ہجومی تشدد کا شکار عید کا چاند۔۔۔۔!

 ٹیڑھی میڑھی چاند کی شکل میں زعفرانی تصویر
ٹیڑھی میڑھی چاند کی شکل میں زعفرانی تصویر

عمر فراہی

یوں تو رات کی تاریکی میں چودھویں کے چاند اور اس چاند کی چاندنی کے رومانس کی بات ہی کچھہ اور ہے جس کی کشش سے ہر انسان کو سکون ملتا ہے لیکن ہلال عید کے چاند کو عالم اسلام میں جو منفرد مقام حاصلِ ہے اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔یہ بھی ہے کہ جب آدمی کو دلی سکون نہ ہو یا وہ خوف و دہشت اور انتشار کے ماحول میں جی رہا ہوتو دنیا کی قیمتی اور خوبصورت ترین شئے بھی حقیر اور بے معنی نظر آنے لگتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی کا اصل رومانس حقیقی امن و انصاف اور روحانی خوشی کے ماحول سے مربوط ہے ۔دل ہنس رہا ہو تو ہر دن عید ہے اور گاؤں کی سوکھی روٹی اور درختوں کے سائے میں بھی سکون ملتا ہے ۔ ذہن منتشر ہو تو شہر کی بلند و بالا عمارتوں کے پرتعیش مکانات میں بھی عید کی خوشی گھٹن جیسی محسوس ہوتی ہے ۔بدلتے ہوئے جدید زمانے کے ساتھ چاند نے بھی اپنی کشش کھو دیا ہے ۔پہلے چاند بھی بہت خوبصورت نظر آتا تھا حلانکہ چاند اب بھی وہی ہے اور آسمان کا رنگ بھی نہیں بدلا لیکن اب ماؤں بہنوں بچوں بچیوں کی طرف سے چھتوں اور میدانوں میں عید کا چاند دیکھنے کا اہتمام نہیں رہا ۔زمانے کی اسی بدلتی ہوئی تصویر پر پروین شاکر نے کہا ہے کہ
میں نے کہا یہ رات یہ چاند یہ ہوا
اس نے کہا یہ میری پڑھائی کا وقت ہے
اخراجات کے بوجھ میں دبے ہوئے انسانوں کو اب اتنی فرصت کہاں ہے کہ وہ تھوڑی دیر رات کی تاریکی میں چاندنی کے اجالے میں کسی بالائی منزل پر یا کھیت کھلیان میں بیٹھ کر قدرت کے حسین و خوبصورت نظارے اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں سے پر لطفِ ہو سکے ۔اب سب کو اپنے مستقبل یعنی کریئر کی فکر ہے ۔چاند بھی مادیت پسند ہوچکا ہے یا پھر چاند وہی ہے یہ صرف ہماری نظر کا دھوکا ہی !
شایداب چاند سیاست پسند بھی ہو چکا ہے اس لئے اب وہ ہمیں لہو میں ڈوبا ہوا بھی نظر آرہا ہے ۔شاید یہ بھی ہماری نظروں کا فریب ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو خون ہم سب کی آنکھوں میں اتر چکا ہے اس نظر سے ہمیں قدرت کا حسین اور خوبصورت نظارا بھی لہو لہان نظر آتا ہو ۔اس بات سے انکار بھی کون کرسکتا ہے کہ انسانوں نے قدرت کی ہر مخلوق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا شروع کر دی ہے ۔کھانے پینے کی اشیاء سے لیکر سیر وتفریح کے مناظر بھی مصنوعی ہو چکے ہیں ۔کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ خود گوشت پوست کا چلتا پھرتا انسان بھی مصنوعی تو نہیں ہو چکا ہے ۔ جس طرح سے انسانوں پر سے انسانوں کا اعتماد ختم ہو رہا ہے اب یہ بات مان بھی لینا چاہئیے کہ یہ وہ انسان نہیں ہے جس کے بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا کہ
جس کی رچنا اتنی سندر وہ کتنا سندر ہوگا
اب انسان کو خود انسان نے مصنوعی بنا دیا ہے ۔
چار پانچ روز پہلے تراویح کی نماز کی بعد یوں ہی بیٹھا موبائل دیکھ رہا تھا اسی دوران کچھ بچے میدان میں بکھرےہوئے ناریل کے پتے جلا کر میدان صاف کرتے ہوئے نظر آئے۔اچانک میری نظر ناریل کے جلتے ہوئےپتوں سے اٹھتے ہوئے شعلوں پر گئی۔دل میں آ یا کلک کر لوں ۔کلک کیا تو کیمرے میں اچانک یہ عجیب سی تصویر ابھر کر آئی۔کئ دنوں تک غور کرتا رہا کہ اس عجیب سی تصویر میں کہیں کوئی پیغام تو نہیں !۔کچھ دنوں تک کچھ سمجھ میں نہیں آیا لیکن کل معیشت ملٹی میڈیا کے ایڈیٹر دانش ریاض کی افطار پارٹی میں شرکت کا اتفاق ہواتو افطار بعد گفتگو کے دوران کسی نے ایک حدیث کا ذکر کیا جس کا مفہوم ہے کہ ایک دور آئے گا جب دنیا کے ایک خطے میں زعفرانی لباس والے حکومت کریں گے اور ان کی حکومت میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا جائے گا ۔ایک ساتھی نے کہا پہلے جب میں نے اس کتاب کو پڑھا تو یقین نہیں آیا لیکن اب جو دیکھ رہا ہوں اس سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جس اکثریت اور تیور کے ساتھ اب کی بار پھر زعفرانی حکومت کو کامیابی ملی ہے آئندہ کچھ سالوں تک زعفرانی حکومت کو شکست دینا ممکن نہیں ہوگا۔مجھے بھی اتفاقیہ طور پر بے جان موبائل کیمرے میں قید اس ٹیڑھی میڑھی چاند کی شکل میں زعفرانی تصویر کا راز کل سمجھ میں آیا ۔ شاید کیمرے نے سلگتے ہوئےشعلے سے آنے والی عید کے زخمی چاند کا وہ عکس قید کر لیا ہو جو ہجومی تشدد کا شکار ہو کر اپنی بگڑی ہوئی شکل سے مستقبل کی تباہی کا پیغام دینا چاہتا ہو ۔واللہ علم بالصواب۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *