نسیم احمد غازی فلاحی
یہ انسان کی کمزوری ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مسائل اور پریشانیوں کا حل اس کی خواہش اور مرضی کے مطابق نکلے ۔اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی اس معالج سے اپنا علاج کرانا پسند کرے جو اس کی پسند اور نا پسند کو ذہن میں رکھ کر نسخہ اور پرہیز تجویز کرے ۔یہ سوچ اور یہ پالیسی اپنے کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں ۔ایسا مریض کبھی شفایاب نہیں ہوسکتا اور نہ اس ذہنیت کے لوگوں کے مسائل کبھی حل ہوسکتے ہیں۔شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے :’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ جسمانی علاج کی شفا ماہر معالج کے تجویز کردہ نسخے ہی سے ممکن ہے۔اسی طرح ہمارے مسائل اور پریشانیوں کا حل صرف اور صرف مالک حقیقی رب کریم،قادر مطلق خدا کے تجویز کردہ نسخے ہی سے ہوسکتا ہے ۔اس سے بے پروہ اور بے نیاز ہو کر ادھر اُدھر ٹھوکریں کھانا اور سر پھوڑ نا ملی ہوئی مہلت کو ضائع کرنا ہے۔الحمدللہ ہم مسلمانوں کے پاس رب کریم کا عطا کردہ وہ قیمتی اور اکسیر نسخہ قرآن مجید کی شکل میں موجود ہے اور اس کا عملی نمونہ رحمت اللعالمین محمد ﷺ کی شکل میںہمارے پاس ہے۔اس مختصر سے مضمون میں اسی پاک کتاب کی ایک ہدایت آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہے جو ہمارے مسائل کے حل کرنے میں بڑی موئثر ثابت ہوگی ۔رب کریم نے اپنی کتاب میں فرمایا :’’اے پیغمبر !تہمارے رب کی طرف سے تمہاری طرف جو کچھ اتارا گیا ہے اسے (لوگوں تک )پہنچا دو اور اگر تم نے یہ فریضہ انجام نہیں دیا تو تم نے پیغمبری کی ذمہ داری پور نہیں کی اور ( یقین رکھو کہ )اللہ تمہیں (لوگوں کے شر اور فساد)سے بچائے گا (یہ بات بھی سمجھ لو کہ )اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔‘‘(مائدہ:67)اسی طرح کی ہدایات قرآن مجید میں مختلف مقامات پر دی گئی ہیں۔اس آیت میں پیغمبر ﷺ اور ان کے ذریعے سے پوری امت مسلمہ کا یہ فرض منصبی قرار دیا گیا ہے کہ رب کریم کی جانب سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے اسے عام انسانوں تک پہنچایا جائے۔اس امر میں کوتاہی یا غفلت دنیا و آخرت میں ناکامی و نامرادی کے سوا بیان کچھ بھی نہیں ۔دین حق اسلام کی تبلیغ اور دعوت کا فریضہ کس انداز سے انجام دیا جائے گا اور اس میں پیش آنے والے مسائل کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا اس کی تفصیلات قرآن کی مختلف صورتوں میں بیان ہوئی ہیں۔اصولی طور پر تبلیغ اور دعوت کا کام دو پہلو سے انجام دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔پہلی صورت دعوت و تبلیغ کی یہ ہے کہ اپنے قول سے رب کریم کے نازل کردہ پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کے جتنے جائز اور مناسب ذریعے ہیں ان سبھی کو استعمال میں لاکر دین حق لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔دین کے تعلق سے لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی جائے اور حکمت کے ساتھ مثبت انداز سے دین کا تعارف کرایا جائے۔دعوت و تبلیغ کا دوسرا اہم ذریعہ اور طریقہ دین کی عملی گواہی پیش کرنا ہے،یعنی دین اسلام کو ماننے والے تمام افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عمل سے لوگوں کے سامنے دین حق کی نمائندگی کریں۔لوگ مسلمانوں کی زندگیوں کو دیکھ کر دین حق سے واقف ہو جائیں ۔اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ عمل اور کردار سے اسلام کی دعوت دینا زیادہ موثر ذریعہ ثابت ہوا ہے۔مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ دین کی سنہری تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں اتار کرلوگوں کو بتائیں کہ اسلام کسے کہتے ہیں اور اس کی تعلیمات کتنی راحت بخش اور نفع بخش ہیں۔لوگ ہمارے اخلاق و کردار اور معاملات کو دیکھ کر اسلام سے متعارف ہوں۔ہم عہدو پیما ں کی پاسداری کریں ،کسی بھی حال میں وعدہ خلافی ،جھوٹ،فریب،دھوکہ ،بے ایمانی اور نا انصافی کے مرتکب نہ ہوں،خواہ اس کا کتنا ہی نقصان ہماری اپنی ذات یا ہمارے اپنے اعزہ و اقارب کا کیوں نہ ہو۔ملت کا ہرفرد امانتدار،لوگوں کا خادم اور ہمدرد ہو۔اگر ہماراکوئی شخص کسی آفس یا کمپنی میں خدمت انجام دے رہا ہے تو اسے چاہئے کہ اس ادارے اور کمپنی کو ترقی دینے اور اس کا نام روشن کرنے کے لئے مخلصانہ محنت کرے اور اپنے عمل سے اس ادارے یا کمپنی کی نا گزیر ضرورت بن جائے ۔ہمارے معالج و ڈاکٹرس اپنے مریضوں سے لوٹ کھسوٹ کے بجائے ہمدردی اور اپنائیت کے ساتھ ان کا علاج کریں۔ہمارے صحافی جھوٹی خبروں اور بے حقیقت باتوں سے پرہیز کرتے ہوئے سچائی سے لوگوں کو باخبر کریںاور کسی بھی حال میں سچائی اور دیانت داری کا دامن اپنے ہاتھوں سے نہ چھوڑیں۔ہمارے وکیل اسلام کا نمونہ پیش کرتے ہوئے لوگوں کی خدمت کو عبادت سمجھیں ۔ان کو انصاف دلانے کی کوشش کریں ۔جھوٹ ،غلط بیانی ،بہتان تراشی سے پرہیز کریں اور عزم کریں کہ وہ کبھی بھی کسی جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے کی پیروی نہیں کریں گے ،خواہ اس کے سبب انہیں کتنا ہی مالی نقصان اٹھانا پڑے ۔وہ خصوصاً کمزور طبقات اور لاچار انسانوں کو کم خرچ میں انصاف دلائیں اور ثابت کریں کہ کس طرح اسلام لوگوں کے لئے رحمت بن کر آیا ہے۔ہمارے تاجر اپنی تجارت و کاروبار میں اسلام کے زریں اصولوں پر عمل کریں ۔نہ وہ کسی کو بنا بتائے عیب دار چیز فروخت کریں اور نہ ناپ تول میں کمی کریں اور بے تحاشا منافع خوری سے پرہیز کریں۔ہمارے افسران اور ملازمین اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے عہدو پیمان کا خیال رکھیں اور اپنے کاموں میں ڈنڈی نہ ماریں ۔لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں اور اپنے اوقات کی تنظیم کریں۔ہمارے نوجوان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھیں ۔اپنے اندر بہترین اور اعلی صلاحیتیں پیدا کرکے ان کے ذریعے انسانوں کی خدمت انجام دیں۔نیر اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے ہر طرح کی اخلاقی اور جنسی بے راہ روی سے دور اور لوگوں کی عزت و آبرو کے محافظ نظر آئیں ۔ہر مسلمان بلا لحاظ مذہب و ملت اپنے پڑوسیوں کا ہمدرد اور محافظ بنے اور اللہ کے تمام بندوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہوئے ان کے دکھ درد میں ان کے کام آئے ۔مسلمان اپنے بچوں اور بچیوں کی شادی اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھ کر جاہلانہ رسوم سے پاک کم خرچ بلکہ بنا خرچ کریں۔مختصراً یہ کہ مسلمانوں اور ان کے سماج کو دیکھ کر دوسرے لوگ اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ اسلام ایک دین رحمت ہے اور وہ اس کے سایہ میں رہنے میں عافیت محسوس کرنے لگیں۔قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان پیغمبروں نے ان دونوں پہلوئوں سے عمل کرکے ایک صاف ستھرا آئنہ اور نمونہ ہمارے لئے چھوڑا ہے ۔خودنبی ﷺ اور ان کے ماننے والوں کے بارے میں اللہ کہتا ہے کہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم سارے انسانوں کے سامنے اسلام کے گواہ بنو۔اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی اس ذمہ داری کو ادا کرنے پر قادر مطلق خدا کا صاف اعلان ہے کہ وہ تمہیں انسانوں کے شرو فساد اور ان کی ایذا رسانیوں سے بچائے گا ۔تمہیں ہر طرح کے مصائب سے محفوظ رکھے گا۔پیارے نبی ﷺ کی زندگی اس حقیقت پر گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس فریضے کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کی جس کے نتیجے میں آپ ﷺ کو زبردست کامیابی نصیب ہوئی۔مسلمان اگر اپنے قول کے ساتھ اپنی عملی زندگی سے اسلام کا نمونہ پیش کریں گے تو اسلامی تعلیمات اپنا اثر دکھائیں گی اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں گی۔آج جو لوگ مسلمانوں اور اسلام کے دشمن نظر آرہے ہیں وہ ان کے جگری دوست بن جائیں گے۔ہمیں یہ بات اپنے سامنے رکھنی چاہئے کہ ہمارے برادران وطن خود بے شمار مسائل کا شکار ہیں ۔ان کو اپنے مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے ۔اسی لئے نہ جانے کتنے لوگ اپنے ہاتھوں اپنے کو اور اپنے بال بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔انہیں ایسے نسخہ کیمیا کی ضرورت ہے جو انہیں سچی راحت نصیب کرے اور ان کے مسائل سے انہیں نجات دلائے ۔بلا شبہ یہ نسخہ قرآن کی صورت میں صرف اور صرف مسلمانوں کے پاس ہے ۔مسلمانوں کی روشن تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ مکی دور میں کتنے سخت اور ناگفتہ بہ حالات میں نبی ﷺ کی قیادت و رہ نمائی میں صحابہ کرام ؓ نے صبر و تحمل اور خلوص و محبت کے ساتھ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور اپنے عمل سے انہیں متاثر کیا۔ایک دور آیا کہ جو دشمن تھے وہ نہ صرف جگری دوست بن گئے بلکہ دین کے عامل اور مبلغ ہوگئے۔اور قرآن مجید کی آیت بالکل سچ ثابت ہوئی۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...