میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا

اردو اخبار معیشت
اردو اخبار معیشت

سوشل میڈیا پر ایک تحریر آج کل بہت گشت کررہی ہے کہ’’ میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا‘‘۔دراصل عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ’’انی قتلت یوم قتل الثور الابیض ‘‘میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا۔اس کی تفصیل یوں ہے کہ کسی جنگل میں دوبیل رہتے تھے ایک لال اور ایک سفید جن کی آپس میں گہری دوستی تھی۔ ایک ساتھ گھومنا پھرنا اور چرنے کیلئے بھی ایک ساتھ آنا جانا۔ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے۔ شیر نے ایک چال چلی اورلال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کر کے اور روشن مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا، لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا کہ بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ محفوظ نظر آ رہی تھی۔ لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا۔پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے مگر اب اکیلے بیل کیلئے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا۔سفید بیل نے اپنے ساتھی بیل کو بہت پکارا بہت آوازیں دیں، پرانی دوستی کے واسطے دئے اور بیل ہونے کے ناطے بھائی چارے کا احساس دلایا۔ مگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہا۔وہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس کے ساتھ ہی تمام ہوجاتا۔ تھوڑے دن گذرے کہ شیر نے اسے بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ(میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا)امت مسلمہ بھی آج کل اسی حالت کا شکار ہے۔ سب شیر کی دوستی پر خوش اور مطمئن ہیں اور یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ باقیوں کی باری تو لگ رہی ہے مگر ہماری باری نہیں آئےگی کیونکہ ہم تو جنگل کے بادشاہ کے دوست اور مقرب ہیں۔ان احمقوں کو یہ سادہ سی حقیقت سمجھ نہیں آ رہی کہ شکاری اور شکار کے درمیان دوستی جیسا غیر فطری رشتہ ہو ہی نہیں سکتا‘‘۔
ماب لنچنگ،تین طلاق،قضیہ بابری مسجد، دہشت گردی کا لیبل ،کشمیر میں ظلم سمیت ہزارہا واقعات اب منھ چڑارہے ہیں کہ مسلمان ملی تشخص کھو چکا ہے اور اب وہ محض نوالہ تر ہے کہ جسے جب چاہے نگلا جاسکتا ہے۔ایسے میں این آر سی کے خوف نے اس کی آدھی جان مزید نکال دی ہے ۔اب یا تو ملت اپنی موت آپ مرجائے یا پھر متحد ہوکر مقابلہ کرے کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے۔ورنہ بیل کی مثال محض مثال نہیں ہے بلکہ حقیقت کا ادراک ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *