اے امیر کارواں بیدار کن بیدار باش !

مشہور صحافی عالم نقوی
مشہور صحافی عالم نقوی

موجودہ نظام  سیاست و حکومت اور ملک و دنیا کےحالات حاضرہ پر جب بھی کچھ لکھنے بیٹھتے ہیں، الفاظ ساتھ نہیں دیتے ۔اُن کا ذخیرہ ناکافی محسوس ہوتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ لفظوں نے اپنے مفہوم کھو دیے ہیں اور الفاظ کے بکثرت غلط استعمال نے اُن کے صحیح استعمال کو بھی مشکوک یا بے معنی بنا دیا ہے ۔مابعد جدیدیت Post Modernismکی یہی سب سے بڑی خصوصیت ہے ۔لیکن کیا کریں کہ لکھنا ہماری مجبوری ہے۔

ہم اپنے اُن ساتھیوں کی طرح لکھنا چھوڑ نہیں سکتے جو اِنہی  ناگفتہ بہ حالات  کی وجہ سے بد دل ہوکر مدت ہوئی لکھنا چھوڑ چکے ہیں۔ وہ صحرا میں اَذان نہیں دینا چاہتے !اُ ن کا خیال ہے کہ اگر کوئی اُن کی صدائے استغاثہ پر لبیک نہیں کہتا تو بولنے اور لکھنے سے کیا فائدہ ؟ لیکن ہم ،لکھنا اس لیے نہیں چھوڑتے کہ ہمارے لکھنے کے سُوارَت ہونے یا اَ کارَت جانے کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی ۔ اوّل تو لکھنے سے تشفی جذبات (کیتھارسس Catharsis)کا عمل وقتی طور پر Emotional Explosion انفجار جذبات سے بچا لیتا ہے ۔دوسرے یہ کہ شاید اس سے کچھ فریضہ بندگی اور کچھ فرض منصبی بھی ادا ہو جاتا ہو !

شادؔ عظیم آبادی کا یہ شعر تو زباں زد عام و خاص ہے کہ :

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کے خود اُٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے

اور اقبال کے اس شعر پر تو اُنہیں  کمیونزم کا علم بردار تک قرار دے ڈالا گیا تھا کہ:

جس کھیت سے دہقاں کو میسّر نہ ہو روٹی

اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

لیکن یاس یگاؔنہ  چنگیزی کا یہ شعر تو شاید ہی کسی کو یاد ہو بلکہ بہتوں نے سنا بھی نہ ہوگا کہ :

خواہ پیالہ ہو یا نوالہ ہو

بن پڑے تو جھپٹ لے بھیک نہ مانگ

لیکن ہم  چھین جھپٹ کے ایسے کسی خلاف  شریعت اور خلاف  قانون کام کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ ہم تو بس ایک نکتے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ مثال کے طور سکھ بھارت میں زیادہ سے زیادہ ڈھائی کروڑ ہیں اور مسلمان ،مردم شماری کی سابقہ رپورٹ کے مطابق، قریب چودہ کروڑ۔  لیکن ’راء‘RAWکے ایک سابق افسر کے مطابق مسلمانوں کی تعداد ملک میں بیس کروڑ ہے جس میں سے بیس لاکھ مسلمان ملک کے لیے امکانی خطرہ Potential Threatثابت ہو سکتے ہیں ۔یہ بیان افسر مذکور نےکافی عرصہ پہلے  ’سی این بی سی آواز ‘ کے ایک ٹی وی مباحثے میں دیا تھا ۔اب تو ہم زمانہ ہوا ٹی وی دیکھنا ہی چھوڑ چکے ہیں ۔ ملک و دنیا میں مسلمانوں کے خلاف  جو کچھ ہورہا ہے وہ یہود و مشرکین کے اسی خوف کا نتیجہ ہے ۔وہ بہ خیال خود  کوئی ظلم نہیں بلکہ مستقبل کے ’امکانی خطرے‘ کی ’پیش بندانہpreemptiveحکمت عملی ‘پر عمل کر رہے ہیں !

سکھوں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ ایک ’ملی ٹنٹ ‘لڑنے بھڑنے والی ’جنگجو ‘قوم ہیں۔سنگھ پریوار اُنہیں ہندو دھرم کا رَکشَک (محافظ)مانتا ہے ۔لیکن بھارت میں دہشت گردی کی ابتدا ء مطالبہ خالصتان کی شکل میں اُن ہی دھرم رکشکوں کی جانب سے ہوئی تھی اور جب ’آپریشن بلیو اسٹار ‘ ( دربار صاحب یا ہر مندر صاحب  امرتسر میں جرنیل سنگھ بھنڈراں والے اور امریک سنگھ وغیرہ کے خلاف بھارتی فوج کی کارروائی ) کا بدلہ لینے کے لیےوزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے ایک سکھ باڈی گارڈ بینت سنگھ نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا تو اندھی انتقامی کارروائی کے بطور  ،پوری  سکھ قوم کو سبق سکھانے کے لیے جس  کی اکثریت کا ’خالصتانی تحریک ‘ یا اندرا گاندھی کے قاتل یا  قاتلوں سے کوئی تعلق نہیں تھا ،سنگھ پریوار نے کانگریس پریوار کے ساتھ مل کر یکم اور دو نومبر انیس سو چوراسی کو دلی میں اور اس کے بعد بھی چند روز تک شمالی ہند کے مختلف علاقوں میں اُن کو لوٹا مارا زندہ جلایا اور  بلا مبالغہ ان کا قتل عام کیا ۔ایک مہذب دنیا میں اس  دہشت گردی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا ۔اِلّا یہ کہ ویکلی تہلکہ کے بقول ہم یہ تسلیم کر لیں کہ ’’ہم بھارتی ایک خوں آشام قوم ہیں اور ظالمانہ سفاکی ہمارے خمیر میں شامل ہے ‘‘۔

 ویسے اُنیس سو چوراسی میں جو کچھ ہوا وہ کچھ  نیا نہیں تھا!

آزادی سے قبل انیس سو چالیس کے دہے میں بہار و بنگال سمیت شمالی ہند میں ہونے والے مسلم کُش فسادات پھر تقسیم وطن کے موقع پر ہونے والی  نسل کُشی اور آزادی کے بعد جمشید پور ،بھاگل پور ، جبل پور ،احمدآباد وغیرہ میں ہونے والے فسادات میں بھی کم و بیش وہ سب کچھ ہو چکا تھا ۔لیکن چونکہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران لوٹ مار اور اجتماعی قتل عام کے مجرموں،  قاتلوں بلکہ حقیقی معنیٰ میں  دہشت گردوں  کو قرار واقعی سزا دینے دلانے کی  ہم نے کوئی منصفانہ نظیر قائم ہی نہیں کی لہٰذا اُنیس سو چوراسی میں سکھوں نے اُسی دھرم کے ماننے والوں کے ہاتھوں جن کے وہ رکشک (محافظ ) کہلاتے تھے وہ سب کچھ جھیلا جو اس سے قبل مسلمان عرصہ دراز سے برداشت کرتے آرہے تھے ۔

اور پھر سن دو ہزار دو میں مسلمانوں کی صریحی نسل کُشی اور نسلی صفائے کا گجرات تجربہ بھی اسی لیے ممکن ہو سکا کہ انیس سو چوراسی کے تمام دہشت گرد آزاد گھوم رہے تھے ! اور پچھلے اٹھارہ اُنیس برسوں میں بم دھماکوں ،ماب لنچنگ ،مظفر نگر اور دادری وغیرہ کے مختلف النوع شرمناک اور لرزہ خیز واقعات ،عدم رواداری ،تعصب ،نسل پرستی اور دہشت گردی کے ایسے نئے اَبعاد dimentions میں ڈھل چکے ہیں جو وطن عزیز کو بتدریج وسطی  و مغربی ایشیا اور کشمیر و فلسطین جیسے سنگین  انسانیت سوز اور مردم کُش حالات  کی طرف ڈھکیل رہے ہیں ۔

سخت خود احتسابی اور بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے قرآنی اتحاد و عمل کے مظاہرے کے بغیر اِس موج ِخوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں جو مستقبل میں کبھی بھی ایک سیل ِ بلا خیز  بن سکتا ہے !

اے امیر کارواں ! بیدار کُن بیدار باش

از فریب بت فروشان ِ حرم ہشیار باش !

فھل من مدکر ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *