اپنے قبضہ میں نہ ہو اس کی بیع سے پرہیز کرے کیوں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے: ’’نَھَانِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ أَنْ أَبِیْعَ مَا لَیْسَ عِنْدِيْ‘‘ یعنی ’’رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ہے مجھ کو اس سے کہ بیچوں میں وہ چیز جو میرے پاس نہ ہو‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب البیوع، بَابُ مَاجَآئَ فِي کَرَاھِیَۃِ بَیْعِ مَا لَیسَ عِنْدَکَ، رقم ۱۲۳۵)۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت حکیم بن حزامؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے ایسی چیز خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جو میرے پاس موجود نہیںہوتی تو میں اس سے اس کا معاملہ کرلیتا ہوں پھر اس چیز کو اس کے لئے بازار سے خرید لاتا ہوں (اور اس شخص کے حوالے کردیتا ہوں)، آپؐ نے (یہ سن کر) فرمایا: ’’لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ‘‘ یعنی ’’تم کسی ایسی چیز کی بیع نہ کرو جو تمہارے پاس نہیں ہے ‘‘۔ (سنن نسائی، کتاب البیوع، باب بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدَ الْبَائِعِ، رقم ۴۶۱۳)۔
سنن نسائی کے اسی باب میں ایک روایت عبداللہ بن عمروؓ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لَیْسَ عَلٰی رَجُلٍ بَیْعٌ فِیْمَا لَا یَمْلِکُ‘‘ یعنی ’’آدمی اس چیز کی بیع نہیں کرسکتا جس کا وہ مالک نہیں ہے ‘‘۔ (سنن نسائی، کتاب البیوع، باب بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدَ الْبَائِعِ، رقم ۴۶۱۲)۔ عبداللہ بن عمروؓ سے ہی اس سلسلے میں ایک روایت ابن ماجہؒ نے نقل کیا ہے جس کے الفاظ ہیں: ’’لَا یَحِلُّ بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدِکَ‘‘ یعنی ’’جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا تیرے لئے حلال (جائز) نہیں ہے ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ النَّھْيِ عَنْ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ، وَ عَنْ رِبْحِ مَالَمْ یُضْمَنْ، رقم ۲۱۸۸)۔
ان احادیث کا تقاضہ یہی ہے کہ اس امید پر کہ وہ چیز بازار سے خرید کر گاہک کو فراہم کردے گا، کسی سے کسی متعین چیز کو متعین قیمت کے حصول کے ساتھ فروخت کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس حکم کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ سامان بازار میں نہ ملے جس کی قیمت پہلے ہی لے لی گئی ہے یا اگر مل جائے تو اس کا بھی امکان ہے کہ گاہک سے لی گئی قیمت سے کم یا بہت زیادہ قیمت میں ملے اور یہ بھی کہ بازار سے خرید لانے کے بعد وہ گاہک کو پسند آئے یا نہ آئے، ان سب صورتوں میں تاجر اور گاہک کے مابین اختلاف اور جھگڑے کا قوی امکان ہے اس لئے شارع علیہ السلام نے اس طرح کی بیع سے منع فرما دیا بلکہ تاجر اگر کوئی سامان خرید بھی چکا ہو مگر وہ اس کے قبضے میں ابھی تک نہ آیا ہو تو بھی اس کا اس کوبیچنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں بھی رسول اللہ ﷺ کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا یَبِیْعُہُ حَتّٰی یَسْتَوْفِیَہُ أَو یَقْبِضَہُ‘‘ یعنی ’’جو شخص غلہ خریدے تو اس کو اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک کہ اسے پوری طرح قبضہ میں نہ لے لے ‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب البیوع، بَابُ بَیْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ، وَ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ، رقم ۲۱۳۶)۔
اس روایت میں قبضے سے قبل فروخت کرنے کی ممانعت کا حکم گو غلے کے ساتھ مخصوص معلوم ہوتا ہے لیکن مسند احمد کی ایک روایت میں یہ حکم عمومیت کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’فَاِذَا اشْتَرَیْتَ بَیْعًا فَلَا تَبِعْہُ حَتّٰی تَقْبِضَہُ‘‘ یعنی ’’جب تم کوئی چیز خریدو تو اسے اس وقت تک آگے فروخت نہ کرو، جب تک اسے قبضہ میں نہ لے لو ‘‘۔ (مسند احمد، رقم ۱۵۷۱۰ )۔
امام طبرانیؒ نے حکیم بن حزامؓ سے ہی اس طرح روایت نقل کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ عرض کیا کہ میں ایک غیرمعمولی کاروباری آدمی ہوں تو میرے لئے کون سی چیز حلال ہے اور کون سی چیز حرام ہے؟ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’لَا تَبِیْعَنَّ شَیْئًا حَتّٰی تَقْبِضَہُ‘‘ یعنی ’’کسی بھی چیز کو اس وقت تک فروخت نہ کرو، جب تک اسے قبضہ میں نہ لے لو ‘‘۔ (معجم الکبیر للطبرانیؒ، مکتبہ ابن تیمیہ، القاہرہ، طبع دوم، ۱۹۸۳؁ء، جلد۳، رقم۳۱۰۸)۔
امام ابوداؤدؒ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے ایک ایسی روایت نقل کی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خریدی ہوئی منقولہ شے (یعنی وہ چیز جو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاسکے) پر صرف قبضہ کافی نہیں بلکہ جب تک اسے خریدنے کی جگہ سے منتقل کرکے اپنے ٹھکانے پر نہ لے آئے، اس وقت تک اسے فروخت کرنا درست نہیں۔ انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ کو ان کا خریدا ہوا تیل بازار میں اسی جگہ فروخت کرنے سے یہ کہہ کر روکا: ’’لَا تَبِعْہُ حَیْثُ ابْتَعْتَہُ حَتّٰی تَحُوزَہُ إِلٰی رَحْلِکَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ نَھٰی أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَیْثُ تُبْتَاعُ حَتّٰی یَحُوزَہَا التُّجَّارُ إِلٰی رِحَالِھِمْ‘‘ یعنی ’’اسے فروخت نہ کرو جہاں پر تم نے خریدا ہے حتی کہ تم اسے اپنے ٹھکانے پر لے جاؤ، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے سودے کو اسی جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے جہاں اسے خریدا جاتا ہو حتی کہ تجار اسے اپنے گھروں کی طرف لے جائیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ، باب فِي بَیْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ یُسْتَوْفٰی، رقم ۳۴۹۹)۔
یہاں یہ سوال کسی کے بھی ذہن میںآسکتا ہے کہ آخر اس حکم کی حکمت کیا ہے؟ تواس کے جواب میں پہلی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک طرح سے کرنسی کے بدلے زائد کرنسی کی بیع ہے (جو کہ شریعت میں درست نہیں) کیوں کہ اس میںدوسرے تاجر کی عملی طور پر کوئی خدمت شامل نہیں ہوئی اس وجہ سے کہ سامان وہیں کا وہیں پڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت طاؤس کے سوال پر بتایٔ جسے امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’ذَاکَ دَرَاھِمُ بِدَرَاھِمَ، وَالطَّعَامُ مُرْجَأٌ‘‘ یعنی ’’یہ تو روپے کا روپیوں کے بدلے بیچنا ہوا اور غلہ توبعد میں دیا جائے گا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بَابُ مَا یُذْکَرُ فِي بَیْعِ الطَّعَامِ وَالْحُکْرَۃِ، رقم ۲۱۳۲ )۔
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پہلا تاجر جب یہ دیکھے گا کہ دوسرا بغیر کسی محنت کہ بہت زیادہ نفع حاصل کر رہا ہے تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں نہیں وہ پہلی بیع کو فسخ کرکے تیسرے شخص سے براہ راست زیادہ قیمت پر معاملہ کرلے ؟ اس طرح وہ قبضہ نہ دینے اور پہلی بیع کو فسخ کرنے کے حیلے بہانے بناسکتا ہے جس سے آپس میں جھگڑے کی نوبت آسکتی ہے۔ اور اگر وہ قبضہ دے بھی دے تو اس زائد نفع سے محرومی کا احساس اسے ستائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے میں باربرداری کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کے روزگار کے متاثر ہونے کا بھی قوی امکان ہے جس سے حفاظت مقصود ہے۔ چوتھی بات یہ کہ قبضہ میںلئے بغیر آگے فروخت کرنے کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی چلتا رہا جیساکہ کسی صنعت و حرفت کی کمپنی سے نکلنے والی مصنوعات یا درآمدات کے ذریعہ بازار میں آنے والی اشیاء کے ساتھ اکثر دیکھنے کوملتا ہے، تو اصل صارف (Consumer) تک پہنچتے پہنچتے متعلقہ شے کی قیمت بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ جائے گی کیوں کہ بیچ کا ہر تاجر کچھ نہ کچھ نفع پر ہی اگلے تاجر کو سامان فروخت کرے گا۔ اس عمل کے نتیجے میں سب سے زیادہ مالی نقصان تو اصل صارف کو ہی برداشت کرنا پڑے گا جو کہ ایک عام آدمی ہے۔ اس لئے عام لوگوں کو سستی قیمت پر اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانے کی حکمت عملی کے زاویہ سے بھی یہ ایک اہم ہدایت ہے کہ قبضہ میں لئے بغیر کسی سامان کو آگے فروخت کرنے کا سلسلہ قائم نہ کیا جائے۔
تاہم اس مسئلہ پر فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے؛ امام مالکؒ کے نزدیک قبضے سے پہلے صرف غلے کا فروخت کرنا جائز نہیں، باقی تمام اشیاء کا بیچنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام یوسفؒ کے نزدیک اشیاء منقولہ میں سے کسی بھی چیز کا قبضے سے قبل بیچنا جائز نہیں لیکن عقار یعنی زمین کا بیچنا جائز ہے۔ امام احمدؒ کا بھی بظاہر یہی مسلک ہے۔ امام شافعیؒ اور حنفیہ میں سے امام محمدؒ کے نزدیک کسی بھی چیز کو خواہ وہ غلہ ہو یا اشیاء منقولہ میں سے کوئی اور چیز ہو یا پھر زمین ہو خریدنے کے بعد قبضے سے قبل فروخت کرنا درست نہیں۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، صفحہ ۴۹۶)۔
امام بخاریؒ نے اس سلسلے میں عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’أَمَّا الَّذِي نَھَی عَنْہُ النَّبِيُّ ﷺ فَھُوَ الطَّعَامُ أَنْ یُبَاعَ حَتّٰی یُقْبَضَ ‘‘ یعنی ’’نبی کریم ﷺ نے جس چیز سے منع فرمایا تھا، وہ اس غلہ کی بیع تھی جس پر ابھی قبضہ نہ کیا گیا ہو ‘‘۔ پھر ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’وَلَا أَحْسِبُ کُلَّ شَیْئٍ إِلَّا مِثْلَہُ ‘‘ یعنی میرا گمان یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہر چیز اسی ( غلہ) کی مانند ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، بَابُ بَیْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ، وَ بَیْعِ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ، رقم ۲۱۳۵)۔
گویا انہوں نے بھی اس مسئلہ میں غلے پر ہی غیر غلے کو قیاس کیا اور کسی بھی چیز کو خریدنے کے بعد قبضے سے پہلے بیچنے کو صحیح نہیں ٹھہرایا اور اسی رائے کو امام شافعیؒ اور امام محمدؒ نے اختیار کیا ہے جس کی مطابقت حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کی روایات سے بھی ہوگئی۔ رہی یہ بات کہ واضح نصوص یعنی حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کی روایات کی موجودگی میں عبداللہ بن عباسؓ کو قیاس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ان تک اس وقت تک یہ نصوص نہ پہنچے ہوں جیساکہ عبداللہ بن عمرؓ کو یہ حکم اس وقت تک نہ پہنچا تھا جب زید بن ثابتؓ نے ان کے تیل کی تجارت میں مداخلت کی۔ اسی خدشہ کا اظہار علامہ شوکانیؒ نے اس مسئلہ کی بحث میں نیل الاوطار میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’استعمل ابن عباس قیاس، و لعلّہ لم یبلغہ النّصّ المقتضي لکون سائر الأشیاء کالطّعام کما سلف‘‘ یعنی ابن عباسؓ نے قیاس کا استعمال کیا اور یہ شاید اس وجہ سے ہو کہ ان تک ضروی نصوص نہ پہنچے ہوں کہ سودے میں تمام اشیاء غلے کی مانند ہیں۔ (نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار، بیت الافکار الدولیۃ، لبنان، ۲۰۰۴؁ء، صفحہ ۹۸۶، کتاب البیوع، بَابُ نَھْيِ الْمُشْتَرِي عَنْ بَیْعِ مَا اشْتََرَاہُ قَبْلَ قَبْضِہِ)۔
اس لئے احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ ایک مسلمان تاجر کوئی بھی چیز گو اس نے اسے خرید لی ہو، اپنے قبضے میں آنے سے قبل کسی سے فروخت نہ کرے ۔
۷۔ تجارتی معاملات باہمی رضامندی سے طے کرنا: بیع و شراء کے انعقاد کے بنیادی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ معاملہ بائع اور مشتری کے باہمی رضامندی سے طے کیا جائے؛ بیچنے والا اپنے اختیار سے اپنی چیز بیچے اور خریدنے والا بھی اپنے اختیار اور خوشنودی سے اسے خریدے ، اگر کسی جانب سے بھی دوسرے فریق کو مجبور کرکے معاملہ کرایا گیا جب کہ وہ دل سے اس پر راضی نہ تھا تو یہ بیع درست نہیں ہوگی بلکہ منعقد ہی نہیں ہوگی کیوں کہ فرمان الٰہی ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ۔۔الآیۃ}۔ (ترجمہ): ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجودمیں آئی ہو (تو وہ جائز ہے)‘‘۔ ( النّسآء: ۲۹)۔ نبی کریم ﷺ کا بھی ارشاد ہے: ’’إِنَّمَا الْبَیْعُ عَنْ تَرَاضٍ‘‘ یعنی ’’بیع (فریقین کی) باہمی رضامندی سے ہی ہوتی ہے ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، بابُ بَیْعِ الْخِیَارِ، رقم ۲۱۸۵، بروایت ابوسعید خدریؓ)۔
آپؐ کا یہ بھی فرمان ہے: ’’لَا یَحِلُّ لِامْرِئٍ أَنْ یَأْخُذَ عَصَا أَخِیْہِ بِغَیْرِ طِیبِ نَفْسٍ مِنْہُ‘‘ یعنی ’’کسی شخص کے لئے یہ حلال نہیںکہ وہ اپنے بھائی کا عصا بھی اس کی خوشنودی و رضامندی کے بغیر لے ‘‘۔ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبانؒ، کتاب الجنایات،بابُ ذِکْرُ الْخَبَرِ الدَّالِّ عَلٰی أَنَّ قَوْلَہُ ﷺ: إِنَّ أَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ أَرَادَ بِہٖ بَعْضَ الْأَمْوَالِ لَا الْکُلَّ، رقم ۵۹۷۸، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)۔
یہ حدیث اس معاملے میں یعنی بغیررضامندی کے کسی بھایٔ کی کوئی چیز لینے کی حرمت کی شدت کو واضح کررہی ہے جسے سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں کہ لاٹھی جیسی معمولی چیز بھی جب کسی سے بغیر اس کی رضامندی کے لینا حلال نہیں تو دوسری اہم چیزیںکیسے حلال ہوسکتی ہیں؟ وہ تو بدرجہ اولیٰ حرام ہوں گی۔ اس لئے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ خرید و فروخت کے ہر معاملے میں اس بنیادی اصول کا لحاظ رکھے بصورت دیگر وہ دوسرے کا مال باطل طریقے سے ہڑپ لینے والوں یا کھانے والوں میں شمار کیا جائے گا۔
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ یہ رضامندی حقیقی ہونی چاہیے، رسمی اور مصنوعی نہیں۔ نہ اس میں جبر کا پہلو شامل ہو جیساکہ سطور بالا میں ذکر کیا گیا ، نہ غلط تاثرات اس کی بنیاد بنے اور نہ ہی دھوکہ اور فریب کہ چیز کی حقیقت یا بازار میں اس کی اصل قیمت سے دوسرے فریق کو اندھیرے میں رکھا گیا ہو۔ اگر ان حربوں سے رضامندی حاصل کی گئی تو شریعت میں اس کا کوئی اعتبار نہیںاور متاثرہ فریق کو بیع منسوخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری اور بے بسی کے عالم میں اپنی کوئی چیز بیچ رہا ہو تو اسے بازار کی در (Rate) یا مروجہ در سے بہت کم پر خریدنا اگرچہ وہ اس پر بظاہر راضی بھی ہو، درست نہیں کیوں کہ یہ بات یقینی ہے مجبور شخص خوش دلی سے غیرمعمولی کم در پر اپنی چیز بیچنے کو تیار نہیں ہوتا جب کہ شارع کی منشاء قلبی خوشی کے موجود ہونے کی ہے۔ ہاں اس سلسلے میں معمولی کمی بیشی کا اعتبار نہیں، البتہ ہمارے دیار میں مجبور شخص کا سامان انتہائی کم قیمت پر خریدنے کی جو روش دیکھنے کو ملتی ہے وہ یقینا ناپسندیدہ اور اصلاح طلب ہے کیوں کہ یہ انسانی خیرخواہی کے جذبے کے خلاف ہے جو کہ دین کی اصل اسپرٹ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *