تم اپنی عید مناکر ہم کو بھول نہ جانا دعاؤں میں

روہنگیائی مسلمان ؛فائل فوٹوبہ شکریہ سن ڈاٹ ایم وی

آرزو شوکت علی کی رپورٹ
رمضان المبارک کی ۲۳ویں شب ہے۔ممبئی کے بھنڈی بازار کا علاقہ بقعۂ نور بناہواہے۔ لوگوں کا اس قدر اژدہام ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔مینارہ مسجد سے سٹے حلوائیوں کی دکانوں پر رنگ برنگے پکوان پک رہے ہیں دور دراز سے آتش شوق سرد کرنے آئے لوگ قطار اندر قطار باہر کھڑے ہیں۔ہر ہوٹل پر کھانے کے اتنے آئیٹم سجے ہیں کہ لوگ انتخاب کرنے میں ہی گھنٹوں گزاردے رہے ہیں۔ انہیں میں کچھ منچلے ایسے بھی ہیں جو ہر مکان سے علیحدہ علیحدہ ڈش چکھے جارہے ہیں۔ شورو ہنگامہ اس قدر ہے کہ کان تلے آواز سنائی نہیں دیتی۔ لیکن اس ہماہمی کے عالم میں بھی لوگ سوگوار ہیں۔ ان کے چہروں سے عیاں ہے کہ ان کی حقیقی خوشیاں چھین لی گئی ہیں۔ مرگِ انبوہ جشن داردکی طرح ہر شخص بے دلی کے ساتھ بازار کی رونق بڑھائے ہوئے ہے۔ انہیں بھیڑ میں گوامیں اپناذاتی Resortچلانے والے رفیق شیخ بھی ہیں جو اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں تفریح کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ چکن سوپ کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ کہتے ہیں’’بچپن سے ہم تمام دوست مینارہ مسجد میں ہی شب بیداری کے لیے آتے ہیں۔
بھنڈی بازا ر کی رونق جہاں ہمارے دن بھرکے تھکن کو دورکرتی ہے وہیں یہاں کے لذیذ پکوان کام و دہن کو تربہ تر کردیتے ہیں۔مل بیٹھ کر خوش گپیوں کے لیے یہ جگہ بالکل مناسب ہے لیکن اب وہ دن نہیں رہے جوہم نے ماضی میں گزارے ہیں۔ اب توان بازاروں میں آتے ہوئے بھی خوف طاری رہتا ہے کہ کہیں کوئی انہونی نہ ہوجائے‘‘۔ان کے ساتھ ہی آئے ان کے دیگردوست تأسف بھرے انداز میں کہتے ہیں۔’’بھائی! مسلمانوں پربڑاخراب وقت آگیا ہے،اب ہماری خوشیاں بھی خوشیاں نہیں رہ گئیں،نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا کچھ کہانہیں جاسکتا‘‘۔
بھنڈی بازار سے تھوڑی دوری پر واقع مسلمانوں کی گنجان آبادی والے مدنپورہ کے علاقہ میں بھی رات کے تیسرے پہر اتنی ہی گہماگہمی ہے جتنی کہ عام دنوں میں شام کے وقت ہواکرتی ہے۔نقاب پوش خواتین کپڑوں کی خریداری میں منہمک ہیں ۔بچے اورجوان ہوٹلوں پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔بعض گلیوں میں بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں تو بعض دکانوں کے باہر کیرم بورڈ کی بازی سجائے بیٹھے ہیں۔ اسی دوران گشتی پولس کی جیپ گزرتی ہے توخوش گپیوں میں مصروف لوگوں کا موضوع بدل جاتا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی کارونا روتے ہوئے اگرپولس والوں کو صلواتیں سنائی جاتی ہیں تو امریکہ بہادر کو بھی گالیاں دی جاتی ہیں اورپھرعالمی حالات گفتگو کا مرکزی موضوع قرار پاتاہے۔
ٹیکسی چلاکر اپنی روزی روٹی کمانے والے شیخ شبیر معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’پہلے جیسی خوشیاں ختم ہوگئیں ہیں ،حالات کی مارنے بازار کو بھی متاثر کیا ہے ۔مہنگائی اس قدر ہے کہ ہر شخص پریشانی میں مبتلا ہے۔ نفسانفسی کاعالم ہے ایسے میں کوئی عید کیونکر منائے، بس یہی دعاہے کہ اللہ تعالیٰ سب کی مشکلوں کوآسان فرمائے‘‘۔
زندگی کی 64بہاریں دیکھ چکے ممبئی کے ایک فلاحی ادارے میں کام کرنے والے ساجد شیخ کہتے ہیں کہ’’عید کی خوشی میری لیے ملا جلا رد عمل رکھتی ہے جب میں اپنے مسلمان بھائیوں کو خصوصاً ان نوجوانوں کو جنہیں ناکردہ گناہوں کی سزادی جارہی ہے کی طرف دیکھتا ہو اوران کا خیال دل میں لاتا ہوتو طبیعت مضمحل ہوجاتی ہے ایک غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتاہے،ہشاش بشاش چہرہ بھی پل بھرمیں غم کی داستان سنانے لگتاہے ۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
لیکن جیسے ہی یہ خیالات ذہن سے محو ہوتے ہیں اورمیں اپنی ذاتی زندگی میں کھوتاہوں توپھر خوشی عود کرآتی ہے۔پھر میں ہوتاہوں اورمیری ذات ہوتی ہے مجھے زمانے سے کوئی مطلب نہیں ہوتا تب میں خوش و خرم ایک عجب طرح کا انبساط محسوس کرتاہوں۔
ممبئی کی طرح مہاراشٹر کی گنجان مسلم آبادی والا مالیگاؤں بھی سہماسہما نظرآتاہے۔ 2006میں عین شب برأت کے روز دھماکوں سے دہل جانے والا یہ علاقہ سادھوی پرگیہ سنگھ کے ممبر آف پارلیمنٹ بن جانے کے بعد اپنی ایک الگ داستان بیان کررہاہے۔ شب برأت کے دھماکوں میں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد جاں بحق اورزخموں سے چور ہوئی تھی وہیں ان دھماکوں کاالزام بھی مسلمانوں کے سرڈال دیا گیاتھا۔ ’’یک نہ شد دوشد‘‘اس افتادناگہانی نے جہاں بڑے بوڑھوں کو دل شکستہ کر دیا تھاوہیں نوجوانوں میں بھی اضطراب کی ایسی لہر چل پڑی تھی جو دبائے نہیں دبتی تھی، مالیگاؤں کے مشہور صحافی عبدالحلیم صدیقی درد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’’یہ یوم عید نہیں یوم دعاہے۔ اس مرتبہ میں اپنے معصوم روزہ دار بچوں کی مشقتوں کے طفیل عید گاہ میں اللہ رب العزت سے دعا مانگوں گا کہ اللہ رب العزت میرے شہر کے بے گناہ قیدیوں کی رہائی کی سبیل پیدا فرما۔ شہر کے ماتھے سے اپنے ہی بھائیوں کے خون ناحق کاجھوٹا داغ دھودے، خدا یا ہم میں سے کوئی قاتل نہیں ،ہم تووطن پرست، وطن دوست ہیں۔ دووقت کی روٹی کے لیے شب و روز کرگھے پر محنت کرنے والے ہیں۔ میرے خدا مجھے اس امتحان سے سرخرونکال دے،ہمارے صفوں میں اتحاد پیدا کردے،ہندوستانی مسلمانوں کی ملی،سیاسی، سماجی خلا کرپر فرما۔ ہمارا مذہبی فریضہ ہمیں عیدالفطر منانے کی تلقین کرتاہے لیکن اس مرتبہ بھی عید کے دن ہم بم دھماکوں کے متاثرین یتیم وبے سہارا بچوں کو نہیں بھول پائیں گے۔ جن معصوم بھائیوں کو ناکردہ گناہوں کی سزامل رہی ہے وہ ہمارے لیے ناقابل فراموش ہے۔انعام والی راتوں اورانعام والے دن ہم اس مرتبہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہیں گے۔شاید یہ خوشی کا دن ہمارے لیے یوم دعا بن جائے جوشرف قبولیت سے ہمکنار ہواورہمیں یک گونہ سکون حاصل ہو‘‘۔مہاراشٹر،اترپردیش ،مدھیہ پردیش اورراجستھان کے لوگ اگر حالات کی ستم ظریفی کاشکوہ لیے بیٹھے ہیں توغربت کی مارجھیل رہا بہار ایک دوسری داستان بیان کررہاہے۔
عفانمعیشتسے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’غربت نے اس مرتبہ عید پر پانی پھیر دیا ہے۔ ارریہ، پورنیہ،کٹیہار ،دربھنگہ، چمپارن ،سوپول، لکھی سرائے، بیگوسرائے وغیرہ کے علاقے خالص مسلم آبادی والی علاقے ہیں، کساد بازاری نے سب سے زیادہ انہیں علاقوں کو متاثر کیاہے۔اب جن لوگوں کے پاس کھانے کے لیے اناج اورپہننے کے لیے کپڑا نہیں آخر وہ عید کی خوشیوں کو کیسے دوبالا کرسکتے ہیں‘‘۔البتہ سدھارتھ نگر سے تعلق رکھنے والے ڈی ٹی پی آپریٹر واجدعلی ایک دوسری ہی حقیقت بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں’’بچپن میں جب ہمیں عیدی ملتی تھی اورنئے نئے کپڑے پہن کر عید گاہ جاتے تھے تو عجیب خوشی محسوس ہوتی تھی لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب بچوں کے پاس عام دنوں میں ہی انتے پیسے ہوتے ہیں کہ وہ عیدی کی لذت سے ناآشنا رہتے ہیں، اسی طرح سال بھراتنے نئے کپڑے بنائے جاتے ہیں کہ عید کے دن بنائے جانے والے کپڑوں کی اہمیت بھی ختم ہوگئی ہے‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آنے والی عید خوشیوں کا وہ ٹوکرالے کرنہیں آرہی ہے جس کا مزہ لوگ ماضی میں چکھاکرتے تھے بلکہ ہر شخص پریشان حال ہے۔کچھ دہشت گردی کے واقعات سے نالاں ہیں توبعض آسمانی آفات کی گرفت میں ہیں۔جبکہ کچھ دیگر بازار کے اتار چڑھاؤ سے پریشان نظرآرہے ہیں۔لیکن ان تمام کے اندر جوچیز قدرمشترک ہے وہ یہ کہ تمام لوگ ان لوگوں کو جوعید کی خوشیاں حقیقی فرحت وانبساط کے ساتھ منانے والے ہیں یہ کہتے نہیں بھولناچاہتے کہ ’’تم اپنی عید مناکرہم کو بھول نہ جانا دعاؤں میں‘‘۔ اب دعائیں ہی لوگوں کو خوشیاں دلاسکتی ہیں کاش ہم بھی ان لوگوں کے لیے دعا گو ہوتے جو عید کی خوشیوں سے محروم قرار دیے گئے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *