خودفریبی کی بھی ایک حد ہونی چاہیے

القلم انگلش اسکول کے سالانہ جلسہ میںتعلیمی مظاہرہ کا منظر(تصویر: معیشت)

اسفرفریدی
کم وبیش سب کا اس پر اتفاق ہے کہ تعلیم ہی ترقی کی کنجی ہے۔ مسلمانوں میں تعلیم کی جب بات آتی ہے تو پہلے قرآن مجید کی پہلی آیت اقرا کا ذکرکیا جاتا ہے پھر ’ہر مسلمان مردعورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے ‘والی حدیث کے ساتھ ہی علم کے لیے چین تک جانے کی بات کہی جاتی ہے ۔ اس کے بعد مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کا رونا رویا جاتا ہے اور تعلیم کے فروغ پر زور دینے کا عہد وپیمان کیا جاتا ہے۔ پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ بہت ہوتا ہے تو مدرسوں کی جدید کاری کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ اس کے فائدے اور نقصان گنائے جاتے ہیں ۔ پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو مرض کی تشخیص کے بغیر ہی علاج کرنے کا ہوسکتا ہے۔البتہ تھوڑی سی توجہ دی جائے تو مسائل کا حل ممکن ہے۔ سب سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ تعلیم ضروری ہے کہ نہیں۔ جب یہ تسلیم کرلیا جائے گا کہ تعلیم ضروری ہے تو پھر اس کے حصول کی راہیں بھی نکل آئیں گی۔
تعلیم کے حوالے سے ایک اور بھرم پھیلا ہوا ہے۔ تعلیم کو مہنگا مان کر اس کے حصول کی راہ میں غریبی کو کھڑا کردینے کا چلن عام ہے۔ لیکن کیا واقعی یہی صورت حال ہے؟ میرے خیال سے تعلیم جہاں مہنگی ہوئی ہے وہیں بہت سستی بھی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام موجودوسائل کا ممکنہ حد تک استعمال کرنا ہے۔ ملک کے طول وعرض میں جہاں سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا ہے وہیں فاصلاتی نظام تعلیم کا نیٹ ورک بھی بہت مضبوط ہے۔ سرکاری اداروں میں تعلیم حاصل کرنا اب بھی بہت سستا سودا ہے۔ اس سلسلے میں بعض افراد کی یہ دلیل ہوسکتی ہے کہ سرکاری اداروں میں اچھی تعلیم نہیں ہوتی۔ یہ دلیل دراصل راہ فرار اختیار کرنے والی ہے۔حقائق پر غور کرنے سے پوری گتھی سلجھ سکتی ہے۔ ایک بچہ اسکول نہیں جاتا ہے۔ وہ کہیں اور بھی پڑھائی نہیں کرتا ہے۔ اب اس کو سب سے پہلے پڑھنے کے لیے اسکول بھیجنے کی ضرورت ہے یا پھر اچھے اسکول کی تلاش ضروری ہے۔ دنیا بھر میں یہ مسلمہ اصول ہے کہ سب سے پہلے موجود وسائل کا استعمال کرنا چاہیے۔ آپ کے آس پاس جو بھی اور جیسا بھی اسکول ہے ، پہلے اپنے بچوں کووہاں بھیجنے کو یقینی بنائیں۔ بچوں کا کتابوں سے رابطہ ہوگا تو ان میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوگا۔ اپنے آس پاس کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے نظام اور اس کے معیار کو بہتر بنانے میں آپ بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ اپنا تھوڑا وقت اسکول کے لیے بھی نکالیں ۔ بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے اتنا تو کر ہی سکتے ہیں۔ اس میں کسی بھی طرح کی غریبی آپ کے آڑے نہیں آئے گی۔
 مسلم محلوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہاں مسجد ، مکتب اور مدرسہ میں سے کوئی ایک چیز ضرور مل جائے گی۔ ان تینوں میں سے جو بھی فراہم ہو، اس کا تعلیم کے فرو غ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر سرکاری اسکولوں میں اچھی پڑھائی نہیں ہوتی ہے تو بچوں کو پڑھانے کے لیے اجتماعی ٹیوشن کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اس سے آپ کے محلے کے پڑھے لکھے بے روزگاروں کے لیے روزگار کے بھی مواقع پیدا ہوں گے۔ ابتدائی اور مڈل اسکول سے لے کر سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری سطح تک کی تعلیم کے فاصلاتی نظام سے بھی آپ استفادہ کرسکتے ہیں ۔ اس میں خرچ بھی بہت کم ہے۔
جو بچے فاصلاتی نظام تعلیم سے پڑھائی کریں ان کے لیے مسجد، خانقاہ ، مکتب اور مدرسے میں کہیں بھی دوپہر بعد ٹیوشن کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ قومی سطح کا بورڈ ہے۔ یہ قومی سطح کا بورڈ ہے۔ اس بورڈ کی سند بھی اسی طرح سے تسلیم شدہ ہے جس طرح سے سی بی ایس ای اور دوسرے بورڈ کے اسناد کو حکومت کی منظوری حاصل ہے۔ فاصلاتی نظام تعلیم سے پڑھائی کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنے دوسرے کاموں کو بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ یہی معاملہ اعلیٰ تعلیم کا بھی ہے۔ آپ گھر بیٹے اگنو اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی جیسے اداروں سے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے پیشہ ورانہ کورس بھی کرائے جاتے ہیں۔ تحقیق کا کام بھی ہوتا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ بعض والدین اور سرپرستوں کی مالی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ فاصلاتی نظام سے بھی بچوں کو پڑھاسکیں۔ ایسے افراد کی مشکلوں کو دور کرنے کے لیے سماج کے صاحب حیثیت لوگوں کو سامنے آنا چاہیے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے یہ سب کرنا ضروری ہے۔ اس کے برعکس ان دنوں بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے جارہے ہیں۔
 ابھی حال ہی میں دہلی سے ایک خبر آئی کہ وہاں وقف کی زمین پر ۵۰؍ اسکول کھولنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ اسکول جتنا زیادہ کھولاجائے وہ کم ہے۔ لیکن اس سے پہلے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے عوامی سطح پر بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ بچوں کو اسکول بھیجنے کی کوئی تدبیر نہیں،لیکن اسکول قائم کرنے کے لیے حکومت اور مسلم رہنما سبھی وقف کی زمین تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔ذرا غور کریں کہ جولوگ بچوں کو موجود اسکولوں میں بھیجنے پر توجہ دینے سے زیادہ اسکول کھولنے کی بات کرتے ہیں وہ کس کا بھلا کررہے ہیں؟
 اپنے گھر خاندان اور سماج میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ایک اور کام کرنا ہوگا۔ اپنی تما م تر مصروفیات کے باوجود گھر کے سبھی افراد کو روزانہ پڑھنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ آپ خود موبائل اور ٹی وی پر لگے ہوں اور بچوں سے یہ توقع کریں کہ وہ کتاب کھول کر پڑھنے کے لیے بیٹھ جائیں ۔ ایک اور بات غور کرنے والی ہے۔ ابھی حال ہی میں عید گزری ہے۔ اس موقع پر فی کس اوسطاً پانچ سو روپے کا کپڑا خریدا گیا۔ لیکن یہ اوسط ہے۔ بہت سے گھر وں میں فی کس دو ہزار سے پانچ دس ہزار روپے تک کے کپڑے لیے گئے ۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ایسے گھروں میں پورے سال بھر میں کتنے روپے کی کتاب خریدی گئی؟ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ایک انڈا زیادہ سے زیادہ دو افراد کھا سکتے ہیں جبکہ پانچ روپے سے بھی کم میں ایک اخبار آجاتا ہے اور اس اخبار کو پورا خاندان ہی نہیں پورا محلہ بھی پڑھ سکتا ہے۔ لیکن کتنی ستم ظریفی ہے کہ جس بلاک میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ایک اردو اخبار کی دو سو کاپیاں فروخت ہوتی تھیں وہاں آج سوکاپیوں پر بھی لالے پڑرہے ہیں ۔ اس کے برعکس دوسری ذات برادریاں جو کل تک اخبار کی صورت سے بھی ناواقف تھیں، آج ان کے گھروں میں ایک سے زائد اخبارات ورسائل آرہے ہیں۔
صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ کسی بھی کام میں خلوص کی ضرورت ہے۔ تبدیلی قدرت کا اصول ہے۔ تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلی ہورہی ہے۔ مدرسوں کے نظام میں بھی تبدیلی پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ مدارس تو اپنے سابقہ نصاب ہی کو اپنا لیں تو اسی سے کام چل جائے گا۔یہ آدھی ادھوری تعلیم کا زمانہ نہیں ہے۔ تعلیم کو خانوں میں بانٹ کر خود کو دھوکہ دینے سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ اس کا احساس بہت سے لوگوں کو ہوچکا ہے۔ اس لیے انہوں نے خاموشی کے ساتھ اپنی راہ بدل لی ہے۔ آپ خاموش کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ آگے بڑھیں۔ کوئی بھی سفر پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔ قدم اٹھائیں ، آگے بڑھائیں ، منزل مل جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *