علماءدعوت دین کا فریضہ انجام دیں،جس مقصد کے تحت اللہ تعالی نے بھیجا ہے اس کو ادا کرنے کی کوشش کریں

علی ایم شمسی کو مولانا ابو ظفر حسان ندوی توصیفی سند پیش کرتے ہوئے
علی ایم شمسی کو مولانا ابو ظفر حسان ندوی توصیفی سند پیش کرتے ہوئے

نوی ممبئی علماء کرام کانفرنس میں صلحائے دین نے کہا کہ موجودہ ماحول میں لوگ خوف و ہراس میں مبتلا نہ ہوںبلکہ دعوتی فکر کو عام کریں
نوی ممبئی(معیشت نیوز) موجودہ ماحول میں سرکاری اور درباری علماء نے امت مسلمہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔ماضی میں بھی سرکاری مولویوں نے ہی دین کو رسواکرنے کی کوشش کی ہے لہذا مسلمان سرکاری اور درباری مولویوں سے ہوشیار رہیں ۔ان خیالات کا اظہار معیشت اکیڈمی کی جانب سے نوی ممبئی میں منعقدہ بین المدارس انعامی مقابلہ و علماء کانفرنس میں جید عالم دین علامہ مولاناابوظفر حسان ندوی ازہری نے کیا۔انہوں نے تاریخ اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’سخت وسنگین حالات ہمیشہ آئے ہیں لیکن امت اپنے دین و ایمان پر جمی رہی ہے یقیناً اس وقت بھی ملت کو سخت حالات کا سامنا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر امت حقیقی معنوں میں مسلمان ہوجائے تو مصیبتیں ختم ہو سکتی ہیں‘‘۔علماء کو نصیحت کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’’عالم دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوت دین کا فریضہ انجام دے اورجس مقصد کے تحت اللہ تعالی نے اس دنیا میں بھیجا ہے اس کو ادا کرنے کی کوشش کرے ۔ دردمندانہ لہجہ میں علماء سے کہا کہ ہم کچھ بھی کہہ لیں لیکن اصل بات یہ ہیکہ ہم اپنا کام نہیں کر رہے ہیں ، ہمیں اپنے اندر پہلے عملی تبدیلی لانی چاہئے۔ مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ’’ میں بھی عالم ہوں اور میرے بھا ئی بھی ایک اچھے عالم ہیں لیکن میری بھابھی کو دینی مسئلہ پوچھنا ہوتا تو وہ ہم سے نہ پوچھ کر گاؤں کے ایک دوسرے عالم سے مسئلہ معلوم کرتی تھیں کیونکہ ان کی نگاہ میں عملاً وہ معتبر تھے‘‘جامعہ اسلامیہ نور باغ کے ذمہ دار مولانافیصل عبد الحکیم مدنی نے ارتداد وانحطاط پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت یہ بات عام ہوگئی ہے کہ مسلم لڑکیاں غیر مسلموں سے شادی کر رہی ہیں جبکہ بسا اوقات مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کے ساتھ بغیر کلمہ پڑھائے شادی کر لے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں انہیں نہ تو ارتداد کےبارے میں علم ہے اور نہ ہی اس بات کا علم ہے کہ وہ فکری طور پر کس قدر انحطاط کا شکار ہیں ۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی بیداری لائی جائے اور غیر اسلامی رسوم کے بارےمیں گھروں میں بھی بات کی جائے۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ ’’اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین صرف دین اسلام ہی ہے اور اس کے علاہ کسی بھی دین کو اللہ قبول نہیں کریں گے، اپنے بات کو انہوں نے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۹ سے مدلل کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ کو یہ دین اسلئےپسند ہے کیونکہ یہ دین فطرت ہے۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جو شخص اپنے گھروں کے ماحول کو دینی نہیں بناتا وہ آہستہ آہستہ ارتداد کی جانب بڑھتا ہے اور ارتداد صرف زبانی نہیں ہوتا بلکہ فکری اور عملی بھی ہوتا ہے جیسے کہ مسلم گھرانوں میں یو م پیدائش منانے کے رواج عام ہے ‘‘معیشت اکیڈمی اور دانش ریاض کی کوششوں کو سراہتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’’معیشت جن امور پر کام کر رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے ہاتھوں کو مضبوط کیا جائے اور ان لوگوں کو تقویت پہنچائی جائے جو فکری طور پر معاشرے کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘فیروس فائونڈیشن کے سابق سپر وائزر القرآن اکیڈمی کے سربراہ مولانا عبد البر اثری فلاحی نے قرآنی تعلیمات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’لوگوں نے قرآن کو نہ صرف پڑھنا بلکہ سمجھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں‘‘انہوں نے سیرت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے اپنے سماجی تعلقات کو خوشگوار اور وسیع تر کیا اور اس کو تبلیغ دین کیلے جہاں تک ممکن ہوسکا استعمال کیا۔مثلاً امھات المؤمنین میں جویریا ؓ جو کہ ایک رہزن خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ، ایک غزوہ میں وہ جب قیدی بنا کر لائیں گئی تو اللہ کے رسول نے ان سے نکاح فرمایا ، اسطرح ان کا خاندان نبی کا سسرالی خاندان ہوگیا، ادھر صحابہ ؓ نے کہا کہ نبی کےخاندان والوں کو ہم قیدی نہیں بنا سکتے اوربالآخر اس خاندان کے سارے قیدی آزاد کر دئے گئے ۔ بوجہ اس اخلاق حمیدہ کے سارا خاندان اپنے برے پیشہ سے باز آگیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ موصوف نے اپنے خطاب میں علماء سے اپیل کی کہ وہ بھی اپنے سماجی تعلقات کو بروئے کار لا کر تبلیغ دین کے فریضہ کو انجام دیں‘‘۔واضح رہے کہ معیشت میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ نے معیشت اکیڈمی کے اشتراک سے ممبرا کوسہ ،تلوجہ ،پنویل اور نوی ممبئی کے مدارس اسلامیہ کے مابین تحریری و تقریری مقابلے کے ساتھ یک روزہ علماء کرام کانفرنس ’’نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے‘‘الحسنات اینگلو اردو اسکول تربھے نوی ممبئی میں منعقد کیا تھا جس میں دو سو سے زائد علاقےکےعلماء کرام نے شرکت کی اور جید علماء کرام کے ساتھ سماجی تنظیموں کے سربراہان کو سماعت کیا۔
جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے مرکز فلاح کے صدر علی ایم شمسی نے کہا کہ ’’علماء کرام اگر اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں تو مذکورہ شعر ’’نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے ‘‘بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ علامہ اقبال نے جواب شکوہ میں کہا ہے کہ ’’وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے‘‘انہوں نے کہا کہ ’’میںمعیشت اکیڈمی کے ڈائرکٹر جناب دانش ریاض صاحب کا ممنون ہوں کہ انھوں نے ایسے نازک حالات میں انتہائی حساس موضوع پر ایک عمدہ اور انتہا ئی نفع بخش پروگرام منعقد کرایا جسکی آج امت کو سخت ضرورت ہے۔ اللہ ان کو اپنے شایان شان بہترین جرا عطاکرےآمین‘‘۔سماجی کارکن الصامت انٹر نیشنل کے مالک غلام پیش امام نے کہا کہ ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ حفاظ قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھتے جبکہ علماء کرام قرآن کے مآخذ سے استفادہ نہیں کرتے نتیجتاً دین پھیلانے والے ہی دین سے بے پروا نظر آتے ہیں ‘‘انہوں نے علماء کرام سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت دین میں بگاڑ کی ایک وجہ علماء کرام کا دین کو نہ سمجھنا بھی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ’’ اسلام کا عائلی نظام اور غیر مسلم معاشرے کے اس پر اثرات‘‘کے عنوان سے تحریر کردہ محمد افضل شاہ محمد کے مقالے کو پہلا انعام جبکہ ’’نبی کریم ﷺ کے سماجی تعلقات اور معاشرے پر اس کے اثرات‘‘کے عنوان سے تحریر کردہ خان نصرت شاہ محمدکو دوسرا انعام اور سمیہ محسناتی بنت نسیم اختر انصاری کو ان کے مقالہ’’ اسلام کا عائلی نظام اور غیر مسلم معاشرے کے اس پر اثرات‘‘ پر تیسرا انعام تفویض کیا گیا۔جبکہ تقریری مقابلے میں پہلا انعام محمد بلال دوسرا انعام شیخ اعجاز اور تیسرا انعام محمد عامل کو تفویض کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ تمام شرکاء کو تشجیعی انعامات سے بھی نوازہ گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *