اعظم گڈھ میں مسلم قیادت مضبوط ہو رہی ہے

حضرت مولانا محمد طاہر مدنی
حضرت مولانا محمد طاہر مدنی

حضرت مولانا محمد طاہر مدنی جامعۃ الفلاح اعظم گڈھ کےسابق ناظم اعلیٰ اور راشٹر یہ علماء کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں۔مدینہ یونیورسٹی سے ماسٹرس ڈگری حاصل کرنے والے مولانا دینی مسائل کے ساتھ ملکی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔مدارس کے خلاف چلائی گئی مہم کے دوران ہی جب مسلم نوجوانوں کوپریشان کرنے کی کوشش کی گئی تو مولانا نے اس کے خلاف زبردست آواز بلند کی ۔دانش ریاض نے اعظم گڈھ کے ہر دلعزیز رہنما سے موجودہ صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہیں اہم اقتباسات
سوال:مدارس کے خلاف دہشت گردی کے الزام کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔اس کے سد باب کی راہیں کیا ہیں؟
جواب:اسلام مخالف طاقتوں نے جب یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں میں دین سے وابستگی میں مدارس اہم رول ادا کر رہے ہیں تو منصوبہ بند طریقے سے اسے بدنام کرنے کی مہم شروع کی گئی ۔بابری مسجد کی شہادت کے کلیدی ملزم لال کرشن اڈوانی جس وقت وزیر داخلہ تھے اسی وقت سب سے پہلے انہوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مدارس داخلی سلامتی کے لئے خطرناک ہیں۔نیپال اور اتر پردیش کے سرحدی علاقوں میں پائے جانے والے مدارس کو آئی ایس آئی کا اڈہ قرار دیا گیا اور پھر پوری مہم زور و شور سے شروع ہوگئی ۔چونکہ یہ بڑی سازش کا حصہ ہے لہذا اس کے سدباب کے لئے بھی کامیاب حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔فوری طور پر ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ ہم اپنے روابط کو بڑھائیں ،زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائیں،جب تک زیادہ سے زیادہIntraction نہیں ہوگا اس وقت تک سازش کو ناکام نہیں بنایا جاسکتا۔لہذا بدگمانی کے خاتمے کا واحد علاج بڑے پیمانے پرروابط میں اضافہ ہے۔اسی طرح موجودہ ماحول میں مسلمانوں کو اپنی قیادت مضبوط کرنے کے ساتھ بلا تفریق سب کی خدمت کی بھی ضرورت ہے، عوام کے بنیادی مسائل مسلسل اٹھانے کی ضرورت ہے اور تنظیمی سطح پر زمینی کام ناگزیر ہے. ہندتوا اور نام نہاد نیشنلزم کا خمار جب اترے گا تو لوگ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کریں گے اور ان کو اندازہ ہوگا کہ سیاست دانوں نے سرمایہ داروں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرکے ملکی وسائل پر قبضہ کرلیا ہے اور عوام کے مقدر میں غریبی اور مہنگائی کی مار کے سوا کچھ نہیں ہے. اس وقت سیاسی قیادت کے خلاء کو اگر مسلم قیادت نے پر کردیا تو مسلمان اس ملک کے نجات دہندہ ثابت ہوں گے. ان شاء اللہ
زندہ رہنا ہے تو میر کارواں بن کر رہو
اس زمیں کی پستیوں میں، آسماں بن کر رہو
سوال:کیا آپ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
جواب: وقت کی ضرورت کے لحاظ سے مدارس اور اس کے نصاب میںکچھ تبدیلیاں لائی جانی چاہئیںلیکن اس کا تعلق بھی دہشت گردی سے نہیں ہے کیونکہ جنگ آزادی سے لے کر ملک کی تعمیر تک مدارس کا اہم رول رہا ہے ۔
سوال:اعظم گڈھ کو نشانہ بنانے کی وجہ؟
جواب:اعظم گڈھ میں مجموعی طور پر مسلمان خوشحال ہیں۔15بیس برسوں کے اندر مسلمانوں نے محنت کر کے روزی روٹی کمائی ہے۔نئی نسل کو وہ لوگ اعلی تعلیم دلانا چاہتے ہیں۔اعظم گڈھ کے بچے تیزی کے ساتھ ہر فیلڈ میں آگے بڑھ رہے ہیںاعلی مناصب کے ساتھ ہر فیلڈ میںبہتر کار کردگی نے بھی دشمنوں کے کان کھڑے کر دئے ۔اس مرتبہ خاص طور سے جدید تعلیم یافتہ طلبہ کو ٹارگیٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔دراصل یہ سازش اعظم گڈھ کے مسلمانوں کو ترقی کے راستے سے روکنے کے لئے ہے۔آزادی کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا گیا ہے۔نوکری میں ہمارا تناسب 35%سے 2%آگیا ہے لیکن جب ملٹی نیشنل کمپنیاں آئیں تو ہمارے بچے اس طرف جانے لگے لیکن اب دہشت گردی کا الزام لگا کر انہیں اس طرف جانے سے بھی روکا جا رہا ہے۔
سوال:بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے بعد علماء کونسل سماجی طور پر زیادہ سرگرم تھی لیکن سیاست نے علاقے پر مثبت اثرات نہیں ڈالے آخر اس کی وجہ؟
جواب:بٹلہ ہائوس انکائونٹر میں ہلاک ہونے اور گرفتار ہونے والے طلبہ چونکہ اعظم گڈھ کے تھے اس لئے اس خطے کو زیادہ نشانہ بنایا گیاتھایہاں تک کہ اسے آتنک واد کی نرسری تک قرار دے دیا گیاتھا۔کبھی رات کبھی دن میں چھاپے مارے جانے لگے تھے۔سنجر پور اورآس پاس کے علاقوں کو چھائونی میں تبدیل کر دیا گیاتھااس صورتحال میں وہاں کے سنجیدہ لوگوں نے مل بیٹھ کر کچھ کرنے کی تجویز پیش کی بالآخر4اکتوبر 2008کو اعظم گڈھ شہرمیں واقع مدرسہ جامعۃ الرشاد میں ضلع کے علماء کرام جمع ہوئے اور آگے بڑھ کر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا پلان بنایاگیا۔ چونکہ یہ میٹنگ مسلکی اختلافات سے دور خالص قومی مسائل کے حل کے لئے بلائی گئی تھی لہذا شیعہ ،سنی،دیوبندی ہر مسلک و مکاتب کے لوگ جمع ہوئے اور علماء کونسل کے نام سے اڈہاک کمیٹی بنائی گئی جس کا کنوینر مولانا عامر رشادی کو نامزد کیا گیا۔پہلا پروگرام اعظم گڈھ کے مہتہ پارک میں ہوا اس کے بعد یہ سلسلہ لکھنو،دہلی تک دراز ہوتا چلاگیا ۔پروگرام کا سلسلہ ابھی چل ہی رہا تھا کہ عام انتخابات آگئے،لوگو ں نے کہا کہ تمام سیاسی پارٹیاںدھوکہ دے رہی ہیںاور ہمارا کوئی سیاسی پلیٹ فارم بھی نہیں ہے لہذا ہمیں اس کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے چنانچہ اس کے بعد باقاعدہ راشٹریہ علماء کونسل کے نام سے ایک سیاسی پارٹی رجسٹرڈ کرالی گئی اور سماجی کے ساتھ ساتھ سیاسی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جانے لگا۔اس پارلیمانی انتخاب میں راشٹریہ علماء کونسل کے امیدواروں نے جہاں مقابلہ کیا ہے وہاں سے بی جے پی ہار گئی ہے، اس کیلئے اعظم گڑھ، جونپور، لال گنج اور سنبھل کا رزلٹ دیکھ لینا کافی ہے، جو لوگ سیاسی حالات پر نظر نہیں رکھتے وہی اس طرح کے سطحی تبصرے کرتے ہیں.
سوال:کیاراشٹریہ علماء کونسل سے ہندو فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت نہیں حاصل ہوگی؟
جواب:سیاسی لحاظ سے جو لائحہ عمل بنایا گیا ہے اس میں ہندو مسلمان تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کہی گئی ہے ۔اگر کسی ہندو پر بھی ظلم ہوتا ہے تو ہم اس کے لئے بھی بڑھ چڑھ کر آواز بلند کریں گے اور ظلم خلاف سینہ سپر ہو جائیں گے۔ہمارا مقصد یہ ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو سکے ظلم و زیادتی کا خاتمہ کیا جائے۔اگر ہمارے تنظیمی ڈھانچے کو دیکھیں تو جہاں مولانا نظام الدین اصلاحی صاحب اور مفتی عبداللہ پھولپوری صاحب اس کے سرپرست ہیں وہیں سینئر نائب صدور میں مولانا شاہ عبد الرحیم مظاہری اور پرماتما سرن پانڈے کا نام بھی شامل ہے جبکہ صدر مولاناعامر رشادی کو منتخب کیا گیا ہے۔اعظم گڑھ کے لوگ ہوں یا دیگر مقامات کے، سب کی سمجھ میں یہ بات اب آگئی ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے لالی پاپ کے علاوہ کچھ نہیں دیا ہے اور انہی کی زیر قیادت مسلمان دلتوں سے بھی نیچے پہنچ گئے ہیں، اس لیے اب اپنی قیادت کی اہمیت سب کی سمجھ میں آرہی ہے، اب وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہر ذات اور ہر برادری میں ہندتوا نواز طاقتوں نے اپنا رسوخ بنا لیا ہے اسی لئے سپا اور بسپا اور کانگریس کے امیدواروں کی شکست اپنے گڑھ میں ہوئی ہے. اب اپنی قیادت مضبوط کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے.
سوال:اعظم گڈہ اور اس کے اطراف کے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ علماء کونسل کی وجہ سے اعظم گڈھ میں بی جے پی کو فائدہ ہورہا ہے ۔یہ الزام کس حد تک درست ہے؟
جواب:جب علماء کونسل ۴اکتوبر۲۰۰۸؁ میں بنی اور اپریل۲۰۰۹؁ میں انتخابات آگئےتو ہم نے اپنی قوت کا مظاہرہ ضروری سمجھا ،لہذا امبیڈکر نگر،لکھنو،کانپور،لال گنج،جونپور،مچھلی شہر اور اعظم گڈھ میں اپنے نمائندوں کو کھڑا کیا گیا تھا۔لال گنج میں ہمیں 87ہزار ووٹ ملے،جونپور میں 55ہزار،مچھلی شہر میں16ہزار،لکھنو میں 3ہزار جبکہ اعظم گڈھ میں 65ہزار ووٹ ملے۔کسی نئی پارٹی کے لئے جنرل الیکشن میں اتنا ووٹ حاصل کرنا بڑی بات تھی۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارا نیٹ ورک اورتنظیمی ڈھانچہ بھی تیار نہیں ہوا تھالہذا ہم اپنی ابتداء کو اچھی ابتداء سمجھتے تھے۔ الیکشن کے میدان میں بہت جلد رزلٹ کی امید نہیں کرنی چائے بلکہ قربانی دینی پڑے گی،بھروسہ ہوگا تو لوگ خود ہی آئیں گے۔ اسی کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ الیکشن میں جب کوئی اپنی طاقت بنانا چاہتا ہے تو تمام پارٹیاں بی جے پی کا ہواکھڑا کر کے ہمیں ڈرانا چاہتی ہیں اور ہماری طاقت بننے نہیں دینا چاہتیں۔لیکن اب ہمیں اپنی طاقت بنانی چاہئے سیاسی لحاظ سے مسلمان اگر اپنا ووٹ بینک متحد کر لیں تو کسی بھی معاملے کو حل کیا جاسکتا ہے ۔جس طرح بہوجن سماج نے دلتوں کو کھڑا کیا ہے۔اس کے بعد مسائل بھی حل ہوں گے اور بات بھی سنی جائے گی۔اسی تناظر میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ حالیہ اکھلیش یادو کی جیت سپا بسپا گٹھ بندھن کا نتیجہ ہے، ان دونوں کو احساس ہوگیا تھا کہ اگر سمجھوتہ نہ کیا تو وجود خطرے میں ہے، یہ اگر الگ الگ لڑتے تو دونوں ختم ہوجاتے، لیکن جس طرح سے انہوں نے مسلم قیادت کو نظر انداز کیا اور بطور خاص ڈاکٹر ایوب انصاری کے ساتھ وشواش گھات کیا، اس سے ان کی مسلم دشمنی اجاگر ہے، اسی لیے راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر نے اسے ٹھگ بندھن قرار دیا تھا. اس الیکشن نے یہ واضح کردیا ہے کہ اپنی قیادت کے بغیر اس ملک میں ہمارا مستقبل محفوظ نہیں ہے، اس لیے میرا ماننا ہے کہ کونسل سمیت تمام مسلم قیادت کی پارٹیوں کا مستقبل روشن ہے.
سوال:تعلیمی مشغولیت کے ساتھ سیاسی جد وجہد کی وجہ سے کیا آپ لوگوں کے اداروں کو نقصان نہیں پہنچے گا؟
جواب:دراصل سیاست کے بارے میں جو سوچ ہے اس میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اگر اس میدان کو گندہ سمجھ کر ہی چھوڑ دیا جائے گا اور اچھے لوگ شمولیت اختیار نہیں کریں گے تو پھر گندگی کون ختم کرے گا؟لہذا سب سے پہلے تو اچھے لوگوں کو یہاں آنا چاہئے۔اگر سیاست میں رہ کر مدرسے کے ساتھ ساتھ ملت کے تحفظ کے لئے کوششیں جاری ہیں تو اس میں برائی کیا ہے ۔اس وقت ملت کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے اگر ملّت ہی نہیں بچی تو پھر مدارس کس کام آئیں گے ۔البتہ یہ بات درست ہے کہ اس تحریک میں ریاض العلوم گرینی،بیت العلوم سرائمیر،فیض عام دیو گائوں،جامعہ امام مہدی،جامعۃ الرشاد وغیرہ کے سربراہان شامل ہیں ۔لہذا سیاست اور مدارس کی ذمہ داریوں کے مابین توازن قائم رہے اور کسی ایک وجہ سے کسی دوسرے کاز کو نقصان نہ پہنچے اس بات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سوال:کیا جامعۃ الفلاح اپنے فرائض کو بہ خوبی انجام دے رہا ہے ؟
جواب:فلاح کے سامنے جو بنیادی مقاصدرہے ہیں ان میں ایسے افراد تیار کرنا ہے جن کے اندر دعوتی جذبہ ہو۔ہمارے فارغین اس کام کو مختلف پلیٹ فارم پر رہ کر انجام دے رہے ہیں۔ہمارے یہاں دینی و عصری علوم سے استفادہ کرکے ایسی نسل تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو گروہی تعصبات سے اوپر اٹھ کر دعوت و اصلاح کا کام انجام دے سکیں۔ تقابلی فقہ کا مطالعہ اسی وجہ کرایا جاتا ہے کہ طلبہ ہر جگہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں۔البتہ یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق جو علمی مواد تیار کرنا تھا اس میں کوئی خاطر خواہ کام انجام نہیں دیا جاسکا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *